اعتکاف: تقرب خداوندی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ

محمد سالم قاسمی سریانوی

(استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ یوپی)

 اس وقت رمضان المبارک کے بابرکت ایام چل رہے ہیں، ان ایام میں اللہ کی طرف سے خصوصی فضل وعنایت ہوتی ہے، اس کی رحمتیں بارش کے قطروں سے زیادہ برستی ہیں،وہ اپنے بندوں کی مغفرت کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے،اسی لیے ان ایام میں عبادتوں کا بھاؤ اس  نے بڑھا دیا ہے؛ تاکہ ذوق وشوق کے ساتھ ہر ایک اس کی اطاعت وعبادت کرے اور اس کی رضا وخوش نودی کامستحق ٹھہرے۔ان ایام میں کچھ خاص خاص عبادتیں بھی اس کی جانب سے متعین ہیں جن پر خصوصی انعامات دیے جاتے ہیں، ان ایام کی سب سے اہم عبادت ’’روزہ‘‘ ہے جو اللہ کی جانب سے فرض کیا گیا ہے، اس کے علاوہ تراویح، اعتکاف اور شب قدر کا قیام یہ وہ خصوصی اعمال ہیں جن پر اس کی طرف سے بے پناہ انعامات اور ثواب رکھے گئے ہیں،اس وقت تیسرا عشرہ شروع ہواہی چاہتا ہے، جس کی ابتدا اعتکاف سے ہوتی ہے جو اپنے اندر بہت کچھ فضائل وخصوصیات سموئے ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے؛ جس پر آپ نے آخر تک عمل کیا ہے اور آپ کے بعد ازاوج مطہرات اور دیگر حضرات اکابر نے بھی عمل کیا ہے۔

  ’’اعتکاف‘‘ کے لفظی معنی ہیں ٹھہرنا اور کسی چیز پر جم جانا، اسی بنیاد پر جو شخص مسجد میں زیادہ اوقات گزارے اس کو ’’معتکف‘‘ کہا جاتا ہے، اعتکاف کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: ’’الإقامۃ في المسجدواللبث فیہ علی وجہ التقرب إلی اللہ تعالی‘‘ کہ اعتکاف کہا جاتا ہے ’’اللہ کی رضاکو حاصل کرنے کے لیے مسجد میں ٹھہرنا اور قیام پذیر ہونا‘‘(عمدۃ القاری)

 رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے اور آپ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے، آپﷺ اعتکاف کا بہت اہتمام فرماتے تھے، چناں چہ آخر زندگی تک آپ ﷺ نے اعتکاف فرمایا ہے، آپ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف فرمایا ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے۔اس لیے ہم مسلمانوں کو بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ ایک تو سنت پر عمل کرنے کا ثواب حاصل ہو، وہیں دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی کابہت آسانی کے ساتھ قرب حاصل کرنے کا موقع ملے، اور جو روزے کا مقصد ’’تقوی‘‘ اور اس کے ڈر کا حاصل کرنا وہ بھی بسہولت حاصل کیا جاسکے۔

 ’’اعتکاف‘‘ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ خود جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں برابر اعتکاف کیا ہے، آپ نے  اعتکاف کبھی دس دن، کبھی بیس دن اور کبھی پورے مہینے کیا ہے، جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس روز کا اعتکاف فرمایا تھا۔

 اعتکاف کرنا اللہ تبارک وتعالی سے قرب حاصل کرنے کا ایک اہم و بہترین موقع ہے؛ کیوں کہ بندہ اس میں اللہ کے دربار عالی میں جاکر پڑجاتا ہے اور اس کی اطاعت وعبادت، اس کی رضا وخوش نودی کے حصول اور اس کو منانے میں اپنے مکمل اوقات کو گزارتا ہے، اور تب تک اسی حالت پر پڑا رہتا ہے جب تک وہ اس سے راضی وخوش نہ جائے، علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ ’’اعتکاف کا مقصود اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا ہے کہ سب طرف سے ہٹ کر اسی کی طرف مجتمع ہوجائے اور ساری مشغولیوں کے بدلہ میں اسی کی پاک ذات سے مشغول ہوجائے اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہو کر ایسی طرح اس میں لگ جاوے کہ خیالات تفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر، اس کی محبت سماجاوے، حتی کہ مخلوق کے ساتھ انس کی بدلہ اللہ سے انس پیدا ہوجاوے، کہ یہ انس قبر کی وحشت میں کام دے، کہ اس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا نہ کوئی مونس، نہ دل بہلانے والانہ ہوگا۔‘‘(فضائل اعمال)

          اس لیے اعتکاف کرنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ مقصد ومقصود پر ہمیشہ نظر رکھیں، اعتکاف میں دنیا ومافیہا سے بالکل بے نیاز رہیں، بشری حاجات وضروریات میں بھی اپنے کو بہت کم لگائیں،بالخصوص رات کے اوقات میں زیادہ توجہ دیں اور ہمیشہ شب قدر کی تلاش کو مستحضر رکھیں؛ کیوں کہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کا ایک اہم مقصد لیلۃ القدر کی تلاش بھی ہے، دوسروں سے باتیں، لایعنی مشاغل، بکثرت سونے وغیرہ سے احتراز کریں؛ تاکہ جو مقصد لے کر اعتکاف کیا ہے وہ بدرجہ اتم پورا ہوجائے، اگر اعتکاف کرکے اللہ کی رضا وخوش نودی بھی نہ حاصل کرسکے تو ایسے اعتکاف سے کیا حاصل!!

  لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس وقت معتکفین حضرات اصل امور پر توجہ نہیں دیتے؛ بل کہ ہر وہ کام انجام دیتے رہتے ہیں جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے، اگر اعتکاف کرکے انھیں امور کو انجام دیناتھا اور اصل روحِ اعتکاف کو حاصل نہیں کرنا تھاتو پھر اعتکاف کی ضرورت ہی کیا تھی؛ کیوں کہ اصل کے ساتھ جب غیر ضروری مشاغل میں مشغولیت ہوگی تو فائدہ نہیں ہوگا؛ بل کہ یہ امکان ہے کہ فائدے سے زیادہ نقصان ہوجائے؛ اس لیے اصل روح کو سامنے رکھا جائے اور اسی کے اعتبار سے اعتکاف کیا جائے۔ واللہ الموفق

تبصرے بند ہیں۔