تین طلاق پر غیروں میں بحث  جاری ہے

عبدالعزیز

 آج (8جولائی 2017ء) کے انگریزی اخبار ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کے ادارتی صفحہ پر مشہور تاریخ داں اور صحافی رام چندر گوہا کا ایک مضمون بعنوان ’’صاحب جدید کی جدوجہد… فرسودہ قوانین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، بغل میں  اداریہ ہے جس کا عنوان ہے ’’زعفرانی رنگ کا زور‘‘۔ رام چندر گوہا نے مضمون کے پہلے پیرا گراف میں لکھا ہے کہ تین طلاق اور ذبیحہ گائے اگر چہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر عصر حاضر میں جدید ہندستان میں دونوں زیر بحث ہیں اور عہد ماضی کے ذہن کی پیداوار ہیں۔

چندر گوہا اپنے اس مضمون میں آگے کی سطروں میں صرف تین طلاق کی دقیانوسیت اور خرابیوں کا ذکرتے ہوئے دو ایسے بگڑے بلکہ مرتد قسم کے مسلمانوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک ہیں حمید دلوائی جو مسلمانوں میں بدنام زمانہ تھے اور دوسرے سید بھائی جن کا پورا نام سید محبوب شاہ قادری تھا۔ سید بھائی حمید دلوائی کے چیلا تھے۔ سید بھائی حیدر آباد کے تھے مگر ان کی پرورش اور پرداخت پونے میں ہوئی۔ حمید دلوائی 1977ء میں فنا ہوئے مگر 1977ء تک وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اسلام کے عائلی قانون خاص طور سے تین طلاق کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ چندر گوہا نے تین طلاق کے خلاف ان کی کئی تقریروں کا حوالہ بھی اپنے مضمون میں پیش کیا ہے۔ حمید دلوائی کے شاگرد رشید کے والد ہتھیار بننے والے ایک کارخانہ میں ملازم تھے۔ ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں ۔ سید بھائی اسکول کے ہی ڈراپ آؤٹ طالب علم تھے۔ 13سال کی عمر ہی میں پنسل بنانے والے ایک کارخانہ میں ملازم ہوگئے۔

مسٹر چندر گوہا نے لکھا ہے کہ سید بھائی کی ایک بہن خدیجہ تھی، اس کے شوہر نے خدیجہ کو تین طلاق دے دی تھی جس کی وجہ خدیجہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے گھر چلی آئی۔ باپ بھائی خدیجہ اور اس کے بچوں کو بوجھ سید بھائی کے خاندان پر جب پڑا تو سید بھائی تین طلاق کے سخت مخالف ہوگئے۔ مخالفت میں اتنی شدت آگئی کہ 2003ء میں ’طلاقِ ثلاثہ کے خلاف جہاد‘ کے نام پر ایک کتاب لکھی یا لکھوائی ہے۔ 2014ء میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہوا۔ مسٹر گوہا نے لکھا ہے کہ جب اندور کی شاہ بانو کا معاملہ مشہور ہوا اور سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ دیا کہ شاہ بانو کے شوہر احمد کو اپنی مطلقہ کو نان و نفقہ دینا ہوگا۔ تو سید بھائی نے شاہ بانو کو پونے بلایا اور شاندار استقبالیہ دیا۔ مسٹر گوہا نے سید بھائی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ماہر قانون اے اے اے اے فیضی کی کتاب کا بھی اپنی کتاب میں حوالہ دیا ہے۔ فیضی کا کہنا ہے کہ اس جدید دنیا میں مذہبی قانون کی اندھی تقلید نہیں ہوسکتی۔ قرآن میں بہت سی باتیں ہمیشہ کیلئے ہیں مگر بہت سی باتیں ماضی کیلئے مناسب ہوں گی مگر اس وقت وہ نامناسب ہیں ، لہٰذا آج قرآن کی پیروی موجودہ حالات کے مطابق ہی کی جاسکتی ہے‘‘۔ فیضی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’قانون اور مذہب کو ملانا نہیں چاہئے دونوں دو چیزیں ہیں ‘‘۔

 مضمون پر تبصرہ: مسٹر رام چندر گوہا فیضی، حمید دلوائی اور سید بھائی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ تینوں کا خیال ہے کہ اسلام یا قرآن میں مردوں کو عورتوں سے برتر بتایا گیا ہے اور ان کو برابر کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ مسٹر گوہا کے مضمون کی روح یہی ہے کہ اسلام نے عورتوں اور مردوں کے برابر حق نہیں دیا ہے۔ اس عدم واقفیت کا بھی مظاہرہ ہے کہ عورتوں کو خلع (علاحدگی) کا حق نہیں دیا ہے جس طرح مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ایسے لوگوں کو اپنی کتاب ’ترجمان القرآن‘ میں منہ توڑ جواب دیا ہے۔

