خواجہ احمد عباس

وصیل خان

خواجہ احمد عباس کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، ان کا شمار ایک ہمہ گیر اور مختلف الجہات صفات رکھنے والے غیر معمولی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ افسانہ، ناول، صحافت، سفرنامہ ،فلم ،غرضیکہ ادب سے تعلق رکھنے والی کوئی صنف ایسی نہیں ہے جس پر ان کا قلم روانی اور بشاشت سے نہ چلا ہو اور یہ حد یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ادب کی جملہ اصناف میں انہوں نے قائدانہ رول نبھائے ہیں۔ خواجہ صاحب کا تعلق ایک ایسے علمی خانوادے سے ہے جسے بیک وقت ادب، مذہب، سیاست اور عصری علوم سے از حد دلچسپی و رغبت تھی اور جنگ آزادی میں بھی وہ مجاہدانہ کردار کا حامل رہا ہے۔ اس خاندان کے سربرآوردہ افراد میں دیوان میرحسین، خواجہ غلام الحسنین، خواجہ غلام الثقلین، خواجہ علام السیدین، خواجہ غلام السبطین اور مولانا الطاف حسین حالی اور صالحہ عابد حسین وغیرہم شامل ہیں ۔خواجہ صاحب کا ادبی و صحافتی سفر بہت طویل ہے۔

ان کے خاندان نے مدینہ سے افغانستان کے ہرات اور پھر ہندوستان کے پانی پت میں سکونت اختیار کی ۔خواجہ صاحب نے بھی  دہلی ، لاہورکے کئی سفر کئے اخیر میں ممبئی میں مستقل قیام پذیر رہے،اور یہی شہر ان کی قلمی معرکہ آرائیوں کا مرکز رہا ہے جس کی ساری تفصیل ان کی خودنوشت سوانح حیات میں موجودہے ۔ان کی مختلف الجہات ادبی خدما ت پربڑی حد تک کام ضرور ہوا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا کہ ان کا حق تھا ۔

زیر نظرکتاب ’خواجہ احمد عباس ‘ کے عنوان سے ابھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس کے مصنف عباس رضا نیّر ہیں جنہوں نے بڑی محنت سے کچھ ایسی تفاصیل جمع کی ہیں جس سے خواجہ احمد عباس کی حیات و خدمات پر بڑی گہرائی کے ساتھ روشنی پڑتی ہے اور کچھ ایسے انکشافات کئے گئے ہیں جس سے صاحب تذکرہ کی زندگی کے ہمہ جہت پہلواجاگر ہوتے ہیں ۔ اشتراکیت اور کمیونزم سے ان کی والہانہ وابستگی کا احوال بیان کرتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں ۔

’’خواجہ احمد عباس ترقی پسند خیالات کے حامل اس وقت سے تھے جبکہ ترقی پسندتحریک وجود میں ہی نہیں آئی تھی، خواجہ صاحب علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے اس وقت سے ہی ترقی پسند ی میں دلچسپی رکھنے والے طلباءان کے ارد گرد جمع ہوگئے تھے ۔سجاد ظہیر ، کرشن چند ر، راجندر سنگھ بیدی ، محمودالظفر، احمد علی ، ملک راج آنند اور علی سردار جعفری ان کے ترقی پسند دوست تھے۔‘‘

خواجہ صاحب تحریک میں شامل ضرورتھے لیکن اس کی کچھ پالیسیوں سے نہ صرف منحرف رہتے تھے بلکہ کبھی کبھی بالکل کھل کر اختلاف رائے کا بھی اظہار کیا کرتے تھے جس سے ا ن کی آزادانہ طبیعت کا پتہ چلتا ہے ۔ مصنف نے ان خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے۔

