اقلیتی ادارو ں کا گرتا معیار: ذمہ دار کون ؟

مرزا عادل بیگ

ہندوستان کی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت تعلیمی میدان کو وسیع کرنے کا کام کررہی ہے، ملک کے مختلف ریاستوں میں پوسٹ گریجویشن، گریجویشن  اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بنائے گئے ہے۔ اسی طرح پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک مختلف ضلعوں کو ملا کرSub-Divisional بورڈ بنائے گئے ہے۔ اب بورڈ ریاستی اور مرکزی سطح پر الگ الگ نوعیت کے ہے۔ اسی طرح بچوں کی نشوں نما، تعلیمی دلچسپی، اور آسانی کے لیے تعلیم کو مادری زبان میں فراہم کیا گیا ہے۔ آج ہمیں ہر جگہ اردو میڈیم، مراٹھی میڈیم اور انگلیش میڈیم کے ادارے نظر آتے ہے، اقلیتی اداروں کے لیے ریاستی اور مرکزی حکومت مخصو ص تعلیمی پالیسی بناتی ہے۔ تاکہ اقلیتی طلبہ و طالبات آسانی سے اور مزید سہولت سے تعلیم سے آراستہ ہو سکے۔ ملک میں اقلیتی طبقعات یعنی (مسلم، سکھ، عیسائی اور جین) مذہب کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔

مسلم اقلیتی ادارے :

مسلم اقلیتی ادارے ملک کے ہر کونے میں موجود ہے، آج اردو ادارے، سوسائٹی، اسکولس کی شکل میں پرائمری سے لے کر جونیر کالج تک موجود ہے۔ ان اداروں کو، کاسکولس کو، کالیجس کو  ریاستی حکومت کی طرف سے مختلف شکلوں میں امداد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اسکولس گرانڈیٹ بیسیس پر یا نان گرانڈ یٹ بیس پر کام کرتی ہے۔ گرانڈیٹ اسکولس اور نان گرانڈیٹ اسکولس ادارے دونوں کی ضرورت، وسائل اور مسائل مختلف ہے۔ گرانڈیٹ اسکول ادارے جہاں اساتذہ اکرام معقول تنخواہ ہونے کے سبب اپنی زندگی کو پرسکون بنائے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی ہر چیز سے آراستہ ہے تو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں، وہی معقول تنخواہ پانے والے اساتذہ اکرام جنھیں اس پیشے سے، اپنی ملازمت سے ملت کے زوال سے اور طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ اپنے تکبر اور گھمنڈ میں موٹی تنخواہ کے وزن سے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو مزید بڑاھاوا دیتے ہے۔ نان گرانڈیٹ اساتذہ اکرام کی زندگی انتہائی تشویشناک صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ یہ اساتذہ اکرام دس سال، پندرہ سال سے بغیر کسی معاوضہ کے کام کر رہے ہے۔ انھیں نا کوئی سوسائٹی کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے، اور نہ کوئی مدد کرتا ہے نان گرانڈیٹ حضرات سے معاشرہ ساتھ کے کام کرنے والے گرانڈیٹ ٹیچرس اور انتظامیہ کوئی دلچسپی نہیں دکھاتا ہے۔ اب تو اداروں میں ایسے حضرات نظر آتے ہے جو اسکول کے صدر صاحب کو ڈونیشن کے نام پر لاکھوں روپیوں کی رشوت دے چکے ہوتے ہے۔ وہ ٹیچر ہی کیا جو ڈونیشن نا دے۔ اب تعلیمی قابلیت و تعلیمی لیاقت کی شرائط، روپیوں کی تعداد پر ٹکی ہے۔ آج مسلم معاشرہ ان اساتذہ حضرات کو عزت کی نظروں سے دیکھتا ہے، ان پر رشک کر تا ہے، جو معقول ڈونیشن (رشوت) دے کر نوکری کرتا ہے۔ ان نان گرانڈیٹ ٹیچر حضرات اور گرانڈیٹ ٹیچر حضرات کے مسائل، مشکلات کے درمیان کھڑی تعلیم، جو ٹیچرس بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتا ہے۔ درس و تدریس کا کام انجام دیتا ہو، وہ طلبہ و طالبات کو نفسیاتی طور پر، صحیح طریقے سے پڑھاسکے گے کیا ؟ اور وہ ٹیچرس حضرات جنھیں معقول تنخواہ ہونے کےباوجود بچوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہے۔ انہیں درس و تدریس، جدید تعلیم اور طلبہ و طالبات کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہے۔

مسلم اقلیتی اداروں کے انتظامیہ کا عمل :

آج مسلم معاشرہ جو برائیوں میں لپٹا ہوا ہے، اس کا ذمہ دار جدید تعلیم کو ٹھہراتا ہے، جو آزادنہ میل جول، مخلوط تعلیم، تعلیم نسواں کے نام پر مسلم معاشرہ کو برائیوں سے سرشار کررہا ہے۔ مسلم اقلیتی ادارے جن کا مقصد ملت کے بچوں، بچیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ بنا نا ہےاور انھیں دوسرے مذاہب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا کرنا تھا۔ مگر مسلم اقلیتی اداروں کے انتظامیہ کی بے حسی، لا پرواہی اور عدم دلچسپی کی بنا پر آج ملت حقیقی تعلیم سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔

