اسلام میں تعددازدواج کا مسئلہ

مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

اسلام دین فطرت ہے ،انسانی طبیعت سے میل کھانے اور بشری تقاضوں کو پورا کرنے کی جو اعلی صلاحیت اس مذہب میں موجودہے ،دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ،اس کی تعلیمات آفاقی ،ہدایات ابدی اور احکامات حکمت پر مبنی ہیں ،خاص کر آج کے اس ہوس پرست اورمادیت پسند دور میں،ایک نفیس ، پاکیزہ، روح پرور، اور حیات بخش معاشرہ کی تشکیل اور آئینۂ نفس کی جملہ رزائل سے تطہیر کے لئے دین اسلام کا نفاذ اوراسلامی تعلیمات کا فروغ وقت کی سنگین اور اہم ترین ضرورت ہے ۔
اسلام کی اسی حقانیت ہمہ گیریت اور آفاقیت کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگوں میں اسلام کے تئیں کافی حسد پایا جاتا ہے ،وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا متوازی نظام پیش کیا جائے ؛ جس سے اسلامی اصول زیر ہو جائیں؛ مگراسلام سے اس درجہ بغض وعناد کے باوجود، اس کو بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازشوں کے باوجود اور اسکی تعلیمات کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تما م تر کوششوں کے باوجود آج بھی دنیائے مغرب میں نہایت تیز گامی کے ساتھ پھلنے پھولنے والا مذہب کوئی ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔
یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں ؛ جن سے چشم پوشی آفتاب نیم روزسے اغماض کے مترادف ہے اور ہر ذی شعور ، حالات سے باخبر شخص ان کی صداقت و سچائی سے بہ خوبی واقف ہے۔
ان سب کے باوجود مسلمانوں ہی کا ایک روشن خیال طبقہ ایسا ہے جو احکام شریعت کی تجدید کا خواہاں ہے ، جس کو اسلام کی بیشتر تعلیمات ،عقل و خرد سے متصادم نظر آتی ہیں،جس کا کہنا ہے کہ اسلامی ہدایات ،عدل و مساوات کے سراسر متصادم ہیں، مزید بر آں آسان اسلام کو دشوارتربناکرپیش کرنے کے واحدذمہ دار، علماء کرام اور وارثین انبیاء ہیں ، جن کی ناعاقبت اندیشی سے مسائل دین ایک معمہ بن کر رہ گئے ہیں ۔(معاذاللہ)
ان ہی مسائل میں ایک اہم مسئلہ تعدد ازدواج کا ہے؛جو ان دنوں میڈیا کی ستم ظریفی کا شاخسانہ بنا ہوا ہے ۔
آئیے زیر بحث مسئلہ کا عقل ونقل کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیتے ہیں
تعدد ازدواج دیگر مذاہب میں :قران ہی دنیا کی وہ واحد الہامی کتا ب ہے جو عام حالات میں ایک ہی شادی کاحکم دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب دنیا میں موجود نہیں جو ایک شادی کا صراحتا امرکرتی ہو،آپ پوری ’’گیتا‘‘پڑھ جائیں، پوری’’راماین‘‘کا مطالعہ کرلیں، پوری ’’مہا بھارت‘‘ ٹٹول لیں، کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتٰی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے ؛بلکہ اگر ہندوؤں کے متون مقدسہ کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں،اسی طرح اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارھویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ،یہاں تک کہ ربی گرشم بن یہوواہ نے اس پر پابندی عائد کر دی، اس کے باوجود عرب علاقوں میں آباد یہودی 1950ء تک ایک سے زائدنکاح کرتے رہے لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما ء نے کثرت ازدواج پر مکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی ہے ، یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علما ء نے ایک سے زائد شادیوں پر پابندی لگائی ہے ،اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تعدد کی مشروط اباحت اوراس کے جواز میں شرعی نصوص :اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے :اگر تم ڈرتے ہوکہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چار ، لیکن اگر تمہیں برابری اورعدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی ، یہ زیادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ ( سورۃ النساء)۔
تعدد کے جواز پر یہ نص نہایت صریح ہے چناںچہ شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ مرد ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں کو بہ یک وقت نکاح میں رکھے، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہیں ؛لیکن وہ ایک وقت میں چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، مفسرین کرام فقہاء عظام اورسب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا ۔
اسی طرح غیلان بن امیہ ثقفی جب اسلام لائے تو ان کے عقد میں (10)بیویاں تھیں، رسول اللہ ا نے انہیں حکم دیا کہ اخترمنھن اربعا وفارق سائرھن ان میں سے چار کو چن لو اور باقی تمام کو جدا کردو۔(رواہ النسائی واحمد)
اوریہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ تعدد زوجات کے لیے کچھ شروط بھی ہیں : ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے :اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ( تواگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم ان کے درمیان برابر اورعدل نہیں کرسکتے توپھر ایک ہی کافی ہے ( سورۃ النساء)
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے ، اوراگرآدمی کویہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا توپھر اس کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنا منع ہے ،اورتعدد کے جواز کے لیے جوعدل اوربرابری مقصود اورمطلوب ہے وہ اپنی بیویوں کے مابین نفقہ ، لباس، کاوررات بسر کرنے وغیرہ اورمادی امور جن پر اس کی قدرت اوراستطاعت ہے،ان چیزوں میں عدل کرنا مراد ہے ،اورمحبت میں عدل کرنے کے بارے میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چیز کا اس سے مطالبہ ہے ، اورپھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کا بھی یہی معنی ہے :( اورتم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو (النساء:129)
دوسری شرط :بیویوں پرنفقہ کی قدرت یعنی خرچ کرنے کی استطاعت :اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا:ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحا حتی یغنیھم اللہ من فضلہاوران لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہیے جواپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے( النور 33)اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جوبھی نکاح کرنے کی استطاعت اورطاقت رکھتا ہواور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہوتووہ پاکبازی اختیار کرے ، اورنکاح کے مانع اشیاء میں یہ چیزیں داخل ہیں :جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو ، اورنہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے ۔(المفصل فی احکام المرأۃ )۔
تیسری شرط:بدنی طاقت وقوت ہے یعنی جسمانی توانائی اور صحت وتندرستی کے لحاظ سے بھی وہ اس قابل ہو کہ اس کی تمام بیویوں کی جنسی تسکین ہوسکے۔
مذکورہ بالاشرائط کے تحقق کے بغیر کوئی نکاح ثانی کا اقدام کرے تو وہ شرعی اعتبار سے ناجائز اور حرام ہے۔
تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت : 1:تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہتوالدوتناسل کا سلسلہ جاری رہے،اورایک بیوی کی بنسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو نسل میں زیادتی بھی اسی نوعیت سے ہوگی ،اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے ۔
2-ایک سروے کے ذریعہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تواس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتیں بے نکاح کے رہ جائیں گی جو خود معاشرے اور عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔عورت ذات کوجو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جواس کی ضروریات پوری کرے اوراس کے معاش اوررہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اورحرام قسم کی شہوات سے اسے روکے رکھے ، اورجوکچھ معاشرے کونقصان اورضرر ہوگا اس کا سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اورغلط اورگندے راستے پر چل نکلے گی ، جس سے وہ عورت زنا اورفحاشی میں پڑ جائے گی ، اورمعاشرے میں اس کے سبب ایڈزاور اس جیسے دوسرے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں ، اورپھر خاندان تباہ ہوں گے اورحرام اولاد کی کثرت ہوجائے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟تواس طرح انہیں نہ توکوئی مہربانی اورنرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا ، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جوان کی حسن تربیت کرسکے ، اورجب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں اوراپنی حقیقتحال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں توان کے سلوک پر بھی برا اثر پڑے گا۔
3: – مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جن کی شھوت قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زیادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوران سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تووہ بہت ہی زیادہ مشقت میں پڑ جائے گا ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اورجب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض اورنفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔
