اف! یہ اختلافات و تفرقات

عبدالکریم ندوی گنگولی

(استاد جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور)

مذہب اسلام نے رنگ ونسل کے تمام تر امتیازات واختلافات اور معیاروں کو مٹا کر ساری انسانیت کو ایک حسین گلدستہ میں جمع کردیاتھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا‘‘ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اختلاف نہ کرو اور ا سی طرح ’’إنما المؤمنون إخوۃ ‘‘ کی صدا لگاکر ان کے جسم و جان میں اخوت وبھائی چارگی، محبت و ہمدردی کی روح پھونک دی تھی اور اس سے بڑھ کر انسانیت کا درس دے کر ان کے رگ و ریشہ میں حسن اخلاق وحسن عمل کی چنگاری لگائی تھی، ان ہدایات کی روشنی میں یہ قافلہ اعلیٰ منازل طے کرتا ہوا افق عالم پر ستاروں کے مانند چمکنے لگا اور دنیا کی ساری حکومت وسلطنت اس کے قبضہ میں آگئی۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رب کے احسانات کو یاد کر کے اس کا شکر بجالاتے تھے اور اللہ کی رسی یعنی قرآن کریم پر عمل پیرا ہوکر دریاؤوں کے جگر بھی چاک کردیا کرتے تھے، بڑے بڑے پہاڑ ان کی ٹھوکروں کی تاب نہ لا کر چورچور ہوجاتے تھے۔

جس نقطۂ وحدت پر صحابہ کرام جس شان وشوکت کے ساتھ تھے، ان کا دور قیامت تک تاریخ کا روشن باب بن گیا، کیوں کہ تاریخ نے ہمارے اسلاف کی داستانیں بھی سنی ہیں اور ان کے ایثار کے نمونے بھی اپنے دامن میں محفوظ کئے ہیں ، جو اتحاد کی ایک کنجی ہے، آج وہی عملی نمونہ تاریخ دوبارہ دہرانے کے لئے بیقرار ہے، لیکن عصر حاضر میں امت مسلمہ شورید ہ حال اور شکستہ بال ہوچکی ہے، اور اس کا کوہ اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے، لیکن کیاکیجئے گا ؟اس حرما ں نصیبی کاجو ہمیں دامن گیر ہے اور قول وفعل کے اس تضاد کا جو ہمارا مقدر بن چکا ہےاور روز روز اختلافات کی بھٹی میں جلنا قسمت کا ایک حصہ بن چکا ہے، بس اللہ کی پناہ!، دور حاضر میں امت مسلمہ کی حالت زار کو دیکھ کر اعتدال پسندونیک صفت اور انسانیت کی درد مند شخصیتوں کی عقلیں حیراں اور دل بے چین و بے قرارہیں ۔

ہائے اللہ!جہاں دیکھو اختلافات کی گرم بازاری اور انانیت ومفاد پرستی کی تلاطم خیزی ہے، اختلافات وتفرقات کا بلا خیز طوفان رواں دواں ہے، کہیں ملکی تشددو منافرت، کہیں جماعتی اور گروہی تعصبات، کہیں خاندانی اختلافات کی بنیاد پرخونی واقعات اور حد توتب ہوجاتی ہے کہ جب دین کے خدمت گذار اور خدمت خلق کا نعرہ لگانے والے اور دین کے نام کا دم بھرنے والے بڑے بڑے ادارے چھوٹی باتوں پر بوجہ اختلاف تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں ۔ یہ اختلاف بعد میں اس قدر بڑھ جاتاہے کہ وحدت اسلامی کو پارہ پارہ اور اتحاد ملت کو تارتار کرکے رکھ دیتا ہے، ہر کوئی اخلاص و للہیت کے لبادہ میں انانیت کا پرستار بنا بیٹھا ہے، جب کہ یہی وہ انا ہے جوایک فردنہیں بلکہ پوری قوم کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔

صرف انا، کہ جس کی دوشیزگی نہ پوچھ

منصور جیسے شخص کو پاگل بنادیا

جہاں تک فقہی اختلافات کی بات ہے تو وہ آسانی ٔ عمل کے لئے تھے اورسبب رحمت تھے اور اس طرح امت کے اندر اختلافات کا وجود کوئی نئی بات نہیں بلکہ تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں گذرا جس میں اختلاف نہ رہا ہو، لیکن امت مسلمہ کا درد وغم رکھنے والے مصلحین اور اپنے آپ کودین و انسانیت کے خادم کہنے والے اور دین علم کی زینت سے آراستہ ہوکر فقہی مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرنے والوں نے انہیں اختلافات کومیدان جنگ کی ہار جیت کے مترادف بنادیا، اور قوم کی تمام تر توانائیاں اسی جگہ پر صرف ہورہی ہیں ، کہیں تراویح کی تعداد میں ہنگامہ بپا ہے توکہیں نماز کے بعد دعا کرنے نہ کرنے کا شورتو کہیں کسی اور مسئلہ کااختلافات کا طوفان اٹھا ہوا ہے، درحقیقت یہ اختلافات مضحکہ خیز بھی ہیں اور پوری قوم کی تباہی و بربادی کا سبب بن چکے ہیں اوراس سے بڑھ کر نظریات وآراء کے سبب گروہ بندی اور تفرقہ بازی کو فروغ ملنے لگا ہے، ہر آن وہر پل اس امت کو ذلتوں کا سامنا ہے اور یہ امت داخلی انتشار، فکری افراتفری اور بے اعتدالی کے سبب دشمنوں کی زد پر ہے، پورا شیرازہ منتشر ہے اور گوناگوں فتنوں کی لپیٹ میں آچکا ہے، اپنوں کی طرف سے ایسے اقدامات وبیانات بسا اوقات نظر نواز وگوش گذار ہوتے ہیں جو ہوش ربا ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کو مزید کمزور وکھوکھلا کرنے اور ساری امت کے اتحاد بکھیرنے میں خوب معاون ہوتے ہیں ۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ جس امت کو معتدل دین، معتدل مزاج، معتدل نظریات، معتدل قوانین، اور معتدل نظام عطاکیا گیا تھا اور امت وسط کے خطاب سے نوازا گیا تھا، ان محاسن کودوبارہ عملی جامہ پہنائیں اور از سر نو تمام مسلکی ومذہبی، قومی ووطنی، لسانی وخاندانی اختلافات وتعصبات کو بالائے طاق رکھ کر نقطۂ وحدت پر جمع ہوجائیں ، ان شاء اللہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ پھر وہی اسلام کا دورشباب واپس لوٹے گاجو دور آپ ﷺ کی مدنی زندگی میں تھا، اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے(آمین)

مئے وحدت پلا، مخمور کردے

محبت کے نشے میں چور کردے

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    پہلی بات تو یہ کہ دیں صرف ایک ہی ہے ۔ دین اسلام۔
    إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ
    بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے
    آل عمران 19
    ۔باقی رہے فرقے تو نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ ایک دوسرے سے مختلف دین دیوبندی ۔ بریلوی ۔اہلحدیث ۔ شیعہ تھے نہ اب ان کی ضرورت نہ ان کی اسلام میں اجازت تھی۔ بلکہ ممانعت ہے۔
    ۔وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
    اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو
    سل عمران 103
    جو فرقوں میں رہے گا ان کے لیے فرمان باری تعالی ہے کہ
    وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
    جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا
    آل عمران 85

    فرقہ پرستی ہے بچنا چاہیئے ۔۔ جس کو سچی جماعت اور سچے عقائد کی تلاش ہے وہ قرآن میں اس و تلاش کرے ۔
    قیامت سے پہلے آخری پیدا ہونے والا انسان بھی ہدایت اگر پانا چاہے تو قرآن سے ہی پائے گا۔۔ کیونکہ دنیا بدل جائی گی لیکن قرآن وہی رہے گا کیوں کہ اس کا ذمہ اللہ نے خود پر لیا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