اسلام میں تجارت کی اہمیت

ریاض فردوسی

پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔(سورۃ۔جمعہ۔آیت۔10)

کیوں کہ یہ سورہ جمعہ کی آیت ہے اورقبل والی آیت نماز جمعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنا کاروبار حق اور حلال طریقے سے کرو۔بلکہ عام دنوں میں بھی اس کی دلیل ہے کہ تم نماز فرض کے بعد منتشر ہو کر زمیں میں اللہ کا فضل تلاش کرو۔رزق حلال اور دیگر معاملات کے لئے سعی کرو۔مذہب اسلام سستی اور کاہلی سے منع فرماتا ہے۔اللہ کا فضل تلاش کرنا قرآنِ کریم کی اصطلاح میں تجارت اور دیگر اشہاء کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ خرید وفروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نماز اور رات کی تاریکی کو ختم کرکے نماز فجر ادا کی ہے۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ پابندی اٹھ جاتی ہے،اور خرید وفروخت جائز ہوجاتی ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ صبح سویرے ہی سے تجارت وغیرہ کا آغاز کریں، اس طرح قرآن پاک پر عمل ہوگا اور برکت کا ذریعہ بھی ہی۔آپ ﷺ کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا۔تقریباً25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی  اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے  کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیے بھی انجام دیا کرتے تھے۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا“(سنن الترمذي، حدیث نمبر۔1253)

سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے کندھے پر رسی ڈال کر ایندھن کی لکڑیاں اٹھائے ہوئے بازار میں فروخت کے لیے لا رکھے اور اسی سے دولت کما کر اپنی ذات پرصرف کرے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرے وہ اسے دیں یا نہ دیں۔ (مسند امام احمد ابن حنبل۔حدیث۔1407)

سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ آپ نے فرمایا: آدمی کے ہاتھ کی کمائی اور ہر مبرور تجارت(مسند احمد۔۔رقم حدیث۔17397)

آج کے اس پر خطر دور میں ہمارے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ملٹی نیشن کمپنیوں کی گرفت میں ہے جو انہیں محنت مزدوری سے دور کرکے جلد ہی کامیابی کی منزل طئے کرانا چاہتے ہیں۔جو ہمارے مذہب اسلام کے پیغام معاش کے برعکس ہے۔ملٹی لیول کمپنیاں“ ہندوستان میں تو بیسویں صدی کی آخری دہائی میں متعارف ہوئی ہیں، لیکن اس سے پہلے دیگر ممالک خاص کر یورپی ممالک میں یہ تجربہ کے مرحلے سے گذرچکی ہیں، خود ”ایموے“AMWAY اور دیگر مشہور کمپنیوں کے پروگراموں میں بھی اس کی صراحت کی جاتی رہی ہے، تعارف کرانے والے اس انداز سے بیان بازی کرتے ہیں کہ جیسے یہ کمپنیاں ان ترقی یافتہ ممالک کو فیض یاب کرکے اب ہمارے ملک کو بھی فیض یاب کرنے آئی ہیں، حالانکہ بات اس کے برعکس ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اِن کو اُن ممالک سے راندئہ درگاہ کردیاگیا ہے، وہاں کے ماہرینِ اقتصادیات نے انھیں مسترد کردیا ہے اور چونکہ اس کے بنیادی ساخت (System) میں دھوکہ اور تجارتی چال بازی (Busness fraud) ہے؛ اس لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اور حکومتوں نے ان کے ضرر سے بچنے کی تلقین کی ہے، ان کے نعرے ضرور دلکش ہیں لیکن حقیقت میں پرفریب ہیں، انجام کار ساری رقوم ان کمپنیوں اور اداروں کے مالکان کی جھولی میں چلی جاتی ہیں، ممبران کو سوائے سراب اور دھوکہ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

امریکہ میں اسی طرز کی ایک کمپنی اسکائی بزکوم (Skybiz.com) ہے،اس کمپنی کی شاخیں متعدد ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر خود امریکی حکومت نے مذکورہ کمپنی پر عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور چال بازی (Fraud) کا الزام عائد کیا ہے، اسی کے پیش نظر ”اوکلاہومااسٹیٹ“ کی عدالت نے کمپنی کی سرگرمیاں روک دینے،اور کمپنی کے کارکنوں اورایجنٹ حضرات کا سرمایہ اوراجرت انھیں واپس کیے جانے کے پیش نظر اس کمپنی کے اثاثے منجمد کردینے کا فیصلہ کیاہے۔ (دیکھئے امریکی وزارتِ تجارت کی ویب سائٹ: http://www.Ftc.gov/opa/2001/06sky.htmبحوالہ بحث ونظر شمارہ۔،68۔69 جنوری – جون 2005/ص۔163)

جاپان اور چین میں 1998/ میں ایموے (Amway) اوراس طرز کی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ (اخبار منصف: مینارئہ نور۔24/3/1428ھ)

