اعتکاف:اللہ سے راز و نیاز کا ذریعہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

        ایک ضرورت مندانسان اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے جب کسی کے پاس جاتاہے توایسے موقع کی تلاش میں رہتاہے، جس میں تنہائی میسرہو؛ تاکہ وہ اپنی ضروریات کی تفصیل بہترطریقہ پربتاسکے، ظاہرہے کہ یہ کام ایسے وقت میں ممکن نہیں جب وہ دوستوں کے جم گھٹ یابازارکی بھیڑبھاڑمیں رہے؛ کیوں کہ ایسے وقت میں وہ انتشارذہنی کاشکارہوتاہے، کوئی ایساکام کرہی نہیں سکتا، جوتوجہ طلب ہو، جس میں دھیان کی ضرورت پڑتی ہو۔

        انسان کی بعض ضرورتوں کی تکمیل جس طرح کبھی بندہ کی امدادسے پوری ہوتی ہے، اس کی تمام ضرورتوں کی تکمیل میں اللہ تعالیٰ کابڑا ہاتھ ہوتاہے، اس کی مددکے بغیردنیا کاکوئی بھی انجام نہیں پاسکتا، ظاہرہے کہ ایسی صورت اس کے ساتھ تنہائی میں رازونیاز کرناضروری ہے؛ تاکہ وہ ہماری ضرورت کی تفصیل (باوجودیہ کہ وہ سب کچھ جانتاہے)پوری توجہ اوردھیان سے سن سکے اوردیکھ سکے کہ بندہ اپنی طلب کہاں تک سچاہے اوریہ خلوت کے بغیرنہیں ہوسکتا۔

        پھریہ خلوت اوررازونیاز سال بھربھی ہوسکتاہے؛ لیکن رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ایک خاص مدت اس کے لئے طے کی گئی ہے؛ تاکہ بندہ کی طلب سے کئی گنا زیادہ دیاجائے کہ یہ مدت اسپیشل آفرکاہے، جس میں عمل کاثواب دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں بڑھادیاجاتاہے؛ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’جس نے اس میں کوئی نفل کام کیا تواس کاثواب دوسرے مہینوں کے فرض کے برابرہے اورجس نے اس میں فرض کام انجام دیاتواس کاثواب سترفرض اداکرنے کے برابرہے‘‘(المطالب العالیۃ، حدیث نمبر: ۱۰۰۶)

        رمضان المبارک کے اس خلوت کو’’اعتکاف‘‘ کے نام سے یادکیاجاتاہے، یہ حکم کے اعتبارسے سنت علی الکفایہ ہے، یعنی محلہ کی پنج وقتہ نماز والی مسجدمیں محلہ کے کسی ایک فردنے بھی اعتکاف کرلیاتوتمام محلہ والوں کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، بہ صورت دیگرسارے محلہ والے گناہ گارہوں گے، رمضان المبارک کے اس اعتکاف کی مدت دس روز ہے، جس میں اعتکاف کی نیت سے مسجدمیں بیس تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے داخل ہواجاتاہے؛ تاکہ مکمل دس دن میسرہوجائے؛ لیکن کسی وجہ اگرسورج ڈوبنے سے پہلے داخل نہ ہوسکے تو طلوع صبح صادق سے پہلے پہلے ہرحال میں داخل ہوجائے، پھراس دوران ضروری ہے کہ بلاضرورت مسجدباہرنہ نکلا جائے، نیز مسجدمیں رہ کرذکر، تلاوت، تسبیح اورنماز میں مشغول رہاجائے، دنیاوی امورکی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی جائے، ورنہ جس مقصدسے یہ اعتکاف کیاجاتاہے، وہ مفقودہوجائے گا۔

        رمضان المبارک کے دس دن کایہ اعتکاف خوداللہ کے رسول ﷺبھی کیاکرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺرمضان کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرتے تھے(مسلم، حدیث نمبر: ۱۱۷۱)، اس اعتکاف کے مقاصدمیں سے ایک بڑامقصد’’شب قدر‘‘کی تلاش ہے، یہ ایک ایسی رات ہے، جسے ہزارمہینوں سے افضل قراردیاگیاہے(القدر:۳)، جس کاحساب لگایاجائے توتقریباً ۸۳؍سال ۴؍ ماہ ہوتاہے، یعنی عبادت صرف ایک رات میں اورثواب تراسی سال چارکا! اللہ اکبر!

        اس رات کوتلاش کرنے کاحکم رمضان المبارک کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں (21,23,25,27,29)میں دیاگیاہے، اللہ کے رسول ﷺکاارشادہے: اس رات کو رمضان المبارک کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو(الجمع بین الصحیحین، حدیث نمبر: ۱۲۷۱)۔

        خوش نصیب ہے وہ شخص، جسے اعتکاف میسرہوجائے اورخوش بخت ہے وہ شخص، جسے یہ رات مل جائے! اللہ تعالیٰ ہمیں یہ خوش نصیبی عطافرمائے، آمین!!!

تبصرے بند ہیں۔