اسلام کانظام طلاق (آخری قسط)

منورسلطان ندوی

ایسانہیں ہے کہ اسلام میں طلاق کوئی پسندیدہ بات ہو،بلکہ یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے،لیکن اس کے باوجوداس کی مشروعیت رشتہ ازدواج کے لئے بطورعلاج کے ہے،میاں بیوی کے درمیان پیش آنے والے ناقابل حل مسائل کاخاتمہ اسی کے ذریعہ ممکن ہے،اگرطلاق نہ ہوتومیاں بیوی کے درمیان کی منافرت سے نہ صرف دونوں کی زندگی جہنم بنے گی بلکہ پوراخاندان اس آگ میں جلے گا۔
طلاق ایک معتدل حل ہے،اس طورپراگرکسی وجہ سے شوہرکوبیوی پسندنہیں ہے یااس کے ساتھ نباہ مشکل ہے،ایسی صور ت میں اگرطلاق کاراستہ نہ ہوتوپھرمردایسی عورت پرظلم کے پہاڑتوڑے گا،اوراسے اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے شرعی حدودسے آگے بڑھ جائے گا،اس لئے نکاح کے رشتہ کوختم کرنے کے لئے کوئی راستہ ضروری ہے،اوراسی راستہ کانام طلاق ہے۔
طلاق کاحکم
طلاق دینے کی مختلف صورتیں ہیں،ہرصورت میں طلاق دیناگناہ نہیں ہے،بلکہ بعض صورتوں میں طلاق دیناہی واجب ہوجاتاہے،فقہاء نے حکم کے اعتبارسے طلاق کی پانچ قسمیں کی ہیں:واجب،مستحب،مباح،حرام،مکروہ،فقہ کی اکثرکتابوں میں اس کاذکر ہے:
1۔واجب:جب بیوی کے حقوق کی ادائیگی ممکن نہ ہو،مثلاشوہرنامردہو،بیوی فاحشہ ہو،اسی طرح جب دونوں حکم مصالحت کی کوشش میں طلاق کوہی بہترحل قراردیں،ان صورتوں میں طلاق دیناواجب ہوجاتاہے۔
2۔مستحب:جب بیوی احکام خدواندی کی تعمیل میں کوتاہی کرے،مثلا نمازچھوڑتی ہو،یاعورت کی زبان یاعمل سے مردکوتکلیف پہونچتی ہو،یاآپسی نزاع کی وجہ سے عورت طلاق کامطالبہ کرے،ان صورتوں میں طلاق دینامستحب ہے۔
3۔مباح:جب طلاق دینے کی ضرورت ہومثلاعورت بداخلاق ہو،شوہرکے ساتھ اچھابرتائونہ کرتی ہو،شوہرسے محبت نہیں کرتی ہو،ان صورتوں میں طلاق دینا مباح ہے۔
4۔حرام:طلاق دینے کے بعدعورت کے گناہ میں ملوث ہونے کایقین ہو،یاوہ دوسرانکاح نہ کرسکتی ہو،اسی طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقہ کے خلاف طریقہ سے طلاق دینا،مثلاناپاکی کے ایام میں طلاق دینا،ایک ساتھ تین طلاق دینا،ان صورتوں میں طلاق دیناحرام ہے،طلاق توواقع ہوجائے گی،البتہ شوہرگنہ گارہوگا۔
5۔مکروہ:بلاضرورت طلاق دیناجس سے عورت کونقصان پہونچنے کااندیشہ ہو۔(الموسوعۃ الفقہیۃ،ج9،ص:29)
طلاق اصلامباح ہے یامکروہ؟
فقہاء کے مابین اس بارے میں اختلاف رائے پایاجاتاہے کہ طلاق دینااصلامباح ہے یامکروہ،فقہاء احناف میں امام سرخسی اورعلامہ حصکفی کی رائے یہ ہے کہ یہ مباح ہے،جبکہ علامہ کاسانی ،علامہ ابن ہمام اورفتاوی ہندیہ میں مذکوررائے یہ ہے کہ طلاق دینااصلامکروہ ہے،ضرورتاجائزہے۔(الفتاوی الہندیہ،ج1،ص:348)
طلاق دینے کاطریقہ
شریعت نے جب طلاق کومشروع کیاہے تواس کاطریقہ بھی متعین کیاہے تاکہ طلاق عورت کے لئے باعث رحمت ہو،باعث زحمت نہیں،اس لئے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق کوطلاق سنت اوراس کے برعکس طلاق کوطلاق بدعت کہاجاتاہے،اس اعتبارسے طلاق کی درج ذیل تین قسمیں ہیں:
طلاق احسن:طلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی کوایک طلاق رجعی دے،ایسی پاکی کی حالت میں جس میں اس سے تعلق قائم نہ کیاہو۔
طلاق حسن:ہرمہینہ میں پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے،اسی طرح تین مہینوں تک کرے ۔
اس طرح سنت کے مطابق طلاق دینے کے تین شرائط ہیں:
1۔معقول ضرورت کی بنیادپرطلاق دے۔
2۔ایسی پاکی کی مدت میں طلاق دے جب تعلق قائم نہ کیاہو۔
3۔الگ الگ طلاق دے،ایک ساتھ طلاق نہ دے۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ،ص:692۰)
