اعتکاف: محبت ِ الہی کا مظہر!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

   رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی اب اختتام پذیر ہونے والا ہے اور بہت جلد تیسرے عشرہ کا آغاز ہوگا۔رمضان المبارک اپنی تمام تر خیر وبرکت کے ساتھ بڑی تیزی سے منزل کی طرف بڑھ رہا ہے ،آخری عشرہ گویا انوارورحمتوں کی بارش ،الطاف وعنایتوں کی نوازش کا عشرہ ہے۔رمضان المبارک کے اس تیسرے عشرہ سے فیض یاب ہونے اور اللہ تعالی کی نوازشوں سے دامن کو بھرنے کا ایک سنہرا موقع اللہ تعالی نے ’’اعتکاف‘‘ کی شکل میں رکھا ہے ۔اعتکاف رمضان المبارک کی عبادتوں کا ایک اہم حصہ ہے۔اعتکاف اپنے فضائل وخصوصیات کی وجہ سے نرالی شان رکھتا ہے اور اس کے ذریعہ قلب ِ مومن میں محبت ِ الہی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور عظمت ِ الہی کا احساس دل میں جاگزیں ہوتا ہے ،کیوں کہ اعتکاف شروع سے آخر تک محبت واطاعت کا ایک حسین مظہر اور بین ثبوت ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اہل ِ ایمان کی ایک صفت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :والذین امنوا اشد حبا للہ ۔( البقرۃ:165)’’اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں ۔‘‘

اعتکاف کے ذریعہ بندہ اپنی اسی محبت کو جلا بخشتاہے اور حکم ِ الہی کے آگے سرِ تسلیم خم کردینے کے مزاج کو فروغ دیتا ہے،ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوکر اور اپنے تمام مشاغل ومصروفیات کو چھوڑکر صرف اللہ ہی کی یاد، اسی کی ہی محبت او راسے ہی منانے اور اسی سے سب کچھ پانے کے لئے بندہ مسجد ہی میں اپنے شب وروز گزارتا ہے اور اس طرح اپنی عبدیت کا بھرپور اظہارکرتاہے، کریم پروردگار کے دربار سے اپنے آپ کو چمٹاکر اپنے عجز کا اور اپنی غلامی وبندگی کا اعتراف کرتا ہے،اپنے دامن کو پھیلاکر اور سراپا محتاج بن کر اس کی رحمتوں کو حاصل کرتا ہے،راتوں کی تنہائیوں میں رو کر اپنے گناہوں کومعاف کراتا ہے اور دن بھر اعمال وعبادات میں مصروف رہ کر قرینہ ٔ بندگی کو پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اعتکاف کی اہمیت ،عظمت اور حقیقت کو جاننے کے لئے چند اکابر علماء کی تحریروں کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔چناں چہ اعتکاف کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :اللہ تعالی نے عبادت کے جوطریقے مقرر فرمائے ہیں ان میں سے بعض طریقے عاشقانہ شان رکھتے ہیں ،انہی میں سے ایک اعتکاف بھی ہے ۔اس عبادت میں انسان اپنے تمام دنیوی کام چھوڑکر اللہ تعالی کے گھر یعنی مسجد میں جاپڑتا ہے ،اور ہر ماسوا سے اپنے آپ کو منقطع کرکے صرف اللہ تعالی سے لولگا لیتاہے ۔اور کچھ مدت تک کامل یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالی کے ساتھ جو خاص تعلق اور انابت الی اللہ کی جو خاص کیفیت پیداہوتی ہے وہ تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے ۔

؎  دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

 بیٹھے   رہیں  تصور ِ  جاناں   کئے   ہوئے

 دل  چاہتا  ہے  د ر پہ  کسی  کے پڑے رہیں

 سر  ز یر  بار  منت   در باں    کئے  ہوئے( احکام ِ اعتکاف:6)

  مولانا محمد منظور نعمانی  ؒلکھتے ہیں :روح کی تربیت وترقی او رنفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لئے پورے مہینے رمضان کے روزے تو تمام افرادِ امت پر فرض کئے گئے ،گویا کہ اپنے باطن میں ملوکیت کو غالب کرنے اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لئے اتنا مجاہد ہ اور نفسانی خواہشات کی اتنی قربانی تو ہر مسلمان کے لئے لازم کردی گئی ۔۔۔اس سے آگے بڑھ کر تعلق باللہ میں ترقی اور ملاء ِاعلی سے خصوصی مناسبت پیداکرنے کے لئے اعتکاف رکھا گیا۔اس اعتکاف میں بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کے اپنے مالک ومولا کے آستانے پر اور گویا اسی کے قدموں میں پڑجاتا ہے ،اس کو یاد کرتا ہے،اسی کے دھیان میں رہتا ہے ،اس کی تسبیح وتقدیس کرتا ہے ،اس کے حضور میں توبہ واستغفار کرتا ہے ،اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم وکریم مالک سے رحمت ومغفرت مانگتا ہے ،اس کی رضااور اس کا قرب چاہتا ہے ،اسی حال میں اس کے دس دن گزرتے ہیں اسی حال میں اس کی راتیں ،ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے؟( معارف الحدیث:199/4)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں :اعتکاف کی غرض ایک تو شب ِ قدر کی تلاش ہے ،دوسری غرض جماعت کا انتظارکرنا ہے ۔تیسری روح اعتکاف کی یہ ہے کہ معتکف نے گویا اپنے آپ کو مسکین وخوار بناکر بادشاہ کے دروازہ پر حاضر کردیا ہے ،اپنی محتاجی ظاہر کررہا ہے کہ اب تو آپ کے دروازہ پر پڑا رہوں چاہے نکالیے ،چاہے بخش دیجیے۔یہ شان ہے فنا کی۔اور اعتکاف کو اس کی روح اس لئے کہاکہ اعتکاف اور کسی عبادت پر موقوف نہیں ،اگر دربار میں حاضری دے کر ہروقت سوتا رہے تب بھی اس کو اعتکاف کا پورا ثواب ملے گایہ دروزاہ پر پڑا رہنا ہی بڑی چیز ہے ،یہی وہ چیز ہے کہ مردود کو مقبول بنادیتی ہے۔( احکام ِ اعتکاف:16)

  شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒ لکھتے ہیں کہ:ابن قیم ؒ کہتے ہیں اعتکاف کا مقصود اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کرلینا ہے کہ سب سے ہٹ کر اُ سی کے ساتھ مجتمع ہوجائے اور ساری مشغولیتوں کے بدلے اسی پاک ذات سے مشغول ہوجائے اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہوکر ایسی طرح اس میں لگ جائے کہ خیالات ،تفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر اس کی محبت سماجائے،حتی کہ مخلوق کے ساتھ انس کے بدلہ اللہ کے ساتھ انس پیداہوجائے کہ یہ انس قبر کی وحشت میں کام دے کہ اس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا نہ کوئی مونس نہ دل بہلانے والا۔( فضائل ِ رمضان :616)صاحب ِ مراقی الفلاح کہتے ہیں کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے ہے۔اس کی خصوصیتیں حدِ احصاء سے خارج ہیں کہ اس میں قلب کو دنیا ومافیہا سے یکسو کرلینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کردینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑجانا ہے۔( حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح:708بیروت)علامہ کاسانی  ؒ نے حضرت عطا ء خراسانی کا قوم نقل کیا ہے کہ معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ کے در پہ آپڑا ہو اور یہ کہہ رہاہو یا اللہ ! جب تک آپ میری مغفرت نہیں فرمادیں گے میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔( بدائع الصنائع:5/3بیروت)

اعتکاف کی عظمت اور حقیقت کو اجاگرکرنے والی یہ چند علماء کرام کی تحریرات تھیں ،باقی حقیقت یہ ہے کہ اعتکاف کے فضائل اور اس کی خصوصیات بے شمار ہیں اور علمائے کرام نے اس کی بہت سے حکمتوں کو بیان کیا ہے۔آخر میں اعتکاف کے فضائل کے سلسلہ میں چند احادیث بھی ملاحظہ کریں :

 نبی کریم ﷺ آخری عشرے میں اعتکاف کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ،اور آخری عشرہ کا اعتکاف اس عشرہ کی رحمتوں سے فیضاب ہونے بہترین ذریعہ ہے ۔آپ ﷺ اس عشرہ میں اعتکاف کا جو اہتمام فرماتے تھے اس کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ  فر ماتی ہیں کہ :ان النبی ﷺ کان یعتکف العشر الاواخرمن رمضان حتی توفاہ اللہ عزوجل ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ۔(بخاری:1896)نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی ،پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں ۔آپ ﷺنے اپنی زندگی میں ہمیشہ رمضان میں اعتکاف کا اہتمام فرمایا ،اور اعتکاف کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ: من اعتکف یو ما ابتغاء وجہ اللہ عزوجل جعل اللہ بینہ وبین النار ثلاثہ خنادق ابعدمما بین الخافقین۔( المعجم الکبیر للطبرانی:2821)کہ:جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دن کا (بھی ) اعتکاف کرے گا تو اللہ تعالی اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنادیں گے،جن کی مسافت آسمان وزمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوگی۔(شعب الایمان للبیہقی:3667)

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:ان رسول اللہ ﷺ قال فی المعتکف ہو یعکف الذنوب ویجری لہ من الحسنا ت کعامل الحسنات کلھا۔( ابن ماجہ:1781)کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کررہا ہو۔بہر حا ل نبی کریم ﷺ نے اس کے علاوہ بھی اعتکاف کے فضائل بیان فرمائے تاکہ اس کا اہتمام کیا جائے اور اس کے اہتمام کے ذریعہ آخری عشرے کی رحمتوں اور برکتو ں سے دامن کو بھرا جائے ۔پھر اعتکاف کی خصوصیت یہ ہے کہ جب تک انسان حالت اعتکاف میں ہو اس کا لمحہ لمحہ عبادت میں لکھا جاتا ہے،اس کا سونا ،اس کا کھانا پینا اور اس کی ایک ایک نقل و حر کت عبادت میں داخل ہوتی ہے ۔اور رمضان شریف میں اعتکاف مسنون کی حکمت بھی یہی ہے کہ شب ِقدر کی فضیلت سے فائدہ اٹھا نے کا یقینی طریقہ اعتکاف سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔( احکام ِ اعتکاف:7)اس لئے آخری عشرے سے کماحقہ فائدہ اٹھا نے کے لئے اعتکاف کا اہتمام کرنا چاہیے۔آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے جو بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتاہے۔( ماہ ِ رمضان کے فضائل و مسائل:282)

 اعتکاف کو اس کے آداب اور اس کی تعلیمات وہدایات کے ساتھ انجام دیا جائے تو اس کے ذریعہ یقینا اللہ تعالی کی محبت دل میں پیداہوگی اور اسی محبت کے سہارے پورا سال اور پھرپوری زندگی حکم ِالہی کے مطابق جینا انسان کے لئے آسان ہوگا۔اللہ تعالی توفیق ِ عمل مرحمت فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