مسلم اقلیتی اداروں کو حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد، جو اداروں کو مزید ڈیولپمینٹ کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اسے انتظامیہ اپنی جاگیر سمجھ کر ہڑپ کر لیتا ہے۔ وہی لاکھوں روپیوں کا تقرراتی ڈونیشن وہ بھی کھا جاتا ہے۔ اور اڈمیشن فیس اسے بھی انتظامیہ اپنے ذاتی خرچوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اب تو ایسے ادارے بھی دیکھنے میں آرہے ہے۔ جو خلفائے راشدین کے نام سے منصوب ہے۔ وہاں معصوم طلبہ و طالبات کے ناشتے کے پیسے (کھچڑی بل) لاکھوں روپیہ انتظامیہ غبن کرتا ہے ایسے ادارے جہاں دینی تعلیم کو فوکس کیا جاتا ہے۔ وہاں بچوں، طلبہ و طالبات کے لیے پینےکے پانی کا انتظام نہیں، بچوں کے لیے طہارت خانے نہیں، اسکول میں بچوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں، صاف صفائی کا انتظام نہیں۔ سوسائٹی کے ممبرس کا  آپس میں میل ملاپ نہیں ہیڈ ماسٹر س اور ماسٹرس کے درمیان خوش گوار تعلقات نہیں، اب تو ایسے اقلیتی ادارے بھی دیکھنے میں آرہے ہے، جس کے انتظامیہ صدر ساتویں اور پانچویں پاس ہوتے ہے ، دینی مسلم اقلیتی اداروں میں نان گرانڈ پر کام کرنے والے اساتذہ اکرام کو سالوں سال تنخواہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایک طرف تو عوام کی خدمت، ملت کی خیر خواہی، ملت کی تعمیر کے بات کی جاتی ہواور دوسرے طرف ملت کے لیے آنے والے ڈیولپمینٹ فنڈس کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوں، اقلیتی اداروں میں حکم شاہی چلانا، اپنی من مانی کرنا، ایسے کئی معاملات نظر آتے ہے۔ اب تو اقلیتی اداروں میں بھی جماعت بندی ہو چکی ہے۔ یہ حکومت کے رحم و کرم پر چلنے والے اقلیتی ادارے جو اب الگ الگ جماعتوں اور تنظیموں میں بٹ چکےہے۔ فلاں جماعت کا ادارہ ہے وہاں اس جماعت کا ممبرس ہی لگے گا۔ وہ ادارہ اس تنظیم کا وہاں اسی تنظیم کا فرد لگے گا۔ ایسے اداروں میں کام کر نے والےاساتذہ اکرا م جنھیں دیکھ کر لگتا ہے، یہ صرف اور صرف جماعت کے فرد ہے، ناکہ سرکار کے۔ تقرر کردہ اساتذہ اکرام تنخواہ سرکار کی لیتے ہے اور کام کسی جماعت کا یا پھر کسی تنظیم کا کرتے ہے۔ ایسے افراد تنظیم یا پھر جماعت اور ادارہ دونوں کو دھوکہ دیتے ہے۔

اب تو اردو میڈیم دینی اقلیتی  جماعتی اداروں میں ایسے افراد کا تقرر کیا جاتاہے، جن کی پڑھائی دوسرے میڈیم سے ہوئی ہوتی ہے۔ یہ صاحب ِ حیثیت افراد Isolated کرکے اردو میڈیم اسکولو ں میں خدمت انجام دیتے ہے۔ ان کی ادھوری تعلیم ملت کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ کسی ادارے میں دو دو یا پھر تین یا چار افراد Isolated مراٹھی سے اردو میڈیم میں تبدیل ہوئے نظر آتے ہے۔ Isolated حضرات کسی اردو (کاپی سینٹر ) سے اردو پیپر کاپی کرکے پا س ہوئے ہوتے ہے۔

الحمداللہ میری قلم سچائی کے ساتھ چلتی ہے۔ اپنی تحریر لکھنے سے پہلے مشاہدہ کرتا ہوں جائزہ لیتاہوں، اور مطالعہ کرتا ہو اور پھر بے باکی کے ساتھ اللہ رب العز ت کو حاضر و ناظر جان کر قلم مضبوطی سے پکڑکر لکھتا ہوں۔ آج ملت کو مختلف گوشوں سے نکل کر متحد ہونا ہے۔ ہم بار بار سنتےہے کہ ملت کو دوسرے مذاہب کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا ہے۔ تو تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہونگا۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ایسے اداروں کو فروغ دیا جائے جو واقع ملت کو تعلیمی میدان میں مضبوط کرنا چاہتے ہوں۔ ایسے حضرات کا تقرر کرنا چاہیے جو تعلیمی میدان میں نمائیہ سر گرمی انجام دیتے ہو۔ اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو تعلیم کےنام پر چل رہی تجارت کو روکنا ہونگا۔ ڈونیشن کے نام پر لئے جانے والے لاکھوں روپیوں کو حرام سمجھ کر توبہ کرنا ہونگا۔ اور دینی و ملی اداروں کو انصاف پسند افراد کا تقرر کرکےملت کو تعلیمی میدان میں مضبوط بنانا ہونگا۔ معقول تنخواہ والے اساتذہ کی ذمہ داری ہے وہ غریب نان گرانڈ ٹیچر حضرات کی مدد کریں، ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ تعلیمی اداروں کا معیار اونچا ہو سکے۔

تبصرے بند ہیں۔