اسلام میں جھاڑ پھونک کی حیثیت!

عبدالعزیز

 سورۃ الفلق  اور سورۃ الناس قرآن مجید کی آخری دو سورتیں ہیں ، مُصحف میں الگ ناموں سے لکھی ہوئی ہیں لیکن ان کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق اور ان کے مضامین ایک دوسرے سے اتنی قریبی مناسبت رکھتے ہیں کہ ان کا ایک مشترکہ نام مُعَوِّذَتَیْن (پناہ مانگنے والی سورتیں ) رکھا گیا ہے۔ امام بیہقی نے دلائل نبوت میں لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہوئی ہیں ، اسی وجہ سے دونوں کا مجموعی ناممُعَوِّذَتَیْن ہے۔

 دونوں سورتوں کا موضوع اور مضمون: مکہ معظمہ میں یہ دونوں سورتیں جن حالات میں نازل ہوئی تھیں وہ یہ تھے کہ اسلام کی دعوت شروع ہوتے ہی ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ جوں جوں آپؐ کی دعوت پھیلتی گئی، کفارِ قریش کی مخالفت بھی شدید ہوتی چلی گئی۔ جب تک انھیں یہ امید رہی کہ شاید وہ کسی طرح کی سودے بازی کرکے یا بہلا پھسلا کر آپ کو اس کام سے باز رکھ سکیں گے، اس وقت تک تو پھر بھی عَناد کی شدت میں کچھ کمی رہی، لیکن جب حضورؐ نے ان کو اس طرف سے بالکل مایوس کر دیا کہ آپؐ ان کے ساتھ دین کے معاملہ میں کوئی مصالحت کرنے پر آمادہ ہوسکیں گے اور سورۂ کافرون میں صاف صاف ان سے کہہ دیا گیا کہ جن کی بندگی تم کرتے ہو ان کی بندگی کرنے والا میں نہیں ہوں اور جس کی بندگی میں کرتا ہوں اس کی بندگی کرنے والے تم نہیں ہو، اس لئے میرا راستہ الگ ہے اور تمہارا راستہ الگ، تو کفار کی دشمنی اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی۔ خصوصیت کے ساتھ جن خاندانوں کے افراد (مردوں یا عورتوں ، لڑکوں یا لڑکیوں ) نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کے دلوں میں تو حضورؐ کے خلاف ہر وقت بھٹیاں سلگتی رہتی تھیں ۔ گھر گھر آپ کو کوسا جارہا تھا۔ خفیہ مشورے کئے جا رہے تھے کہ کسی وقت رات کو چھپ کر آپ کو قتل کر دیا جائے تاکہ بنی ہاشم کو قاتل کا پتہ نہ چل سکے اور وہ بدلہ نہ لے سکیں ۔ آپؐ کے خلاف جادو ٹونے کئے جارہے تھے تاکہ آپ یا تو وفات پاجائیں یا سخت بیمار پڑجائیں ، یا دیوانے ہوجائیں ۔ شیاطینِ جن و انس ہر طر ف پھیل گئے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں آپؐ کے خلاف اور آپ کے لائے ہوئے دین اور قرآن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیں جس سے لوگ بدگمان ہوکر آپؐ سے دور بھاگنے لگیں ۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھی جل رہی تھی کیونکہ وہ اپنے سوا یا اپنے قبیلے کے کسی آدمی کے سوا دوسرے کسی شخص کا چراغ جلتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ابو جہل جس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں حد سے بڑھتا چلا جاتا تھا اس کی وجہ وہ خود یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ہمارا اور بنی عبد مناف (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان ) کا باہم مقابلہ تھا۔ انھوں نے کھانے کھلائے تو ہم نے بھی کھلائے۔ انھوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں ۔ انھوں نے عطیے دیئے تو ہم نے بھی دیئے۔ یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر کے ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی اترتی ہے۔ بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟ خدا کی قسم؛ ہم ہرگز اس کو نہ مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے‘‘ (ابن ہشام، جلد اول، ص337-338)۔

 ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں پناہ مانگتا ہوں طلوع صبح کے رب کی، تمام مخلوقات کے شر سے، رات کے اندھیرے اور جادو گروں اور جادو گرنیوں کے شر سے اور حاسدوں کے شر سے، اور ان سے کہہ دو کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ اور انسانوں کے معبود کی ہر اس وسوسہ انداز کے شر سے جو بار بار پلٹ پلٹ کر آتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ شیاطین جن میں سے ہو یا شیاطین انس میں سے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی حضرت موسیٰؑ نے اس وقت فرمائی تھی جب فرعون نے بھرے دربار میں ان کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ’’میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا‘‘ (المومن، 27)۔ ’’اور میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے اس بات سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو‘‘ (الدخان، 20)۔

 دونوں مواقع پر اللہ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا مقابلہ بڑی بے سرو سامانی کی حالت میں بڑے سر و سامان اور وسائل و ذرائع اور قوت و شوکت رکھنے والوں سے تھا۔ دونوں مواقع پر وہ طاقتور دشمنوں کے آگے اپنی دعوتِ حق پر ڈٹ گئے در آنحالیکہ ان کے پاس کوئی مادی طاقت ایسی نہ تھی جس کے بل پر وہ ان کا مقابلہ کرسکتے۔ اور دونوں مواقع پر انھوں نے دشمنوں کی دھمکیوں اور خطرناک تدبیروں اور معاندانہ چالوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ تمہارے مقابلے میں ہم نے رب کائنات کی پناہ لے لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اولوالعزمی اور ثابت قدمی وہی شخص دکھا سکتا ہے جس کو یہ یقین ہوکہ اس رب کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے، اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری طاقتیں ہیچ ہیں اور اس کی پناہ جسے حاصل ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں کلمۂ حق کے اعلان سے ہر گز نہیں ہٹوں گا، تم جو چاہو کرلو، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ میں تمہارے اور اپنے اور ساری کائنات کے رب کی پناہ لے چکا ہوں ۔

 حضورؐ پر جادو کا اثر ہونا: دوسرا مسئلہ جو اِن سورتوں کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روایات کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا اور اس کے اثر سے آپ بیمار ہوگئے تھے اور اس اثر کو دور کرنے کیلئے جبریل علیہ السلام نے آکر آپ کو یہ سورتیں پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر قدیم اور جدید زمانے کے بہت سے عقلیت پسندوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ روایات اگر مان لی جائیں تو شریعت ساری کی ساری مشتبہ ہوجاتی ہے؛ کیونکہ اگر نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا تھا اور ان روایات کی رو سے ہوگیا تھا تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ مخالفین نے جادو کے زور پر نبی سے کیا کیا کہلوا اور کروا لیا ہو، اور اس کی دی ہوئی تعلیم میں کتنی چیزیں خدا کی طرف سے ہوں اور کتنی جادو کے زیر اثر۔ یہی نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کو سچ مان لینے کے بعد تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ جادو ہی کے ذریعہ سے نبی کو نبوت کے دعوے پر اکسایا گیا ہو اور نبی نے غلط فہمی میں مبتلا ہوکر یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے پاس فرشتہ آیا ہے۔ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ یہ احادیث قرآن مجید سے متصادم ہیں ۔ قرآن میں تو کفار کا یہ الزام بیان کیا گیا ہے کہ نبی ایک مسحور، یعنی سحر زدہ آدمی ہے ’’یقول الظّٰلمون ان تتّبعون الا رجلاً مسحوراً (بنی اسرائیل، 47)، مگر یہ احادیث کفار کے الزام کی تصدیق کرتی ہیں کہ واقعی نبی پر سحر کا اثر ہوا تھا۔

 اس مسئلے کی تحقیق کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا تھا؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر وہ اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں یا نہیں جو کئے گئے ہیں ؟

 قرونِ اولیٰ کے مسلمان علماء کی یہ انتہائی راست بازی تھی کہ انھوں نے اپنے خیالات اور مزعومات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ جو کچھ تاریخی طور پر ثابت تھا اسے جوں کا توں بعد کی نسلوں تک پہنچا دیا اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ ان حقائق سے اگر کوئی الٹے نتائج نکالنے پر اتر آئے تو ان کا فراہم کردہ یہ مواد کس طرح اس کے کام آسکتا ہے۔ اب اگر ایک بات نہایت مستند اور کثیر تاریخی ذرائع سے ثابت ہو تو کسی دیانت دار صاحب علم کیلئے نہ تو یہ درست ہے کہ وہ اس بنا پر تاریخ کا انکار کردے کہ اس کو مان لینے سے اس کے نزدیک فلاں فلاں قباحتیں رونما ہوتی ہیں اور نہ یہی درست ہے کہ جتنی بات تاریخ سے ثابت ہے اس کو قیاسات کے گھوڑے دوڑاکر اس کی اصلی حد سے پھیلانے اور بڑھانے کی کوشش کرے۔ اس کے بجائے اس کا کام یہ ہے کہ تاریخ کو تاریخ کی حیثیت سے مان لے اور پھر دیکھے کہ اس سے فی الواقع کیا ثابت ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا۔

جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسے حضرت عائشہؓ، حضرت زیدؓ بن ارقم اور حضرت عبداللہ ؓبن عباس سے بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، امام احمد، عبدالرزاق، حمیدی، بَیہقی، طبرانی، ابن سعد، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ، حاکم، عبد بن حُمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا نفس مضمون تواتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے۔ اگر چہ ایک ایک روایت بجائے خود خبر واحد ہے۔ اس کی تفصیلات جو روایات میں آئی ہیں انھیں ہم مجموعی طور پر تمام روایات سے مرتب کرکے ایک مربوط واقعہ کی صورت میں یہاں درج کرتے ہیں ۔

 صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو محرم 7 ہجری میں خیبر سے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لَبِید بن اعصم سے ملا جو انصار کے قبیلۂ بنی زُریق سے تعلق رکھتا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو۔ لو، یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں ، انھیں قبول کرو اور محمدؐ پر ایک زور کا جادو کردو۔ اس زمانے میں حضورؐ کے ہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا۔ اس سے ساز باز کرکے ان لوگوں نے حضورؐ کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کرلیا جس میں آپؐ کے موئے مبارک تھے۔ انہی بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ لبید بن اعصم نے خود جادو کیا تھا، اور بعض میں یہ ہے کہ اس کی بہنیں اس سے زیادہ جادوگرنیاں تھیں ، ان سے اس نے جادو کروایاتھا۔ بہر حال ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو اس جادو کو ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لبید نے بنی زُریق کے کنویں ذروان یا ذی اروان نامی کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس جادو کا اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتے ہوتے پورا ایک سال لگا، دوسری ششماہی میں کچھ تغیر مزاج محسوس ہونا شروع ہوا، آخری چالیس دن سخت اور آخری تین دن زیادہ سخت گزرے، مگر اس کا زیادہ سے زیادہ جو اثر حضورؐ پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے چلے جارہے تھے، کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کرلیا ہے مگر نہیں کیا ہوتا تھا۔ اپنی زواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپؐ ان کے پاس گئے ہیں مگر نہیں گئے ہوتے تھے، اور بعض اوقات آپ کو اپنی نظر پر شبہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا تھا۔ یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے، حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزر رہی ہے۔ رہی آپؐ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اس میں آپ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا۔ کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں آپ قرآن کی کوئی آیت بھول گئے ہوں یا کوئی آیت آپ نے غلط پڑھ ڈالی ہو، یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو یا کوئی ایسا کلام آپ نے وحی کی حیثیت سے پیش کر دیا ہو جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو، یا نماز آپ سے چھوٹ گئی ہو اور اس کے متعلق بھی کبھی آپ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادوگر کے جادو نے چت کر دیا۔ لیکن آپؐ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ اپنی جگہ اسے محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے۔

