اسلام کا قانونِ طلاق -ایک تقابلی جائزہ

مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

فطرت ،جامعیت اور آفاقیت، وہ خصوصیات وامتیازات ہیں ؛جودیگر ادیان و مذاہب کے مقابلے میں صرف اور صرف مذہب اسلام کا حصہ ہیں؛جن کی عظمت، وسعت ، تنوع اور گہرائی کو سمجھناکسی بھی تنگ نظر انسان کےبس کی بات نہیں ۔
اسلام کے دین فطرت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنا فطری و طبعی اُمور کی طرح آسان و سہل ہے ، اس کے بنیادی و اساسی احکام کی تکمیل میں کسی قسم کی دقت و پیچیدگی نہیں ۔
آفاقیت کامطلب یہ ہے کہ وہ ساری انسانیت کیلئے بلا لحاظ رنگ و نسل ، ملک و وطن قابل عمل ہے ، وہ کسی مخصوص زبان و مکان تک محدود نہیں ، اس کو جغرافیائی حدود میں مقید نہیں کیا جاسکتا ، اس کی تعلیمات و احکامات قیامت تک کی ساری انسانیت کیلئے بہ یک وقت یکساں و قابل نفاذ ہیں۔
جامعیت سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک ایسا جامع دین ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں و خوبیاں موجود ہیں ، کوئی خیر ایسا نہیں ہے جو اس میں شامل نہ ہو۔
ان سب کے علاوہ اسلام نے زندگی کے ہر موڑ اور حیات انسانی کے ہر شعبے میں ہر صنف وطبقے کی مکمل رہنمائی کی ہے ،خواہ اس کا تعلق معتقدات و عبادات سے ہو یا معاشرت ومعاملات سے ،معیشت و تجارت سے ہو یا آداب و اخلاق سے ،غرض ہر میدان میں قانون خداوندی انسانیت کی کامل رہبری کرتا نظر آتا ہے۔
اسلام کے عائلی قوانین میں’’ طلاق‘‘ ان دنوں ہر کس و ناکس کےلئے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ،وہ شخص جوقرآن وسنت سے ادنی واقفیت نہیں رکھتا، ان دنوں وہ بھی بڑی سرگرمی کے ساتھ ان خالص علمی و فقہی مباحث میں حصہ لینےاور اسلام کے اس اہم قانون پر رکیک اعتراضات کرنے کو روشن خیالی تصور کررہاہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے قانون طلاق کو موجودہ دور کے جملہ قوانین طلاق پر برتری حاصل ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہےکہ اسلام کا نظام طلاق ،وحی پر مبنی ہے یعنی اسمصدرخدائے علیم وخبیر کی ذات ہے ؛جس میں کوئی تبدیلی اور تغیر ممکن نہیں، اور اسی کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اس جہان آب وگل کی ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے طبعی وظائف انجام دے رہی ہے اور اس میں حد درجہ توافق و سازگاری ہے، کہیں معمولی قسم کا بھی کوئی اختلاف ونزاع نہیں ۔ تمام موجودات کی جبین نیاز اس حاکم مطلق کے آگے خم ہے۔ اس کے برخلاف دوسرا قانون وہ ہے جس کا ماخذ انسان کا ذہن ہے جو اپنے تمام حیرت انگیز کمالات کے باوجود بہرحال نقص وتغیر کے عیب سے خالی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ارتقائی ذہن و مزاج کا حامل ہے، یعنی نقص سے گزر کر کمال تک پہنچتا ہے اور یہ کمال بھی اضافی ہے، مستقل اور قائم بالذات نہیں ہے۔ ایک خاص وقت اور زمانے میں جو چیز اکمل وکامل سمجھی جاتی ہے، وہ آگے چل کر حالات کے تغیر کے ساتھ ناقص بن جاتی ہے۔ اس کا اطلاق انسان کے وضع کردہ قوانین پر بھی ہوتا ہے خواہ وہ کسی دور میں بنایا گیا ہو اور اس کے بنانے والے کتنے ہی جلیل القدر ماہرین قانون ہوں۔
اب آئیے اس تناظر میں اسلام اور دیگر مذاہب کے قانون طلاق کا ایک تقابلی جائزہ لیں؛جس سے واضح طور پر اسلامی قوانین کی حقانیت کھل کر سامنے آجائے ۔
قانون طلاق یہود یت میں:
