اسلام کا عائلی نظام: رحمت ہی رحمت

مولانا سید جلال الدین عمری

اسلام کے عائلی نظام کو ہم ’مسلم پرسنل لا‘ کہتے ہیں ۔ اس میں نکاح ، طلاق، خلع،نان و نفقہ، وراثت ، وصیت، رضاعت اور حضانت وغیرہ شامل ہیں ۔حضانت کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی الگ ہوگئے تو بچوں کی پرورش کون کرے گا؟بچے اگر چھوٹے ہیں تو کون ان کی پرورش کاذمہ دار ہوگا؟اس طرح کے بہت سے مسائل اس کے اندر آتے ہیں ۔اس کا تعلق میاں بیوی سے بھی ہے ،ماں باپ سے بھی اور اولاد سے بھی،بھائی بہن سے بھی ہے اور دوسرے رشتہ داروں سے بھی۔سب کے حقوق اور ذمہ داریاں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔میاں بیوی کے کیا حقوق ہیں ؟ماں باپ کے کیاحقوق ہیں ؟ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ رشتے داروں کے کیاحقوق ہیں ؟ان کے درمیان کیا تعلق ہے ؟میاں بیوی کا تعلق اصل میں محبت و الفت کا تعلق ہے۔اسی لیے اس کا جوڑا بھی اسی سے بنایا گیاہے۔اس کے جذبات بھی ٹھیک اسی طرح کے ہیں ۔اللہ تعالی نے کہیں ایسا نہیں کیا ہے کہ کسی دوسری مخلوق کو انسان کا جوڑا بنادیاہو۔

شریعت کے ان احکام کا تعلق خواہ  میاں بیوی سے ہو یا ماں باپ سے، اولاد سے ہو یا بھائی بہن سے یا دوسرے قریبی رشتہ داروں سے، ان کے سلسلے میں قرآن میں بہت تفصیل آئی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی وضاحت کردی ہے۔اس وقت سے اب تک کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ ان پر عمل نہ ہواہو۔جب نماز فرض ہوئی، روزہ فرض ہوا،زکوٰۃکے احکام آئے، حج کے احکام آئے،اس وقت سے مسلسل آج تک ہر آدمی ان پر عمل کررہاہے۔ ٹھیک اسی طرح پرسنل لا پر بھی عمل ہوتارہاہے۔

بعض اوقات یہ خیال کیا جاتاہے کہ پرسنل لا کا مسئلہ میاں بیوی کاانفرادی مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پورے خاندان سے متعلق ہے۔قرآن و حدیث نے نماز روزے کی طرح ان کی بھی پابندی کا حکم دیاہے۔جب سے یہ احکام آئے ہیں ، کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا ہے کہ اس پر عمل نہ ہواہو۔اس پر عمل اس وقت بھی ہواہے جب مسلمان اقتدار میں تھے اور اس وقت بھی اس پر عمل ہوا جب وہ اقتدار میں نہیں تھے۔اس پر عمل، عرب میں بھی  ہوا اور جب مسلمانوں کی حکومت عرب سے باہر قائم ہوئی وہاں بھی ہوا ۔ عراق میں ہوا،مصر اور شام میں ہوا، فلسطین میں ہوا، بلکہ ساری دنیا میں ہوا۔آج بھی اس پر ان ممالک میں عمل ہورہا ہے۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ان ممالک میں بھی ہورہا ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ،جیسے ہندوستان یا وہ مغربی ممالک جہاں وہ دو چار فیصد ہیں ۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ ہم یہاں دو فیصد ہیں ، اس لیے نماز نہیں پڑھیں گے، یا روزے نہیں رکھیں گے، یا اس میں ترمیم کریں گے۔گرمی کا موسم ہے تو روزے دوسرے مہینے میں رکھ لیں گے۔ زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے، نہیں دیں گے۔اس طرح کی باتیں کوئی نہیں کہہ سکتا۔مسلمان کہیں بھی رہے اور کسی بھی حال میں رہے،اقتدار میں رہے یا اقتدار کے باہر رہے، وہ ان عائلی احکام کا پابند ہے۔ ان کی اسی طرح تاکید کی گئی ہے، جس طرح نماز روزے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جہاں عائلی احکام بیان کیے گئے ہیں ، کہا گیاہے کہ یہ حدیں ہیں ۔ایک مسلمان کو ان کے اندر رہنا ہوگا، ان سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتا۔ایک جگہ تقسیم وراثت کے اصول بیان ہوئے ہیں ، اس کے آگے فرمایا:

 تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم (النساء: 13)

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گااسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گااور یہی بڑی کام یابی ہے۔

 انسان کے لیے اس سے بڑی کام یابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب وہ اس دنیا سے جائے تو ہمیشہ جنت میں رہے ۔اس کے بعد فرمایا:

وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن (النساء : 14)

 اور جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نافرمانی کرے گااور اس کی مقرر کی گئی حدوں سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ جہنم کی آگ میں ڈالے گا،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔

یہاں وراثت کا قانون بیان ہوا ہے۔ اللہ نے اس کے حدود بیان کردیے ہیں ۔ جو شخص ان سے آگے بڑھے گا یا ان میں ترمیم کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں پہنچادے گا،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ سزا اس شخص کے لیے ہے، جو احکام الٰہی کا منکر ہے۔ جو شخص ان احکام کو اللہ کی طرف سے مانتا ہے، لیکن عملاً کوتاہی کرتا ہے، اسے سزا کے بعد جہنم سے نکال دیا جائے گا، اس کے لیے ابدی جہنم نہیں ہے۔ ایک جگہ احکام طلاق کے بعد فرمایا :

 تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُون ( البقرۃ: 229)

 یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں ۔

 اللہ تعالیٰ نے طلاق کا طریقہ بیان کر دیا ہے۔یہ اللہ کا قانون ہے اوراس کی قائم کردہ حد ہے۔ جو اللہ کی حد کو توڑ ے گا،وہ دوسرے کو کیا نقصان پہنچائے گا؟ خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ آدمی سوچتاہے کہ اس نے بیوی کا حق نہیں دیا، رشتہ داروں کا حق مار لیا، بچوں کا حق مار لیا،بھائی بہن کا حق مار لیا تو اس نے بڑی کام یابی حاصل کرلی۔ قرآن کہتاہے کہ نہیں ! دوسروں کی تباہی ہوئی ہے یا نہیں ، یہ بعد میں دیکھیں گے،یاد رکھو سب سے پہلے تم خود تباہ ہوگئے۔

 جن قوموں نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی، اللہ نے ان کا بڑا سخت حساب لیا اور وہ تباہ کردی گئیں ۔اس لیے کوئی قوم یہ نہ سوچے کہ ہم اللہ کی نافرمانی کرکے اس کے عذاب سے بچ جائیں گے۔سورۂ طلاق میں بات ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہِ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنٰہَا عَذَاباً نُّکْرا۔فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِہَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہَا خُسْراً (الطلاق: 7۔8)

کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی۔ انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔

اس لیے کوئی قوم اور کوئی آبادی یہ نہ سمجھے کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی کرکے وہ بچ جائے گی۔ یہ تنبیہ اسی لیے کی گئی کہ ان احکام کی پابندی آدمی اسی طرح کرے جس طرح ان کا پابند کیا گیا ہے۔ لوگوں کو آج کل نماز روزے کی پابندی تو بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے، لیکن دوسرے احکام کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر عمل کے معاملے میں وہ آزاد ہیں ۔ کہا گیا کہ نہیں ، قومیں تباہ ہوچکی ہیں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے، اس لیے اگر تم دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہو تو اللہ کے احکام کے پابند رہو۔یہ احکام پوری تفصیلات کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئے ہیں ۔