طلاق بدعت:ان دوطریقوں کے علاوہ طلاق کی تمام شکلوں کو طلاق بدعت کہتے ہیں،مثلا ناپاکی(حیض یانفاس)کی مدت میں طلاق دینا،پاکی کی حالت میں طلاق دیناجب بیوی سے تعلق قائم کرچکاہو،ایک ساتھ دویاتین طلاق دینا ، ایک ہی پاکی کی مدت دویاتین طلاق دینا،ان صورتوں میں طلاق توواقع ہوجاتی ہے،البتہ طلاق دینے والاگنہ گارہوتاہے۔
حضرت عمرکے صاحب زادے عبداللہ بن عمرنے اپنی اہلیہ کوناپاکی کی حالت میں طلاق دی تھی یہ خبر سن کررسول اللہ ﷺ بہت غصہ ہوئے(صحیح البخاری)کیونکہ ناپاکی کے زمانہ میں طلاق دینے کی وجہ سے عورت کی عدت لمبی ہوجاتی ہے۔
محمودبن لبیدبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کواطلاع ملی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں توآپ ﷺ غصہ سے کھڑے ہوگئے اورفرمایا’’ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانابین اظہرکم‘‘(کیاکتاب اللہ کے کھلواڑکیاجائے گاحالانکہ میں تمہارے درمیان موجودہوں)آپ کے غصہ کودیکھ کرایک صحابی نے عرض کیااے اللہ کے رسول کیامیں اس کی گردن نہ اڑادوں۔ (سنن النسائی،کتا ب الطلاق،باب الثلاث المجموعۃ ومافیہ من التغلیظ،حدیث نمبر:3414)
تین طلاق
تین طلاق اگرتین ایسے پاکی کے ایام میں دیا جب تعلق قائم نہ کیاہو،تویہ طلاق حسن ہے،جمہورائمہ کے نزدیک اس سے تین طلاق واقع ہوتی ہے۔
تین طلاق کی ایک شکل یہ ہے کہ کوئی ایک ہی ساتھ تین طلاق دے یاایک ہی طہرمیں تین طلاق دے،ایسی صورت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
1۔اکثرصحابہ،خلفاء راشدین اورائمہ اربعہ کے نزدیک اس سے تین واقع ہوتی ہے۔
2۔علامہ ابن تیمیہؒ،ان کے شاگرعلامہ ابن قیمؒ،اسحق بن راہویہؒ اورشیعوں کے فرقہ زیدیہ کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی۔
3۔شیعوں کے فرقہ امامیہ کے نزدیک ایسی صور ت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ،ص:6928)
طلاق کے طریقہ سے صاف واضح ہوتاہے کہ اسلام میں الگ الگ پاکی کی مد ت میں طلاق دینے کاحکم ہے ،نیزیہ بھی شرط ہے کہ جس پاکی کی مدت میں تعلق نہ قائم کیاہو،تاکہ مردمیں رجوع کرنے کی چاہت باقی رہے،اور ہرمرحلہ میں سوچنے اورغوروفکرکرنے کاموقع ملے،اسی طرح عورت کے لئے بھی اپنی اصلاح کرنے کی مہلت ہو،اگرعورت کی اصلاح ہوجاتی ہے توپھرمزیدطلاق کی ضرورت باقی نہیں رہے گی،اورایک طلاق کے بعدبھی اصلاح نہ ہوتو دوسرے مہینہ دوسری طلاق دینے کی گنجائش ہوگی۔
عدت کانفقہ
طلاق کے بعدعدت گزارناواجب ہے،حمل نہ ہونے کی صورت میں عدت تین ماہ اورحمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک عدت ہے،اس پوری مدت کانفقہ شوہرپرواجب ہے،ارشادہے:وان کن اولات حمل فانفقواعلیہن حتی یضعن حملہن (سورہ طلاق:6)
ترجمہ:اگروہ مطلقہ عورتیں حمل والیاں ہوں توحمل پیداہونے تک ان کاخرچ دو۔
عدت کے بعدعورت کانفقہ
عدت کے بعدجب عورت نکاح سے آزادہوجائے توسب سے بہتریہ ہے کہ وہ کسی مردسے نکاح کرلے،شریعت میں دوسری شادی کی بڑی تاکیدآئی ہے،ہمارے معاشرہ میں اس کارواج بہت کم ہے،اگرایسی عورت کی دوسری شادی ہوجائے تواس کی پوری ذمہ داری دوسرے شوہرپرعائد ہوگی۔
دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میںلڑکی کے والدین ،اولاد،بھائی،چچااوراس طرح دوسرے رشتہ داروں پراس کانفقہ واجب ہے،اوریہ شرعالازم ہے،اگرکسی عورت کے یہ نسبی رشتہ دارنہ ہوں تواصلاتواصلایہ حکوت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی عورتوں کی کفالت سرکاری خزانہ سے کی جائے،لیکن ہندوستان میں فی الحال بظاہریہ مشکل ہے اس لئے مسلم سماج کی ذمہ داری ہے کہ ایسی عورتوں کی کفالت کاانتظام کرے۔

تبصرے بند ہیں۔