 سورہ بقرہ کی آیت 228 کی روشنی میں مولانا رقمطراز ہیں :

 ’’ساتویں صدی مسیحی میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو دنیا اس حقیقت سے یک قلم نا آشنا تھی کہ مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہوسکتے ہیں ۔ منو کے قانون نے عورت کی ہستی صرف اس شکل میں دیکھی تھی کہ وہ مرد کیلئے پیدائش اولاد کا ذریعہ ہے اور اس کی نجات اس پر موقوف ہوئی کہ مرد کی خدمت گزاری میں اپنی زندگی فنا کر دے، یہودی قانون عورت کو مرد کی جائداد تصور کرتا تھا اور خاندانی زندگی میں اس کی کوئی مستقل حیثیت نہ تھی۔ مسیحی کلیسا کا فیصلہ یہ تھاکہ انسان ہونے کے لحاظ سے مرد اور عورت یکساں نہیں ہیں ‘‘۔ انسان صرف مرد ہے، اور عورت میں انسانی روح کی جگہ ایک دوسری روح بولتی ہے۔ رومی قانون نے بھی جو یورپ کے تمام قوانین عامہ کا ابتدائی سرچشمہ ہے، عورت کی جگہ مرد سے بدرجہا نیچے دیکھی۔ خاندانی زندگی میں صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی حیثیتیں نمایاں ہوتی تھیں ۔ ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کیلئے کوئی جگہ نہ تھی۔

جب کبھی انسان کا لفظ بولا جاتا تھا تو اس کا مخاطب مرد ہی کو سمجھا جاتا تھا۔ عورت مرد کے سایے میں جگہ پاسکتی تھی مگر اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہودی اور مسیحی تصور نے ’’پیدائشی گناہ‘‘ کے عقیدے کا سارا بوجھ عورت کے سر ڈال دیا تھا۔ آدم کی لغزش کا باعث حوا ہوئی، اس لئے گناہ کا پہلا بیج عورت کے ہاتھوں پڑا اور وہی مرد کی گمراہی کیلئے شیطان کا آلہ کار بنی تھی، اب ہمیشہ عورت کی ہستی میں گناہ کی دعوت ابھرتی رہے گی۔

 دماغی اور معاشرتی زندگی کے دائروں کی طرح مذہبی زندگی کے دائرے میں بھی عورت مرد کی ہمسر نہ ہوسکی۔ گویا انسانوں کی طرح خدا کا فیصلہ بھی اس کے خلاف گیا تھا۔

 لیکن قرآن نے صرف عورتوں کے حقوق کا اعتقاد ہی پیدا نہیں کیا، بلکہ صاف صاف اعلان کردیا کہ حقوق کے اعتبار سے دونوں کا درجہ ایک ہے جس طرح مرد کے حقوق عورت پر ہوئے ٹھیک اسی طرح عورت کے حقوق بھی مرد پر ہوئے۔

 وَلَہُنَّ مِثْل الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ’’اور حسن سلوک میں بیوی کے حقوق بھی اسی طرح شوہروں پر ہوئے جس طرح شوہروں کے بیویوں پر ہوئے‘‘ (228:2)۔

یعنی جس طرح عورتوں کو دینا ہے اسی طرح لینا بھی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مرد اپنے حق کا تو مطالبہ کرے لیکن عورت کا حق بھلا دے، اگر عورت مرد کے حقوق کی مقروض ہے تو اسی طرح مرد بھی عورت کے حقوق کا مقروض ہے!

 قرآن نے یہ چار لفظ کہہ کر ’’  لہن مثل الذی علیہن‘‘ انسان کی معاشرتی زندگی کے سب سے بڑے انقلاب کا اعلان کر دیا تھا۔ ان چار لفظوں نے عورت کو وہ سب کچھ دے دیا جو اس کا حق تھا، مگر جو اسے کبھی نہیں ملا تھا۔ ان لفظوں نے اسے محرومی و شقاوت کی خاک سے اٹھایا اور عزت و مساوات کے تخت پر بٹھایا۔ پھر اس اسلوب بیان کی جامعیت اور مانعت پر غور کرو۔ زندگی و معاشرت کی کون سی بات ہے جو ان چار لفظوں میں نہیں آگئی اور کون سا رخنہ ہے جو بند نہیں کر دیا گیا؟

البتہ آگے چل کر یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ باوجود حقوق کی برابری کے، ایک خاص درجہ مرد کیلئے ماننا پڑتا ہے:

 وللرجال علیہن درجہ (229:2)۔ البتہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کو ایک خاص درجہ ضرور حاصل ہوا ہے۔ اس خاص درجہ سے مقصود کون سا درجہ ہے؟ اس کا جواب سورۂ نساء میں ہمیں مل جاتا ہے۔