اس ملک میں مسلمانوں کے بہت سارے مسائل ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ یہاں ان کی جان مال اور عزت و آبرو محفوظ رہے، فسادات نہ ہوں ۔ یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر فسادات ہورہے ہیں اور مسلمانوں کی جانیں لی جارہی ہیں ۔ایسے ایسے مسائل میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاجارہاہے جن کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔وہ برسوں جیل میں پڑے رہتے ہیں ، تب پتہ چلتاہے کہ وہ بے گناہ تھے۔کوئی نوجوان بیس برس کی عمر میں جیل گیا،پھر دس بارہ برس بعد کہا جاتا ہے کہ یہ تو بے گناہ تھا۔اس کی تعلیم ختم ہوگئی، اس کا کیریر ختم ہوگیا،آئندہ تعلیم جاری رکھنا اس کے لیے مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے پورے گھر والے پریشان ہوگئے۔ ماں باپ پریشان ہوئے، بیوی بچے پریشان ہوئے۔ اس طرح کے اور بھی بے شمار مسائل ہیں ۔سچر کمیٹی نے بتایا ہے کہ مسلمان بہت سے معاملات میں دلتوں کے برابر آگئے ہیں ۔مسلمانوں کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔ تعلیم  کے لحاظ سے وہ دوسروں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ معاشی اور تعلیمی پہلو سے بھی وہ سب سے پچھلی صف میں ہیں ۔نوکریوں میں بھی ان کااوسط برائے نام ہے۔ریزرویشن کا مطالبہ کیاجاتاہے تو ہنگامہ کیاجاتاہے۔آپ جانتے ہیں کہ اقلیتوں کے لیے ابھی تلنگانہ میں بارہ فیصد کا مطالبہ کیا گیا تو ہنگامہ ہوگیا۔ایسے ہی تمل ناڈو میں برائے نام ریزرویشن ہے ،اس پر بھی ہنگامہ ہورہاہے۔کرناٹک میں ریزرویشن ہے تو اس کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے بہت سے مسائل ہیں ۔ ان سب کو چھوڑ کر کہاجاتاہے کہ مسلمان اپنے پرسنل لا پر عمل کررہے ہیں ، اس لیے وہ پیچھے ہیں ۔

یہ بات پوری قوت کے ساتھ سامنے آنی چاہیے کہ مسلمان یہاں تعلیم میں ، معیشت میں اور دوسرے میدانوں میں پیچھے رہ جائیں گے تو یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے کہا جا رہا ہے کہ مسلمان اپنے پرسنل لا سے چمٹے ہوئے ہیں ، اس لیے پیچھے ہیں ۔اگر یہ پرسنل پر عمل کرنا چھوڑ دیں تو گویا آگے ہوجائیں گے۔اصل بات یہ ہے کہ ہمارا کچھ دین تو مسجدوں میں ہے اور کچھ گھروں میں ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ گھروں سے بھی نکل جائے۔اگر ہمارے بچے یہ سمجھ لیں کہ یہ دین باپ دادا تک تھا، اب اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، تو پھر یہ دین ختم ہوجائے گا۔آپ کی کوئی پہچان نہیں رہے گی۔آپ کی شادی دوسرے لوگوں کی طرح ہو گی اور میاں بیوی میں جدائی بھی اسی طرح ہوگی اور آپ کی وراثت بھی اسی طرح سے تقسیم ہونے لگے گی ۔ پھر آپ کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی۔ ساری دنیا میں یہ کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے الگ تھلگ کردیاجائے۔ حکومت اور اقتدار ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور وہ اقتدار میں ہوں تو ہمارے اشارے پر چلتے رہیں ، اس میں وہ کام یاب ہیں ۔  انھیں پریشانی ہے کہ مسجد سے اور گھر سے ان کا دین نہیں نکل رہاہے۔وہ اسے نکالنا چاہتے ہیں ۔بس اس کوشش میں یہ سارے لوگ لگے ہوئے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس کو نکالنے کے بعد آپ کی کوئی پہچان نہیں رہے گی۔

 آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاں نکاح کا ایک طریقہ ہے۔لیکن کورٹ یہ کہتاہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہ رہے ہیں تو یہ شادی شدہ ہیں ۔ ان کا ساتھ رہنا  ان کی نظر میں شادی شدہ ہونے کے لیے کافی ہے۔’لومیرج‘ کے نام پر یا کسی اور نام پر اگر دونوں ساتھ رہ رہے ہیں تو وہ شادی شدہ ہیں ۔اس سے جو اولاد ہوگی وہ بھی صحیح اولاد ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ نکاحنہیں ہے۔اس لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے اگر اسلام کا نظام خاندان ختم ہوا تو پھر اس ملک میں ہماری کوئی پہچان باقی نہیں رہے گی۔اس لیے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے اور دنیا کو بھی بتانا چاہیے کہ مسلمانوں کے پرسنل لا کی کیا اہمیت ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ان کا مذہبی تشخص ختم ہو جائے گا۔

 طلاق کے مسئلے کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ مسلمانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں لاکھوں میں کوئی ایک واقعہ طلاق کا ہوتاہے۔وہ غلط ہے یا صحیح ہے؟ اس کا فیصلہ تو مسلمان کریں گے۔ مسلمانوں نے اپنے پرسنل لا پر ہر دور میں عمل کیا۔انگریزوں کے دور میں بھی یہاں مسلمانوں کے پرسنل لاپر عمل ہوتارہاہے۔ 1937ء میں ایک ایکٹ پاس ہوا ،جس میں کہا گیا کہ اگر دونوں فریق (یعنی مقدمہ دائر کرنے والے)مسلمان ہیں تو ان کے درمیان شریعت کے قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اگر اس میں کہیں کوتاہی بھی ہوتی تھی تو بتایا جاتاتھا کہ اس میں ہمارا قانون یہ ہے، تو اس کے مطابق اصلاح بھی ہوتی تھی اور یہی بات ہمارے دستور میں بھی تسلیم کی گئی ہے کہ یہاں کے ہر گروہ کو اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔وہ نہ صرف اس پر عمل کرسکتے ہیں ، بلکہ اسے پھیلابھی سکتے ہیں ، اس کی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں ۔یہ تمام حقوق یہاں کے دستور نے دیے ہیں ۔

اگر کوئی مسلمان اپنے پرسنل لا پر عمل کرتاہے تو وہ کوئی خلاف دستور کام نہیں کرتا،بلکہ اسی دستور کے اندر رہ کر کام کرتاہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا ایک دستور ہے ۔ مسلمانوں نے  یہ نیا دستور کہاں سے نکال لیا؟ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ مسلمانوں نے کوئی دستورنہیں نکالا، بلکہ ملک کے دستور نے جو حق انھیں دیاہے اس پر عمل کررہے ہیں ۔ملک کے دستور نے خود تسلیم کیاہے کہ یہاں کی ہر کمیونٹی کو اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کا حق ہے۔ ہم اس پر عمل کررہے ہیں ۔اس کے خلاف اگر جائیں تب آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی دوسرا قانون ہم بنارہے ہیں ۔ یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے اور پورے زور اور قوت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

بہت سے غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں ہیں تودستوری لحاظ سے انہیں اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کا حق ہے،لیکن ان کوسوچنا چاہیے کہ آج کے دور میں ان کا پرسنل لا نہیں چل سکتا۔اس میں بڑی ناانصافیاں ہیں ۔عورت کو اس کا حق نہیں دیاگیاہے اور مرد کو زیادہ دیاگیاہے۔ وراثت میں بھائی کا حصہ زیادہ ہے اور بہن کا حصہ کم ہے، یا شوہر کا زیادہ اور بیوی کا کم ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو خود سوچ کر اپنے پرسنل لا میں ترمیم کرلینی چاہیے۔ایک مرتبی ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا:  ایک مسلمان نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اب وہ کہاں جائے گی ؟کیا کرے گی؟ کیسے زندگی گزارے گی؟میں نے کہا :میں ایک سوال کرتاہوں ، اس کا جواب دو۔ میاں بیوی میں بڑی محبت تھی،دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے،کوئی پریشانی نہیں تھی،لیکن معلوم ہوا کہ اچانک شوہر کا  اکسیڈینٹ ہوگیا، یا ہارٹ اٹیک ہوگیا،اب عورت کہاں جائے گی؟انھوں نے کہا کہ یہ تو دوسرا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں ، میرے سوال کا جواب دیجیے۔طلاق سے عورت الگ ہوتی ہے۔ اس طرح بھی تو وہ الگ ہوئی۔ مسلمان ان احکام پر چودہ سو سال سے عمل کررہے ہیں ۔