 ’’خواجہ صاحب کافی پڑھے لکھے انسان تھے، ان کا کوئی فیصلہ جلد بازی پر مبنی نہیں ہوتا تھا بلکہ عقل کی میزان پر تلا ہوا ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب مارکسزم کو تسلیم کرتے تھے لیکن اس پر اندھا یقین نہیں رکھتے تھے، وہ تنقیدی ذہن رکھتے تھے اور جس بات کو غلط سمجھتے تھے اس کا برملا اظہار کردیتے تھے، وہ پارٹی کی پالیسی کے مطابق ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے نہیں تھے، یہی سبب ہے کہ جب ترقی پسند تحریک کی پالیسیوں سے انہوں نے اختلاف کیا تو وہ تحریک سے نکال دیئے گئے۔ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور فلم ساز بھی تھے، پڑھنے لکھنے کا انہیں بچپن سے شوق تھا اور کیوں نہ ہو ان کے گھر میں جو پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا، ان کے گھر کی خواتین ناولیں اورافسانے  بہ آواز بلند پڑھتی تھیں، گودڑکا لعل اور فسانہ ٔ آزاد تو و ہ آٹھ برس کی عمر ہی میں پڑھ چکے تھے۔‘‘

مصنف عباس رضا نیّر نے خواجہ صاحب کی مختلف الجہات خدمات کا جو احاطہ کیا ہے وہ جامع ہونے کے باوجود تشنگی کا احساس دلاتا ہے ممکن ہے کہ ضخامت کے خوف سے انہوں نے ایسا کیا ہو۔ان کے ایک مشہور ناول ’اندھیرا اجالا ‘ جس میں خواجہ صاحب نے فلم صنعت کی سرمایہ دارانہ اور استحصالی مزاج کو موضوع بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’ اندھیرا اجالا میں فلم صنعت کی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور فلمی سرمایہ داروں کے ہاتھوں ہونے والے ہر سطح کے استحصال کو موضوع بنایا ہے ۔ناول میں خواجہ صاحب نے دکھایا ہے کہ اس استحصال کے بدترین شکار وہ چھوٹے چھوٹے ملازمین ہیں جن کی بے انتہا محنت سے فلمیں بنتی ہیں ان کی محنت سے بنی فلموں سے ایک طرف فلم سازوں ، ہدایت کاروں اور اداکاروں کی تجوریاں بھرتی ہیں تو دوسری طرف چھوٹے چھوٹے اداکاروں اور ملازمین کو اتنا بھی نہیں ملتا کہ وہ صحیح ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی کھاسکیں ۔ یہاں کا کوئی مذہب ، دھرم اور ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ فلموں میں اکسٹرا رول کرنے والی لڑکیوں کا جنسی استحصال اوپر سے نیچے تک کے لوگ کرتے ہیں ، یہاں اچھائی برائی، اونچ نیچ کا معیار مذہب یا دھرم نہیں بلکہ روپیہ ہے اور صرف روپیہ۔ ‘‘

مجموعی طور پر اس کتاب کے ذریعے خواجہ احمد عباس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح سے واضح کیا گیا ہے اس سے بلا شبہ خواجہ صاحب کی تفہیم بہت آسان ہوگئی ہے اور مصنف اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ مادیت پرستی کے اس دور میں جس نے عوام الناس کوادب اور اخلاقی اقدار سے بے حد دور کردیا ہے جس کے نتیجے میں نئی نسل کو ان شعراءو ادبا اور محققین سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔

آسان اور سہل اسلوب میں تحریر کی گئی یہ کتاب اپنی جانب ان کی توجہ مبذول کرنے میں ضرور کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایوان ادب میں اس کتاب کا خیرمقدم ہونا چاہئے ، ہم مصنف کی اس تحقیقی کاوش کی ستائش کرتے ہیں۔

کتاب کا نام :خواجہ احمد عباس ،مصنف:عباس رضا نیّر، قیمت:350/- روپئے، صفحات:286، ملنے کا پتہ: امرین بک ایجنسی احمدآباد 08401010786۔

تبصرے بند ہیں۔