 ’’مرد عورتوں کیلئے کار فرما ہوئے اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس لئے کہ مرد اپنا مال (جو ان کی محنت سے جمع ہوتا ہے) عورتوں پر خرچ کرتے ہیں ‘‘۔ (34:4)

  یعنی خاندانی زندگی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا اگر کوئی فرد اس کا ’’قوام‘‘ یعنی بندوبست کرنے والا نہ ہو۔ یہ ’قوام‘ ہستی کس کی ہوئی؟ شوہر کی یا بیوی کی؟ قرآن کہتا ہے کہ خاندانی زندگی کا نظام اس طرح چل رہا ہے کہ ’قوام‘ ہستی کی جگہ شوہر کی ہوئی۔ پس اتنا ہی امتیاز ہے جو مرد کو عورت کے مقابلے میں حاصل ہے۔ بشرطیکہ اس انتظامی ذمہ داری کو جو سر تاسر ایک بوجھ ہے، وجہ امتیاز حاصل کرلیا جائے۔

  یہ ظاہر ہے کہ اس امتیاز سے مرد کو کوئی پیدائشی امتیاز حاصل نہیں ہوجاتا۔ محض خاندانی نظام کا ایک خاص ڈھنگ ہے جس نے یہ جگہ اسے دلادی ہے۔ فرض کرو، متمدن انسانوں کا خاندانی نظام اس طرح چلنے لگتا کہ انتظام معیشت کی باگ مرد کی جگہ عورت کے ہاتھ آجاتی تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ امتیاز مرد کو نہیں ملتا۔ یہ امتیاز مرد کو نہیں ملتا۔ عورت کے حصے میں آتا۔

  جہاں تک معیشتی اور مالیاتی استقلال کا تعلق ہے، قرآن نے اس سے صاف انکار کر دیا کہ یہ استقلال صرف مردوں ہی کے حصے میں آیا ہے، اس نے قطعی لفظوں میں اعلان کر دیا کہ مرد کی کمائی مرد کیلئے ہو۔ عورت کی کمائی عورت کیلئے۔ عورت بیٹی ہوکر باپ سے الگ، بہن ہوکر بھائی سے الگ، بیوی ہوکر شوہر سے الگ مستقلاً اپنی کمائی کا انتظام کرسکتی ہے اور اس کی مالک ہوسکتی ہے:

 ’’مردوں نے جو کچھ کمائی کی اس میں ان کا حصہ ہوا۔ عورتوں نے جو کچھ کمائی کی اس میں ان کا حصہ ہوا‘‘ (32:4)۔

  ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ جہاں تک جنسی درجہ اور حقوق کا تعلق ہے، قرآن کے نزدیک دونوں جنسیں برابر ہوئیں ، البتہ معیشت کی فراہمی کا کام نظام معاشرت نے مردوں کے سر ڈال دیا ہے۔ اسی کو وہ ایک ’’خاص درجہ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اصلاً یہ ایک طرح کا باہمی تقسیم عمل ہے۔ مرد کماتا ہے عورت خرچ کرتی ہے۔

  قرآن مجید کے تمام مخاطبات عام ہیں ۔ وہ جب کبھی ’’یا ایہاالناس‘‘اور’’ یا ایہا الذین اٰمنوا‘‘ کہتا ہے تو یکساں طور پر دونوں جنسوں کو مخاطب کرتا ہے۔ اس نے مذہبی اعمال میں امتیاز کی کوئی لکیر ایسی نہیں کھینچی جسے عورت عبور نہ کرسکتی ہو۔ تمام اعمال و طاعات یکساں طور پر دونوں کیلئے ہوئے اور دینی فضیلتوں کے تمام مدارج بھی یکساں طور پر دونوں کے حصے میں آئے۔ انسان ان دونوں نصف ٹکڑوں کے ملنے سے انسان ہے، ایک نصف دوسرے نصف سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو کمتر ہے، میں بہتر ہوں ۔

 خطابات اور بیانات میں آج کل یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب کبھی معاشرت و جمعیت کے اعتبار سے لوگوں کا ذکر کیا جائے تو مرد اور عورت دونوں کو یاد کرلیا جائے، مثلاً کہیں گے ’’ہر مرد اور عورت کا یہ فرض ہے‘‘ یا ’’قوم ہر مرد اور عورت سے یہ امید رکھتی ہے‘‘۔ ہر ایسا بیان جو اس تصریح سے خالی ہو، ناقص بیان سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے یہی اسلوب بیان اختیار کیا تھا:

 ’’ ان المسلمین والمسلمت والمؤمنین والمؤمنٰت والقانتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصٰدقٰت‘‘ (35:33)