یہودیت میں طلاق کے تعلق سے بہت نرمی اور ڈھیل پائی جاتی ہے یعنی شوہرا گر چاہے کہ موجودہ بیوی سے نکاح ختم کرکے اس سےزیادہ زیادہ خوب صورت لڑکی کوبیاہ کر لائے تو اس کو طلاق کی اجازت حاصل ہے ،اسی طرح اس مذہب میں عورت کے معمولی معمولی عیوب ونقائص بھی طلاق کی وجہ بن سکتے ہیں ،مثلا دونوں آنکھیں برابر نہ ہوں ،عورت لنگڑی یا کبڑی ہو ،سخت مزاج اور لالچی ہو ،گندہ دہن اور بسیار خور ہو ،ان سب صورتوں میں مرد کو طلاق کے وسیع اختیارات حاصل ہیں ؛مگر عورت کے ساتھ اس درجہ ظلم کہ وہ مرد کے ہزاروں عیوب کے باوجود تفریق کا مطالبہ نہیں کرسکتی ۔(احکام الطلاق عنداسرائیلین بحوالہ اسلام کا نظام عفت و عصمت)
قانون طلاق عیسائیت میں :
عیسائی مذہب میں پہلے سرے سے یہ جائز ہی نہ تھا کہ کسی بھی وجہ سے عورت کو طلاق دی جائے ،رشتہ نکاح دوامی سمجھاجاتا تھا،موت کے سواء جدائی کی کوئی اور وجہ ممکن نہ تھی ،یہ ساری سختی حضرت مسیح کے اس قول سے اخذ کی گئی تھی
’’جسے خدا نے جوڑا اسے آدمی جدانہ کرے ‘‘ (متی 19:6)
حالانکہ اس قول کا بالکل یہ مطلب ہی نہیں تھا ؛بل کہ یہ ایک اخلاقی ہدایت تھی ؛جس کا منشاء بے وجہ طلاق دینے کو روکنا تھا مگرمسیحی علماء نے اس کی خود ساختہ تشریح کرلی اس طرح صدیوں تک مسیحی دنیا میں یہی قانوں لاگو رہابعد میں مشرقی کلیسا نے کچھ صورتیں تفریق بین الزوجین کی نکالیں ،پا پائے روم پوپ فرانسس نے اپنے معتقدین وکیتھولک چرچس کے با باؤں ومذہبی رہنماؤں کو ایک فرمان جاری کیا کہ عیسائی عائلی قوانین میں اصلاحات کی گئی ہیں اس کے تحت قانون طلاق کو آسان بنایا گیا ہے ۔ اب کیتھولک عیسائیوں کو طلاق کے لئے طویل قانونی لڑائی نہیں لڑنی پڑے گی ۔
ان سب کے باوجود :عیسائی مذہبمیںان سخت قوانین طلاق کی وجہ سے سماج افراتفری کا شکار ہے ، خاندانی نظام بکھررہا ہے ، کروڑوں عیسائی جوڑے ازدواجی زندگی کے حدود وقیود، اصول وآداب سے برگشتہ ہو کر مفسدانہ زندگی بسر کررہے ہیں ، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شادی سے فرار اختیار کیا جارہا ہے ۔
(حقوق الزوجین ضمیمہ 2،قانونِ طلاق میں اصلاحات)
قانون طلاق ہندومت میں :
اپنے قدیم تمدن پر نازاں ہندوستان کے ہندو مت مذہب میں تو طلاق اور خلع کا کوئی تصور ہی نہیںہے،بلکہ شوہر کے مرنے سے بھی طلاق نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ہندؤوں کا نظریہ ہے کہ
” خاوند کی حیثیت پر میشور یعنی خدا کی سی ہے اور پرمیشور ایک ہی ہے، لہٰذا شوہر بھی ایک ہونا چاہیے ۔“
( تحفۃ الہند:ص:194)
شوہر کی لاش کے ساتھ بیوی کو ستی ( زندہ جلانے) کا عمل اسی نظریہ کی پیداوار ہے ، شوہر مالک ہے ، عورت مملوک ہے لہٰذا مالک کے ساتھ مملوک کا فنا ہو جانا وفا کی علامت سمجھی جاتی ہے ،اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں اور کام یاب بھی ہوئیں، لیکن عورت کو طلاق ملنے کا حق نہیں ملا،البتہ جمہوری نظام حکومت نے ہندومذہب کو معاشرتی اور عائلی قوانین سے بے دخل کرکے مذہبی رسموں تک محدود کر دیا ہے ۔ اسمبلیوں میں طلاق کے جواز پر بل پاس ہو چکے ہیں ۔
1955 میں ہندو میرج ایکٹ بنایا گیا جس میں طلاق کی قانونی منظوری کے ساتھ ساتھ دوسری ذاتوں میں شادی کو بھی تسلیم کیا گیا جبکہ ایک سے زیادہ شادی کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا۔
ہندوؤں کے لیے بنائے گئے قانون کے دائرے میں سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں کو بھی لایا گیا۔
قانون طلاق اسلام میں:
انسانی زندگی کو صحیح طور پر چلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جن چیزوں کو زندگی میں اختیار کیا جائے، ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر ان سے خلاصی و نجات کی بھی گنجائش ہو، ایسا نہ ہونے کی صورت میں انسان بعض دفعہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جس سے کوئی دانا ناواقف نہیں۔