اس طرح کی صورت حال صرف آج ہی نہیں پیش آرہی ہے۔ اس سے پہلے بھی تو آتی رہی ہے۔ میں نے کہا کہ فرض کیجئے  ایک عورت کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آیا، شوہر نے اسے طلاق دے دی،،یا اکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ مرگیا،اب دو صورتیں ہیں : ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ عورت سروس میں ہے، کمارہی ہے ،ٹیچر یا لکچرر ہے،یا کوئی اور کام کر رہی ہے،اس کے پاس کوئی پیشہ ہے، یا باپ دادا کی اس کے پاس پراپرٹی ہے،وراثت میں اسے دکان یا مکان ملا ہے،یا کسی انڈسٹری میں اس کا شئیر ہے،جس سے اس کی آمدنی ہورہی ہے،یا اس کی کوئی کھیتی باڑی ہے، جس کے ذریعہ سے آمدنی ہورہی ہے،تب تو گویا اس کا مسئلہ حل ہوگیا،اس کے لیے تو سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ وہ کہاں جائے گی؟ہر مہینے اسے ایک لاکھ روپے مل رہے ہیں ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ اس کی شادی ہوجائے،آپ تو جوان عورت کی بات کررہے ہیں !ہمارے ہاں بیوہ کی شادی آسانی سے نہیں ہوتی۔ یہ غلط کام ہے،جس کی طلاق ہوگئی اس کی بھی شادی نہیں ہوتی، یہ بھی غلط کام ہے۔ فرض کیجئے، وہ شادی کے لیے تیار ہوگئی، اس کی شادی ہوگئی، تو اس کا مسئلہ کا بھی حل ہو گیا۔ شوہر اس کی تمام ضروریات پوری کرے گا۔ دنیا میں ایسا بہت کم ہوگاکہ عورت کے زندہ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے ، اگر ایسا ہوگا تو پھر وہ اپنے ماں باپ کے پاس چلی جائے گی۔وہ اس کے کھانے پینے کا انتظام کریں گے، اس کی شادی بھی کرائیں گے۔

آج مسلم معاشرے کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ نہ انہیں دین کا علم ہے نہ دنیا کا۔ شہروں میں تو شاید کچھ حالت بہتر ہے، لیکن دیہاتوں میں مسلمانوں کو دیکھ کر یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان ہیں ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کسی بھی چیز کا انھیں علم نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ کلمۂ طیبہ کے معنی و مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ بس عید اور بقر عید میں وہ لوگ اپنے مسلمان ہونے کا کچھ مظاہرہ کر دیتے ہیں ۔

اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرائیں اور ان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے واقف کرائیں ۔ والدین، بچوں ، اعزاء و اقارب کے حقوق سے بھی واقف کرایا جائے اور انھیں ان  باتوں پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کریں ۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک کی قرآن کریم میں بہت تاکید آئی ہے۔ انسان جب بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کی شفقتوں اور محبتوں کو بھلا دیتا ہے کہ انھوں نے اسے کتنی مصیبتوں اور مشقتوں سے پالا پوسا ہے۔ وہ تو بس اپنے بیوی بچوں میں مست رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم نے متنبہ کیا ہے ۔قرآن میں حکم ہے کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَآ أَوْ کِلٰہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْراً (الاسراء: 23۔ 24)

اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو ’پروردگار! ان پر رحم فرماجس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔

ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص ناکام و نامراد ہوا جسے اس کے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کوئی ایک ملا اور پھر بھی وہ اپنی مغفرت نہ کروا سکا۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ نے والدین کی خدمت کر کے اسے جنت میں جانے کا موقع دیا، لیکن اس نے اس موقع کو کھو دیا ۔اس سے بڑا لعنتی شخص کون ہو سکتا ہے؟