 ’’والمؤمنون والمؤمنٰت بعضھم اولیاء بعض، یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر‘‘ (71:9)

 یورپ میں آج تک عورت اپنے ذاتی نام سے اپنی شخصیت نمایاں نہیں کرسکتی۔ جب تک شادی نہیں ہوئی، مس ٹامسن ہے۔ جب شادی ہوگئی تو مسز جونس ہوگئی۔ یعنی خود اس کی شخصیت کوئی مستقل انفرادیت نہیں رکھتی یا باپ کے سایے میں دکھائی دے گی یا شوہر کے، لیکن مسلمانوں کی معاشرتی تہذیب میں کبھی ایسا نامنصفانہ تخیل پیدا نہیں ہوا۔ عورت لڑکی ہو یا بیوی، وہ ہمیشہ فاطمہ اور عائشہ ہی کی حیثیت سے نمایاں ہوگی۔ باپ اور شوہر کے سایے میں نہیں چھوڑ دی جائے گی۔ افسوس ہے کہ اب یورپ کی اندھی تقلید میں لوگ اس درجہ کھو گئے ہیں کہ اپنا قدیم طریقہ چھوڑ کر یورپ کا طریقہ تسمیہ اختیار کرتے جاتے ہیں ، چنانچہ ہندستان اور مصر وغیرہ میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے کہ ’’مس‘‘ اور ’’مسز‘‘ اور ’’ماوا موزیل‘‘ اور ’’مادام‘‘ کی ترکیب سے جدید تعلیم یافتہ خواتین کو یاد کیا جائے گا، حالانکہ یورپ کا یہ طریقہ قرون وسطیٰ کی غیر شائستہ ذہنیت کی یادگار ہے اور خود یورپ بھی اب اس کا خواہشمند نہیں کہ اس رسم کی عمر اور دراز کی جائے۔

 قرآن کے نزدل سے پہلے عرب کا بھی وہی حال تھا جو اس بارے میں تمام دنیا کا تھا لیکن قرآن کی تعلیم نے جو انقلابِ حال پیدا کر دیا اس کی وضاحت کیلئے صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہوگا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں میں پہلی مرتبہ سیاسی خانہ جنگی برپا ہوئی تو ایک گروہ نے حضرت عائشہؓ کی قیادت میں میدانِ جنگ کا رخ کیا اور اس وقت کسی مسلمان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ حضرت عائشہؓ  عورت ہوکر ایک سیاسی اور فوجی تحریک کی قائد کیسے ہوسکتی ہیں ؟ یورپ آج تک اس مسئلہ کی نزاع سے فارغ نہیں ہوسکا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی تصویت ۱؎(یعنی ملکی انتخابات میں ووٹ دینے) کا حق حاصل ہونا چاہئے یا نہیں ؟ اور انگلستان کی سفرے جیسٹ (Suffragist) تحریک کا ہنگامہ تو ابھی کل کی بات ہے، لیکن جو مسلمان آج سے تیرہ سو برس پہلے حضرت عائشہؓ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوئے تھے، ظاہر ہے کہ انھیں عورتوں کے اس حق کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ جو لوگ مخالف تھے ان کی مخالفت بھی اصل ما بر النزاع معاملہ میں تھی۔ اس بارے میں نہ تھی کہ حضرت عائشہؓ  عورت ہوکر ایک جنگ آزما سیاسی گروہ کی قائد کیونکر ہوسکتی ہیں ۔ (۱؎  یورپ نے اب عورتوں کو ووٹ دینے کا حق قانوناً منظور کرایا ہے۔ مرتب)

 غیر مسلموں میں خاص طور سے ذہین طبقہ میں تین طلاق کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ ا س میں ہمارے مفتیانِ کرام اور علماء کرام کا بھی دخل ہے جو غیر مسلموں کو یہ بتاتے نہیں کہ تین طلاق کے سلسلہ میں مسلمانوں میں اختلاف ہے اور ایک نہیں بہت سے علماء یا ائمہ ایسے ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ قرآن میں بھی صرف دو طلاق کی بات کہی گئی ہے۔ جو لوگ ایک مجلس میں تین طلاق کے قائل ہیں وہ بھی اسے غیر قرآنی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی بتاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک نشست میں یعنی ایک بار میں تین طلاق دینا گناہ ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے تھے ان پر حضرت عمرؓ کا کوڑا برستا تھا۔ اگر طلاق دینے کا قرآنی طریقہ قرآن و سنت کے حوالے سے بتایا جائے اور اس پر مسلمان عمل پیرا ہوں تو طلاق کے متعلق غیر مسلموں اور بگڑے ہوئے مسلمانوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں ۔ اگر دور نہیں تو کم ضرور ہوسکتی ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