4 -تعدد نکاح ایک فطری امر ہے جو صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گیا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھاجیساکہ گذرچکا ہے ، اوربعض انبیاء علیہم السلام نے کئی عورتوں سے نکاح فرمایا تھا ، دیکھیں اللہ تعالی کے یہ نبی سلیمان ؑ ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں ، اورعہد نبوی ا میں کئی ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اوربعض کی پانچ تونبی ا نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کورکھیں اورباقی کوطلاق دے دیں ۔
5: – ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے ، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اورخاوند کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازدواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے تواس کے لیے اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسری شادی کرے ۔
6 – اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوجس کا کوئی اعانت کرنے والا نہ ہو اوروہ شادی شدہ بھی نہ ہو یا پھر بیوہ ہو اوریہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ رکھے تا کہ اس کے لیے عفت وانفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے ۔
عورت کے لیے چار شادیوں کی اجازت کیوں نہیں؟جب مرد چاربیویاں کرسکتاہے تو عورت چار خاوند کیوں نہیں رکھ سکتی؟اس کا بھی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو اس کی وجہبہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے،خاندان اور قبیلہ کو نہ صرف اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اسے سوسائٹی کا بنیادی یونٹ قراردیاہے بلکہ دنیا کے ہر مہذب فلسفہ میں خاندان کی اہمیت کو تسلیم کیاگیاہے اوریہ بات بھی عیاں ہے کہ خاندان کے قیام واستحکام کی بنیاد نسب کے تحفظ پر ہے کیوںکہ نسب کے تحفظ پر ہی خاندان کی تشکیل اور بقا کا دارومدار ہے ،کیونکہ جب تک نسب کا تعین اور تحفظ نہ ہو، ان رشتوں کا تعین بھی نہیں ہوسکتا جن سے ایک خاندان تشکیل پاتاہے ۔ ایک مرد جتنی زیادہ عورتوں سے جنسی تعلق رکھے ، جائز وناجائز کی بحث سے قطع نظر اگر وہ اپنے اس جنسی تعلق کو تسلیم کرتاہے تو نسب کے تعین میں کوئی مشنہیں آتی اور نسب کے ساتھ ساتھ متعلقہ رشتوں کا تعین بھی آسان ہوجاتاہے لیکن عورت ایک مرد سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی تو پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا تعین مشکل ہوجائے گا۔یہ مسئلہ جاہلیت کے دور میں بھی تھا جب زنا کی کھلی اجازت تھی، لیکن ان لوگوں نے اس مسئلہ کا حل نکال رکھا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے دورمیں عام طور پر بہت سی عورتیں متعدد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتی تھیں، لیکن بچہ پیدا ہونے کی صورت میں وہ عورتکچھ مردوں کا تعین کرکے انہیں طلب کرتی تھی اور سب کی موجود گی میں ان میں سے کسی ایک کو مخاطب کرکے کہتی تھی کہ یہ بچہ تمہارا ہے ،کسی شخص کو اس فیصلے سے انکار کی جرات نہیں ہوتی تھی اور اسے بچے کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی تھی، اس کے برعکس زیادہ اشتباہ کی صورت میں قیافہ شناس کو بلایا جاتاتھا جو عورت کی جانب سے جنسی تعلق کے حوالے سے نامزد کیے جانے والے مردوں میں سے قیافہ کی بنیاد پر کسی ایک کا تعین کردیتاتھا اور اس مرد کو بچے کے باپ کے طورپر ذمہ داری قبول کرنی پڑتی تھی،آج مغرب کو بھی اس صورت حال کا سامناہے کہ شادی کے بغیر بچوں کی پیدائش بڑھتی جارہی ہے اور بہت سے بچو ں کے باپوں کا تعین ممکن نہیں رہا، مگر مغرب نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ’’سنگل پیرنٹ‘‘کے قانون کے تحت باپ اور نسب کے تعین کو ہی غیر ضروری قراردے دیاہے اور بچے کی پیدایش کی ذمہ داری میں ماں کو تنہا چھوڑدیاہے ، ظاہر بات ہے کہ یہ عورت پر صریح ظلم ہے کہ جنسی تعلق میں تو مرد اس عورت کے ساتھ برابر کا شریک ہو مگر اس کے نتائج بھگتنے کے لیے عورت کو اکیلا چھوڑدیاجائے ، مغرب کو آج ’’فیملی سسٹم‘‘ کی تباہی اور رشتوں کی پامالی کے حوالے سے جس بحران کا سامناہے ، اس کا سب سے بڑا سبب ’’زنا‘‘ہے کہ مغرب نے مرد اور عورت کے جنسی تعلق کے حوالے سے آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہوکر فیملی سسٹم کی تباہی کا دروازہ خود کھولا ہے اور اس کے نتائج کو روکنے کااس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ،اس لیے اگر خاندان کو انسانی سوسائٹی کے بنیادی یونٹ کی حیثیت حاصل ہے اور اس کا تحفظ وبقاء ضروری ہے تو پھر نکاح وطلاق کے وہی قوانین فطری اور ناگزیر ہیں جوقرآن پاک پیش کرتاہے اور سابقہ آسمانی تعلیمات بھی انہی کی تائید کرتی ہیں ا س لیے کہ ان کی بنیاد فطرت پر ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