 آخر کار ایک روز آپؐ حضرت عائشہؓ کے ہاں تھے کہ آپؐ نے بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اسی حالت میں نیند آگئی یا غنودگی طاری ہوئی اور پھر بیدار ہوکر آپ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتا دی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا، وہ کیا بات ہے؟ آپؐ نے فرمایا دو آدمی (یعنی فرشتے دو آدمیوں کی صورت میں ) میرے پاس آئے۔ ایک سرہانے کی طرف تھا اور دوسرا پائینتی کی طرف۔ ایک نے پوچھا انھیں کیا ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے کیا ہے؟ جواب دیا لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں کیا ہے ؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں میں ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر۔ پوچھا وہ کہاں ہے؟ جواب دیا بنی زریق کے کنویں ذی اروان (یا ذروان) کی تہ کے پتھر کے نیچے ہے۔ پوچھا اب اس کیلئے کیا کیا جائے ؟ جواب دیا کہ کنویں کا پانی سونت دیا جائے اور پھر پتھر کے نیچے سے اس کو نکالاجائے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت عمارؓ بن یاسر اور حضرت زبیرؓ کو بھیجا۔ ان کے ساتھ جُبَیر بن اِیاس الزرقی اور قیسؓ بن مِحصن الزرقی (یعنی بنی زریق کے یہ دو اصحاب) بھی شامل ہوگئے۔ بعدمیں حضورؐ خود بھی چند اصحابؓ کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کرلیا گیا۔ اس میں کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پُتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں ۔ جبریل علیہ السلام نے آکر بتایا کہ آپؐ معوذتین پڑھیں ۔ چنانچہ آپؐ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں ، ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہوگئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا تھا، پھر کھل گیا۔ اس کے بعد آپ نے لبید کو بلاکر باز پرس کی۔ اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور آپؐ نے اس کو چھوڑ دیا کیونکہ اپنی ذات کیلئے آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہی نہیں بلکہ آپؐ نے اس معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو بھڑکاؤں ۔

 یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا، اگر آپ گھوڑے سے گرکر چوٹ کھاسکتے تھے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اگر آپ کو بچھو کاٹ سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے وعدہ کیا تھا تو آپ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہوسکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، یہ بات تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ سورۂ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے مقابلے میں جب وہ آئے تو انھوں نے ہزارہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کر دیا جو وہاں دونوں کا مقابلہ دیکھنے کیلئے جمع ہوا تھا(سحروا اعین الناس، آیت 116)، اور سورہ طٰہٰ میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انھوں نے پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں ہی نے نہیں حضرت موسیٰؑ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آرہی ہیں اور اس سے حضرت موسیٰ خوفزدہ ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے، ذرا اپنا عصا پھینکو ۔ رہا یہ اعتراض کہ یہ تو کفارِمکہ کے اس الزام کی تصدیق ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سحر زدہ آدمی کہتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحر زدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہوگئے ہیں ، بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کسی جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کر دیا ہے اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت و دوزخ کے افسانے سنا رہے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمدؐ پر ہوا تھا، نبوتِ محمدؐ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ جادو کو محض اوہام کے قبیل کی چیز قرار دیتے ہیں ان کی یہ رائے صرف اس وجہ سے ہے کہ جادو کے اثرات کی کوئی سائنٹفک توجیہ نہیں کی جاسکتی، لیکن دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں مگر سائنٹفک طریقہ سے یہ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کیسے رونما ہوتی ہیں ۔ اس طرح کی توجیہ پر اگر ہم قادر نہیں ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس چیز ہی کا انکار کردیا جائے جس کی ہم توجیہ نہیں کرسکتے۔ جادو در اصل ایک نفسیاتی اثر ہے جو نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرسکتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی چیز ہے مگر اس کا اثر جسم پر یہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بدن میں تھر تھری چھوٹ جاتی ہے۔ دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی مگر انسان کا نفس اور اس کے حواس اس سے متاثر ہوکر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حقیقت تبدیل ہوگئی ہے۔ حضرت موسیٰ کی طرف جادو گروں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکی تھیں وہ واقعی سانپ نہیں بن گئی تھیں لیکن ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں پر ایسا جادو ہوا کہ سب نے انھیں سانپ ہی محسوس کیا اور حضرت موسیٰ تک کے حواس جادو کی اس تاثیر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اسی طرح قرآن (البقرہ، آیت 102) میں بیان کیا گیا ہے کہ بابِل میں ہاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دے۔ یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا اور ظاہر ہے کہ اگر تجربے سے لوگوں کو اس عمل کی کامیابی معلوم نہ ہوتی تو وہ اس کے خریدار نہ بن سکتے تھے۔ بلا شبہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بندوق کی گولی اور ہوائی جہاز سے گرنے والے بم کی طرح جادو کا موثر ہونا بھی اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں ہے مگر جو چیز ہزارہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو اس کے وجود کو جھٹلا دینا محض ایک ہٹ دھرمی ہے۔ (تفہیم القرآن) (جاری)

تبصرے بند ہیں۔