درد ایسا کہ سو نہیں پائے
جمشید انصاری
درد ایسا کہ سو نہیں پائے
حال ایسا کہ رو نہیں پائے
…
جس کو کھونا تھا کھو نہیں پائے
جس کا ہونا تھا ہو نہیں پائے
…
اس قدر ظلم ہم نہیں سہتے
متحد ہم ہی ہو نہیں پائے
…
داغِ دامن چھڑانے بیٹھے ہیں
داغ دل کا جو دھو نہیں پائے
…
بھول جانا ہی ان کو بہتر ہے
جو ترا ہو کے ہو کے نہیں پائے
…
موج ، طوفاں، بھنور سبھی مل کر
کشتیِ دل ڈبو نہیں پائے
…
اس کی خاطر اداس کیا رہنا
کوششیں کرکے جو نہیں پائے
…
زندگی بخش دینا تو ہم کو
ہم ترا بوجھ ڈھو نہیں پائے
…
نفرتوں کی زمین میں جمشید
بیج الفت کے بو نہیں پائے
تبصرے بند ہیں۔