شریعت اسلامی میں دشمنوں کی مداخلت

عبدالعزیز
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہر اجلاس میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ حکومت ہند یا کسی اور ادارہ کی شریعت اسلامی میں مداخلت ناقابل برداشت ہے۔ ہر کلمہ گو کیلئے ناقابل برداشت ہونا ہی چاہئے مگر ٹھنڈے دل و دماغ اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس حقیقت پر بار بار غور و فکر کرنا چاہئے کہ مداخلت فی الدین یا مداخلت فی الشریعت کا موقع کس کی طرف سے فراہم کیا جارہا ہے۔مظلوم مسلم خواتین جو اپنے شوہروں کے ظلم و زیادتی یا طلاق کے غلط استعمال کی وجہ سے پولس چوکیوں، تھانوں اور عدالتوں کا چکر لگاتی ہیں۔ آخر کیا انھیں دشمن اسلام چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں یا ظلم و زیادتی کرنے والے نام نہاد مسلمان؟ اس کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ظلم و زیادتی کرنے والے شوہر ہیں جو شادی تو دو گواہوں کی موجودگی اور مجمع عام میں میں اللہ کا نام لے کر کرتے ہیں اور بیشتر افراد لڑکی والوں سے ان کی قدرت او رصلاحیت سے بڑھ کر روپئے پیسے اور ساز و سامان لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر کو مانگے ہوئے سامانوں سے آرائش و زیبائش کرسکیں اور لڑکی والوں کے پیسے کو مال حرام سمجھتے ہوئے بے دردی سے خرچ کرسکیں۔ بورڈ یا مسلم معاشرہ ایسے ظالموں یا بدترین قسم کے شوہروں کے خلاف آخر کیوں اسی طرح کے جوش اور جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتا جس طرح حکومت کے عناد اور دشمنی کے خلاف کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی سب کو معلوم ہے۔ غیروں کے خلاف واشگاف نعرہ لگانا جلسے جلوس کرنا جتنا آسان ہے اپنے خلاف کسی قسم کا مظاہرہ کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔
محترمہ اسماء زہرہ کنوینر خواتین ونگ نے صحیح کہا ہے کہ اسلام میں شادی بیاہ آسان ہے اور طلاق ناپسندیدہ ہے۔ یقیناًاسلام میں نکاح یا شادی بیاہ آسان ہے اور طلاق انتہائی ناپسندیدہ ہے مگر مسلم معاشرہ میں ایسی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ میں نکاح کو مشکل کر دیا گیا ہے اورطلاق کو آسان۔ غلط قسم کے شوہر جب چاہتے ہیں غلط طریقہ سے طلاق دے دیتے ہیں وہ سارے طریقے جو اسلام نے بتائے ہیں اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خاص طور سے تین طلاق دینے والے مسئلہ کو اور بھی سنگین بنادیتے ہیں۔مسلک پرست علماء بھی اسی صف میں شامل نظر آتے ہیں۔ اس وقت مسلک کی تنگ نظری اور اندھی تقلید کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ پیغام جارہا ہے جیسے ایک طلاق سے بیوی کو جدا نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ ایک نشست میں تین طلاقیں دھڑا دھڑ نہ دے دی جائیں۔ ہر عالم یہی کہتا ہے کہ یہ غیر اسلامی، غیر شرعی اور غیر اخلاقی طریقہ ہے مگر مسلک کی حفاظت کیلئے اس کو قبول کرلیتا ہے کہ تین طلاق ہوجاتی ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ ایسے شوہروں کی اچھی خاصی مرمت کرتے تھے۔ مار مار کر اسے زخمی کردیتے جب کہیں کہتے تھے کہ ہاں تین طلاق ہوگئی ہے۔ اس وقت حضرت عمرؓ کے کوڑے کی بات نظر انداز کر دی جاتی ہے اور طلاق کو مان لیا جاتا ہے ؛ حالانکہ تین طلاق اور حضرت عمرؓ کے کوڑے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ غیر شرعی طریقہ استعمال کرنے والوں کو اسلامی حکومت بخشنے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔
روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عمرؓ کا حکم تعزیزی (excutive یا ordinance) تھا، اجماع نہیں تھا۔ اجماع اور تعزیزی میں فرق ہوتا ہے۔ تعزیزی وقتی اور حالات کے تحت ہوتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں عدالتیں شریعت اسلامی سے نا آشنا ہیں اور موجودہ حالات میں نہ صرف غیر اسلامی حکومت ہے بلکہ اسلام اور شریعت دشمن ہے تو اگر مسلمان اپنے آپ کو نہیں بدلتے اور مسلم معاشرہ اپنی پرانی روش پر قائم و دائم رہتا ہے تو جلسے اور جلوسوں سے مداخلت کرنے والی طاقتیں رک نہیں سکتی ہیں۔ ایسے لوگ جو اسلام کو رات دن پامال کر رہے ہیں اپنی بیویوں کو کنیز بنائے ہوئے ہیں ان پر ظلم و زیادتی کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو ستانے اور پریشان کرنے میں کسی قسم کی مزاحمت اور مخالفت کا سامنا نہیں کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اسلام دشمنوں کے ہاتھ کو مضبوط کر رہے ہیں اور اسلام اور شریعت کو رسوا کرنے میں دشمنوں سے بھی زیادہ پیش پیش ہیں۔ اگر بورڈ، مسلم معاشرہ اور مسلم جماعتیں اس نکتہ کو نظر انداز کرکے واویلا مچاتی رہیں گی، سنگ دل مسلم معاشرہ اور شوہروں کے ظالمانہ رویے کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھائیں گی تو اللہ کی طرف سے بھی کسی مدد کی توقع نہیں کی جاسکتی، کیونکہ جو واویلا مچانے والے ہیں وہ جہیز لینے والوں کی شادیوں اور ولیموں میں بلا جھجک شرکت کر رہے ہیں اور ان کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں اور اپنی دعاؤں سے نواز رہے ہیں اور جب یہی لوگ طلاق بھی دینے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے تو منہ بند رکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات ایسے ظالموں کی مدد کرتے ہیں۔ مسلم معاشرہ کی سنگ دلی اور دو رخی اور نام نہاد علماء اسلام کی ظلم و زیادتی پر خاموشی یا ظالموں کی مدد اور تعاون ایسی چیزیں ہیں جو دشمنانِ اسلام کو مداخلت کی راہ کو ہموار کرتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کا غیر اسلامی معاشرہ نہیں بدلتا اور اسلامی معاشرہ میں تبدیلی نہیں آتی تو مسلمانوں کو کفر کی نشتر زنی برداشت کرنی ہوگی، کیونکہ جب ہم شریعت کا واشگاف نعرہ بلند کرنے والے اپنی عادت سے باز نہیں آتے تو آخر کفر کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے۔ کفر تو کفر ہے اسے اسلام اور حق سے ازلی دشمنی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