سماج اور معاشرے میں بہت سے لوگ والدین کی نافرمانی کرتے ہیں یا انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں ، انھیں بھی اس معاملے پر تنبیہ کی جائے اور والدین کی اہمیت کو سمجھایا جائے ۔ ایک صحابی رسول نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا : ’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ انھوں نے پوچھا: اس کے بعد ؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ تیسری مرتبہ انھوں نے پھر پوچھا: اس کے بعد ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تیری ماں ۔چوتھی مرتبہ انھوں نے پھر پوچھا اس کے بعد ؟تب آپ ؐ نے فرمایا: تیرا باپ ۔ (بخاری و مسلم)

بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں شریک ہوتے ہیں ، لیکن حمل کی تکلیف برداشت کرنا، ولادت کی تکلیف برداشت کرنا، دودھ پلانے کی تکلیف برداشت کرنا، ان میں باپ شریک نہیں ہوتا۔

اسلام نے عدل اور مساوات کا حکم دیا ہے۔ اس نے تمام لوگوں کو ان کے حقوق عطا کیے ہیں اور کسی کے ساتھ بھی ناانصافی کا معاملہ نہیں کیا ہے۔ میاں بیوی کے حقوق، والدین کے حقوق، بھائی بہن کے حقوق، سب کو شریعت نے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔

بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج بچوں کو دینی تعلیم بالعموم نہیں ملتی۔جب وہ ڈھائی سال کے ہوتے ہیں تو نرسری کے حوالے کر دیے جاتے ہیں ۔ ہائی اسکول، گریجویشن اور ڈاکٹریٹ تک انھیں دینی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ بچے اسکول جاتے ہیں ، وہاں تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم سے واقف کرائیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ ہم سے اس تعلق سے سوال کرے گا، اس وقت ہم کیا جواب دیں گے؟  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 یَآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ  (التحریم: 6)

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

ہمیں اپنی اولاد کی دینی تربیت اور دینی تعلیم کی فکر بھی کرنی چاہیے۔ہم اس پہلو سے بہت کوتاہ ہیں ۔ ہمیں اس بات کی تو بہت فکر ہے کہ ہمارا بیٹا ڈاکٹر ،انجینیراور  آرکیٹیکٹ کیسے بنے گا اور کہاں اسے اچھی سے اچھی جاب ملے گی؟ ہندوستان میں رہے گا یا امریکہ، انگلینڈ، امارات، کنیڈا یا افریقہ میں رہے گا؟ لیکن آخرت میں ان کی کام یابی کے لیے فکر مند نہیں ہیں ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے انھیں واقف کرائیں اور اسلام کی جو کچھ بھی معلومات ہمیں حاصل ہیں، ان تک پہنچانے کی کوشش کریں، انھیں دینی تعلیم سے آراستہ کریں، ان کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔ اصلاً تو یہ کام والدین اور سرپرستوں کے کرنے کا ہے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کر رہے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی کمیٹیاں بنائیں، جو ان نوجوان مسلمانوں کی کونسلنگ کر سکیں۔ اگر آپ نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا تو موجودہ تعلیم کے ماحول میں اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ لوگ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں گے۔

موجودہ وقت میں تعلیم عام ہو رہی ہے۔ بعض بڑے شہروں میں تو غیر   تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح بہت کم ہے، ان میں کیرلہ، چننی وغیرہ شامل ہیں ۔ ایسی  صورت حال میں جہاں ہم بہت سی دوسری باتوں کی فکر کرتے ہیں وہیں ہمیں اس بات کی بھی فکر کرنی چاہیے کہ بچوں کی صحیح اسلامی کونسلنگ ہو، تاکہ وہ اسلامی تعلیم سے واقف ہو سکیں ۔ الحمد للہ اس تعلق سے اسلامی لٹریچر بھی موجود ہے، اس کے ذریعہ بھی اسلامی تعلیمات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تعلق سے سنجیدہ ہوں اور کوئی سسٹم اختیار کریں تب جاکر صحیح معنوں میں ہم انھیں تعلیم دے سکیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