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمپنیاں ممبرسازی کے لیے پورا تعاون فراہم کرتی ہیں، لیکن مصنوعات کی فروخت میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا، بلکہ کھلی مارکیٹ میں لاکر فروخت کرنا ضابطہ کے خلاف بتاتی ہیں، ظاہر ہے کہ جہاں کھلی مارکیٹ میں مصنوعات آئیں گی تو سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا، لوگ جب دوسری کمپنیوں کی مصنوعات سے موازنہ کریں گے، تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔شرعی لحاظ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ اس کمپنی میں شریک ہونے والوں کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی مدِنظر رہتا ہے، گویا مقصود کمیشن ہے سامان نہیں، سامان کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں پرکچھ تری محسوس ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلے والے سے پوچھا یہ کیاہے ؟ دوکان دارنے کہا : یارسول اللہ !اس ڈھیر پر بارش ہوگئی تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : پھر تم نے بھیگے ہوے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ، جوشخص دھوکہ دے ، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر۔295)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔خرید نے اور بیچنے والے اگر سچائی سے کام لیں اور معاملے کو واضح کر دیں تو ان کی خرید وفروخت میں بر کت دی جاتی ہے ، اور اگر دونوں کوئی بات چھپالیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے کا روبارسے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر۔1937)

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ خدا اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے کام لیتا ہے “(صحیح البخاري، حدیث نمبر۔2076)

ہم غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری معاملات کر سکتے ہیں۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہود کو کھیتی باڑی کیلئے دی، اور اس پر انہیں پیداوار کا نصف حصہ بھی دیا۔ بخاری: (2366)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ،کیا کوئی مسلمان کسی عیسائی کیساتھ کاروباری شراکت قائم کر سکتا ہے، مثلاً مل کر بکریاں پالیں، یا بکریوں کی تجارت کریں، یا کوئی اور کاروبار کریں؟”

تو انہوں نے جواب دیا:

” مسلمان کسی عیسائی کیساتھ یا کسی کافر کیساتھ تجارتی شراکت داری قائم کرے تواصل کے اعتبار سے یہ جائز ہے، بشرطیکہ کافر کیساتھ دلی لگاؤ نہ ہو، بلکہ زراعت، پالتو جانور وغیرہ کے کاروبار میں تعاون ہو۔اس وقت دنیا میں پچاس سے زائد اسلامی ملک ہیں۔ کروڑوں مسلمان دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں اور لاکھوں مسجدیں ہیں جہاں نماز ادا کی جاتی ہے اور قرآن مجید پڑھا جاتا ہے۔ ہرسال لاکھوں مسلمان حج وعمرہ کرتے ہیں اور بڑے بڑے مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں۔مسلمان ہرطرح سے اسلام پر عمل کررہے ہیں۔پھر بھی ہم ہر اعتبار سے غیر مسلموں سے پیچھے ہیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جب ہم قران مجید پڑھتے ہیں تو اُس میں پہلی قومیں جو گذر گئیں ہیں اُن کے حالات بیان کئے گئے ہیں کہ وہ کیوں تباہ ہوئیں۔یہ یاد دہانی  کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ بھی اگر کسی قوم نے ایسا کیا تو اُس کا بھی وہی حال ہوگاجو پہلی اقوام کا ہوا تھا۔ پہلی قومیں کم تولنے، بُرے اخلاق، غریب لوگوں سے زیادتی، علم اور دولت کو عام انسانوں کی بھلائی کے لیے نہ استعمال کرنا، معاشرتی برائیوں اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ ہوئی۔

مسلمانوں نے جب اپنے نبی کے پیغامات کو دل وجان سے تسلیم کیا،دنیا ان کی غلام ہوہئ۔آپس کے اختلافات اور خاندانی حکومتوں سے عوام کی آزادی اور عدالتوں کے اختیارات ختم ہوتے گئے۔ مسلمانوں میں آپس میں حکومت کے لیے لڑائیاں ہونے لگیں اور مسلمانوں میں فرقے بننے شروع ہوگے جس سے اللہ تعالیٰ نے سخت منع کیا تھا۔ اسلام ایک دین کی بجائے مذہب بن گیا جو صرف مساجد تک محدود ہو کر رہ گیا،جب کہ حکمران طبقہ الگ سے اقتدار کے مزے لیتا رہا۔ اسلام نے غلامی کو ہمیشہ سے ختم کردیا تھا مگر بدقسمتی سے مسلمان حکومتوں میں غلاموں کا کاروبار ہوتا رہا۔ اسلام میں دین اختیار کرنے کی مکمل آزادی تھی لیکن مذہب کے نام پر لوگوں پر بہت سختیاں کی گئیں۔ غوروفکر اور تحقیق جس پر قرآن بار بار زور دیتا ہے اور کائنات کا علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے اُسے ترک کرکے قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنے کی رسم ادا ہونے لگی۔قرآن کی تعلیمات کا مقصد محض مذہبی کام نہیں بلکہ یہ سائنس اور دوسرے علوم کو حاصل کرنے پر بہت زور دیتا ہے جسے بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ مذہبی رہنماء اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے ادا نہ کرنے لگے۔ اللہ کی اطاعت کی بجائے رسمی عبادت نے لے لی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

تبصرے بند ہیں۔