تیرے مقصدِ وجود کی سوچی تھیں خالق نے یہ وجوہات!

مدیحہ امرین

کہتے ہیں کہ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا تھا انسان کو،

محبتیں بانٹتے تھے بے مثال، عداوتیں تو محبوب تھیں شیطان کو.

حقوقُ العباد بھی سکھانے تھے، حقوق اللہ کے لیے تو چُن لیا تھا خلقِ آسمان کو،

جہادِ نفس، نرمی و درگزر کہلانے تھے مومن کی شان کو.

‘قلوبِ مطمئن’ کے لقب سے ‘اپنا’ بنانے تھے اصحابِ قرآن کو،

"اجیب الدعوۃ الداع اذادعان” کے تحفے عطا کرنے تھے عاشقِ رمضان کو.

قربان جانے کے جذبہ سے مہکانے تھے شہدا کی روح و جان کو،

نہر و حور سے  اُنھی کے لیے سجانے تھے جنتان کو.

صبرِ جمیل کا بدل بنانے تھے فردوس کے نخل و رمّان کو،

پھر حُبّ الہی و دنیا کے کچھ فرق بھی سکھانے تھے پیروِ حامان کو.

"فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ” کی سزائیں بتانے تھے تارکِ احسان کو،

اور عام کرنے تھے آیتِ رحمان: "فبايِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ؟” کو.

اے انس، تیرے مقصدِ وجود کی سونچی تھی خالق نے یہ وجوہات،

اور تیرے لیے ہی تو  بنائے تھے شمس و قمر، دن و رات.

نجم و شجر بھی تیرے لیے، تیرے لیے ہی میووں کے باغات،

بس یہ نہیں ، بلکہ ہر طرح سجائ تیرے لیے اِس عالَم کی ساخت.

مگر آسمان کی خَموش خلقت دیکھ رہی ہے اجیب حالات،

رنج و غم ہے اسے کہ کیوں کر تجھے بخشی گئ حیات.

محبتیں تو دور، تو بےحِس ہی بنجاتا ہے جب دیکھتا ہے قتل و خون و فساد،

بغض و حسد، کبر و جبر کی اب چھاگئ ہے ایک اندھیری رات.

وقتِ فرست کے نام پر اپنوں کی برائ میں لگاتا ہے تُو قیمتی لمحات،

لطف اور تفریح کو جوڑدیا تو نے فحش افعال کے ساتھ.

اب بس بھی کر اور دیکھ کچھ بچا بھی کیا تیرے ہاتھ؟

اب  ذرا غور سے پڑھ لے خداِ رحمان کی تصنیفات.

اب راضی کرنا ہے تجھے تیرے اعمال سے ربِّ زیشان کو،

عمل کی موتیوں سے پُر ونا ہے رسول اللہ صہ کے فرمان کو.

عبادالقدوس کیلئے فلاح کی ضمانت بنانا ہے اذان کو،

قیام و قعود و سجود میں جذبہء شکر بتانا ہے خالقِ کونو مکاں کو.

‘حسنِ اخلاق’  کے ھیروں سے سنوارنا ہے حشر کے دائمی سامان کو،

اور اخوت کے اسباق پڑھانا ہے وطن کے یاران کو!

تبصرے بند ہیں۔