درد ایسا کہ سو نہیں پائے

جمشید انصاری

 درد ایسا کہ سو نہیں پائے

حال ایسا کہ رو نہیں پائے

جس کو کھونا تھا کھو نہیں پائے

جس کا ہونا تھا ہو نہیں پائے

اس قدر ظلم ہم نہیں سہتے

متحد ہم ہی ہو نہیں پائے

داغِ دامن چھڑانے بیٹھے ہیں

داغ دل کا جو دھو نہیں پائے

بھول جانا ہی ان کو بہتر ہے

جو ترا ہو کے ہو کے نہیں پائے

موج ، طوفاں، بھنور سبھی مل کر

کشتیِ دل ڈبو نہیں پائے

اس کی خاطر اداس کیا رہنا

کوششیں کرکے جو نہیں پائے

زندگی بخش دینا تو ہم کو

ہم ترا بوجھ ڈھو نہیں پائے

نفرتوں کی زمین میں جمشید

بیج الفت کے بو نہیں پائے

تبصرے بند ہیں۔