اسی طرح اس ضرورت کو ضرورت کی حد تک ہی محدود رکھاجائے ،اس کے بارے میں کھلی چھوٹ اور آزادی یااس کا من مانی استعمال بھی فتنہ وفساد کا ایک دروازہ کھول سکتا ہے ۔
غور کیا جائے تو اسلام کا نظام طلاق نہایت معتدل اورفطرت سے مکمل طور پرہم آہنگ نظر آتا ہے ؛جس میں نہ یہودیت کی طرح طلاق کی کھلی آزادی ہے نہ ہی عیسائیت کی طرح بالکل جکڑ بندی؛بل کہ دونوں کے بین بین ضرورت شدیدہ کے وقت اس کے استعمال کی مشروط اجازت ہے۔
صحیح طریقۂ طلاق:
میاں بیوی کے درمیان جب تنازعات شدت اختیار کرجائیں اور اختلافات کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جائے توبہ تدریج اس قرآنی اصول پر عمل پیرا ہواجائے؛چوں کہ عورتوں کے احساسات وجذبات بڑے نازک ہوتے ہیں، وہ نازک آبگینہ کی مانند ہیں کہ ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹوٹ گیا۔ عورتوں کی اس فطری کمزوری کی وجہ سے قرآن مجید میں مردوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اگر عورتیں نافرمانی کریں تو مشتعل نہ ہوں اور رد عمل میں کوئی عاجلانہ فیصلہ نہ کر بیٹھیں، بلکہ صبر سے کام لیں۔ مردوں کی دانائی اس میں ہے کہ وہ ان کے ساتھ دل داری کا معاملہ کریں اور محبت سے سمجھائیں۔ اگر اس کے باوجود وہ نافرمانی سے باز نہ آئیں تو ان کو خواب گاہ سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہ تدبیر بھی ناکام ہو جائے اور وہ عدم تعاون کی روش نہ چھوڑیں تو پھر بادل نخواستہ ان کی ہلکی سی سرزنش کی جائے ۔
(النساء4:36)
اگران میں سے کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ہو تودونوں خاندان کے کچھ افرادجمع ہوں اورمسئلہ کوحل کرنے کی کوشش کریں، ان مراحل کے بعدبھی اگرمسائل حل نہ ہوںتوآگے حکم ہے کہ دونوں طرف کے ذی ہوش اورمعاملہ فہم افرادجمع ہوں اورمیاں بیوی کی باتیں سن کرجومناسب سمجھیں فیصلہ کریں،اللہ تعالی فرماتے ہیں اگردونوں حکم مصالحت کرنا چاہیں گے توضروراللہ تعالی انہیں مصالحت کی توفیق عطافرمائے گا۔(ایضا)
اگر بات اس سے بھی نہ نبھ پائے تو پھر سوائے طلاق کے کوئی چارہ نہیں ۔
جس بیوی سے صحبت یا خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہو، اسے طلاق دینے کے تین طریقے ہیں۔
1..پہلا طریقہ جو سب سے اچھا ہے:وہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے اور اس وقت دے جب بیوی حیض وغیرہ سے پاک ہو اور ان پاکی کے دنوں میں صحبت بھی نہ ہو ئی ہو۔ عدت گزرتے ہی خود بخود جدائی ہو جائے گی۔ دوسری اور تیسری طلاق کی ضرورت ہی نہیں۔ اسے طلاق احسن بھی کہتے ہیں۔
(تبیین الحقائق:3/21)
2..دوسرا طریقہ جو صرف اچھا ہے:شوہر تین طلاقیں دے، لیکن اکٹھی نہ دے، بلکہ ہر پاکی کے زمانے میں ایک طلاق دے ، تین پاکیاں گزرنے کے ساتھ تین طلاق بھی پوری ہو جائیں گی ۔ لیکن ان پاکی کے ایام میں صحبت بھی نہ ہوئی ہو ۔ اسے طلاق حسن اور طلاق سنت کہتے ہیں۔(تبیین الحقائق:3/23)
3..تیسرا طریقہ جو بدعت اور حرام ہے:طلاق دینے کا بدعت اورحرام طریقہ وہ ہے جو مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے خلاف ہو ۔ مثلاً یک بارگی تین طلاقیں دینا، یا حالت حیض میں طلاق دینا، یاجس پاکی میں صحبت کی ہو اس میں طلاق دینا ،ان تمام صورتوں میں طلاق ہونے کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہوتا ہے ۔ (تبیین الحقائق:3/24)
جس عورت سے نکاح ہو چکا ہو لیکن خلوت صحیحہ (تنہائی) کی نوبت نہیں آئی تو ایسی عورت کو پاکی اور حیض کے دنوں میں بھی طلاق دینا درست ہے ،مگر ایک طلاق دے ۔ (تبیین الحقائق:3/7)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