اسمارٹ دھوکہ

مدثراحمد

پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان بھر کے مختلف علاقوں سے اسلامک کاروبارکے نام پر لوگوں کو لوٹے جانے کی خبریں آرہی ہیں، جو لوگ مسلمانوںکولوٹ رہے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوںکی ہی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ، رسول، دین اور شریعت کے نام پر لوگوں سے پیسے لیتے ہوئے انہیں چونا لگاتے رہے ہیں، وہیں قوم مسلم اسلام اور شریعت کے نام پر شارٹ کٹ طریقوں سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی لالچ میں اپنی کمائی کا بہت بڑا حصہ گنوانے لگے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی ساری زندگی کاسرمایہ ان جھوٹی کمپنیوں میں لگا کر کنگال ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایمبیڈینٹ، اجمیرا، نافیہ، ہیراگولڈ، الف جیسی کمپنیوںنے اپنے سرمایہ کاروں کے سامنے انشاء اللہ ماشاء اللہ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کو استغفراللہ کے کگار پر لا کھڑا کیا ہے۔

 اندازے کے مطابق ان کمپنیوں نے جملہ ایک لاکھ کروڑ روپیوں مسلمانوں کے تباہ وبرباد کئے ہیں۔ ایک لاکھ کروڑ روپئے معمولی رقم نہیں ہے، یہ کسی بھی ریاست کے جملہ بجٹ کا ایک تہائی حصہ ہے، جس سے ہزاروں پرواجیکٹس انجام دئیے جاسکتے ہیں۔ ریلائنس، ٹاٹا کمپنی جیسی بڑی بڑی کمپنیوں کے برابر ہی یہ رقم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوںنے اپنے اس سرمایہ کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا ہے نہ انویسٹرس نے اپنی زندگی بھر کی کمائی کوصحیح جگہ پر صرف کیا ہے اور کمپنیاں چلانے والے فائدہ کم ہی صحیح اپنے سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹنے سے بچانے کیلئے بہتر طریقے سے کاروبارکیا ہوتا، لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔

 ان کمپنیوں نے شارٹ کٹ طریقے سے لوگوں کولوٹا ہے اور لوگوں نے شارٹ کٹ میں پیسے کمانے کی خاطر ان کمپنیوںمیں اپنا روپیہ صرف کیا ہے۔ کوئی بھی کمپنی اپنے گاہکوں کو یوں ہی فائدہ نہیں دیتی۔ ریلائنس، ٹاٹا، برلا، سپلا، باش، پریسٹیج جیسی کمپنیاں بھی اپنی کمپنیوںمیںسرمایہ لگانے والے سرمایہ کاروں کو اتنا منافع دینے کا اعلان نہیں کررہی ہیں۔ مطلب یہ ہو اہے کہ یہ کمپنیاں اربوں روپئے سرمایہ لیکر اپنے گاہکوں کو لاکھوں روپئے کا منافع دینے کیلئے مشکل ترین مرحلوں سے گذررہی ہیں، تو یہ جھوٹی کمپنیاں کروڑ روپیوں کا سرمایہ لیکر لاکھوں روپئے کا منافع کیسے دے سکتے ہیں؟

دال میں کال نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ لیکن لوگ اس کالی دال کی حقیقت جاننے کیلئے تیارہی نہیں ہیں، انہیں تو بس اپنا فائدہ نکالنا ہے۔ ایمبیڈینٹ، اجمیرا، نافیہ، ہیراگولڈ، الف، مرگنال جیسی کمپنیوں میں جتنا پیسہ مسلمانوں نے لگایا ہے، اگر ان پیسوںمیں ایک حصہ بھی قابلِ اعتماد شخصیات کے حوالے کرتے ہوئےانہیں ہندوستان کا مضبوط میڈیا چینل بنانے کیلئے پیش کرتے تو یقینی طو رپر انہیں نہ صرف منافع ملتا بلکہ مسلم قوم کے پاس ایک مکمل مضبوط میڈیا ہائوز عمل میں آسکتا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آج حق کام کرنے کیلئے لوگوںکے ہاتھ نہیں اٹھتے وہیں باطل طریقوں سے منافع دینے کی بات جب کوئی کرتا ہے تو اس کیلئے لوگوں کے ہاتھ ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور اسی بے وقوفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نام نہاد لوگ اللہ کے دین کے نام پر لوگوں کاٹھگنا شروع کرچکے ہیں۔ فی الوقت بنگلورومیں موجود آئی ایم اے گروپ ایک ایسی کمپنی ہے جو نہایت محتاط اور منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کو شرعی اصولوں کے مطابق منافع پہنچا رہی ہے۔

حالانکہ اسی کمپنی کو دیکھتے ہوئے ڈوبنے والی کمپنیاں عمل میں آئی تھیں، لیکن کسی بھی ادارے، تنظیم یا کمپنی کو چلانے کیلئے صرف سرمایہ ہی اہم نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں اخلاص اور ایمانداری کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اسی وجہ سے آئی ایم اے اپنی خدمات کا دوسراعشرہ مکمل کرنے کے کگارپر ہے اور وہ پوری استحکامات کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے ہر کام کو اعلانیہ طو رپر انجام دے رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کمپنی سے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فعل اور قول میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، لیکن جہاں تک آئی ایم اے نے اپنی کارگردگی دکھائی ہے وہ اپنےفعل اور قول پر کھری اتری ہے۔

اسی وجہ سے یہ کمپنی لاکھ طوفانوں کے باوجود مضبوطی کے ساتھ اپنے کام میں آگے بڑھ رہی ہے۔ لوگ زیادہ نفع کی طلب میں حقیقی طو رپر کام کرنے والی کمپنیوں کونظرانداز کرتے رہے ہیں، جس کا خمیازہ تو انہیں اٹھانا پڑا ہے، لیکن آئی ایم اے نے جتنا کہا اس سے کچھ کہیں زیادہ بہتر کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، یہ ہوتی ہے حکمت اور طاقت۔

 آج کل مسلمانوں میں حکمت ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگی ہے جس کی وجہ سے یہ حماقت میں تبدیل ہورہی ہے اور اس حماقت کی وجہ سے یہ لوگ اپنی دولت کھو رہے ہیں۔ جب دولت کھونے لگیں گے تو صحت اور ہمت بھی ٹوٹ جائیگی اور آخر میں انہیں موت ملے گی۔ ان نام نہاد اللہ والی کمپنیوںمیں سرمایہ لگانے کے بجائے لوگ اپنے علاقوںکے ٹھیلہ گاڑی والوں کومعمولی رقم دے دیتے تو وہ ٹھیلہ گاڑی کے تاجران ایمانداری کے ساتھ اپنے منافع کا کچھ حصہ سرمایہ کاروں کو دیتے۔ لیکن یہاں تو لوگوں کو انہیں پریقین ہوتا ہے اور جو اپنے آپ کواسمارٹ بتانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ بھی یہ لوگ اسمارٹ طریقے سے اٹھاتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