السلام! اے ماہِ رمضان کریم

 شیخ فاطمہ بشیر

 انسان اشرف المخلوقات درحقیقت روح اور جسم کا مجموعہ ہیں۔ لیکن بعض اوقات روح غلبہ پاجاتی ہے، نتیجتاً انسان دنیا سے تعلق توڑ کر رہبانیت کا چوغہ اوڑھ لیتا ہے۔ اسکے برعکس بعض اوقات جسم روح پر غالب آجاتا ہے، پھر انسان اپنا مقصدِ وجود فراموش کربیٹھتا ہے۔ نفس اور شکم کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے اور نفس اور معدے کی تیز دھار تلواروں کے درمیان بہنے لگتا ہے۔ اسلام ان دونوں طریقوں کو غلط قرار دیتا ہے۔ ایک مقررہ حدود میں رہ کر اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دنیا کے خزانوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے لیکن اس خیال کے ساتھ کہ کہیں روحانیت اور اخلاقیات کا جذبہ مردہ نہ ہوجائے۔ اسی لیے روزے کی مشقّت ڈالی گئی تاکہ روحانیت و ایمان اور معدہ و نفس کے درمیان زندگی اعتدال پر قائم رہے۔ اعتدال و توازن کے لئے روزوں کا زمانہ اور وقت مقرر کیا گیا۔ پھر بارہ مہینوں میں سے اُس مہینے کا انتخاب کیا گیا جب ظلمت میں بھٹکتی انسانیت کو رہنمائی اور صراط مستقیم دکھائی گئی۔ مکمل قانونِ حیات اور لائحہ عمل دیا گیا۔ ایک طویل اندھیری رات کے بعد انسانیت نے صبح کی ٹھنڈی اور پرسکون فضا میں سانس لیا۔ اس مہینے کو ایک شرف بخشا گیا کہ قرآن سے اسکی خاص نسبت جوڑ دی گئی۔ مجدد الف ثانی کے مطابق، سال بھر کی مجموعی برکتیں ماہِ رمضان کے سامنے ایسی ہیں گویا سمندر کے مقابلے پانی کا ایک چھوٹا قطرہ۔

 روزہ کا تقاضا صرف فاقہ کشی اور بھوک و پیاس سے رکنا نہیں بلکہ اپنی خواہشوں، آرزؤں، اُمنگوں، جذبوں اور احساسات و عادات کو ربِّ تعالیٰ کی مرضی کے مطیع و فرمانبردار بنانا ہے۔ "روزہ” اپنے ذوق و شوق، پسند و ناپسند اور نفس کے تقاضوں کی ڈور کو کس کر اُسے احکامِ الٰہی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اُسکا مقصد صرف پیٹ اور جسم کی صحت و تندرستی نہیں بلکہ یہ روح کی تازگی، قلب کی صفائی اور ذہن کی بالیدگی کا نام ہے۔ روزہ صرف فرض اور دنیاوی فوائد کے نقطہ نظر سے اہم نہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر ہماری روزِ محشر کی تیاری ہے جس دن وہ انسان سب سے کم حیران و پریشان اور بھوکا و پیاسا ہوگا جسکے گناہوں کا بوجھ کم سے کم ہوگا۔ حدیث ہے، "بندہ جب پورے یقین کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اللہ سے اُسکے بہترین اجر کی امید کرتا ہے، تو اُسکے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔” (مفہومِ حدیث- بخاری)۔ کیوں نہ ہم بھی اِس ماہِ صیام میں کثرتِ استغفار، قرآن کی تلاوت، ذکر و اذکار اور دعاؤں کے ہتھیار سے اُن گناہوں کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اُتار پھینکے جو سالہا سال سے ہم اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے پھر رہے ہیں۔

رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے۔ اُسکی برستی رحمتوں سے فائدہ اٹھائیے اور اپنا دامن مکمل بھرلیجیے۔ خدائے ذوالجلال کا بےانتہا شکر ادا کیجئے کہ ایک بار پھر ہمیں یہ مہینہ نصیب ہوا۔ اِس ماہ و سال میں کئی رشتہ دار، دوست و احباب اور اُمتِ مسلمہ کے کئی افراد اِس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ہمیں یہ موقع پھر سے عطا کیا گیا۔ اسکا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔ دل کھول کر خوشیاں بانٹیے، نیکیاں کمائیے اور عذابِ النار سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے لیے کوشاں اور کمربستہ ہوجائیے۔ اِس مبارک مہینے کی بہاریں ہمارا انتظار کررہی ہیں جب

1۔ جہنّم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں

2۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں

3۔ سرکش اور نافرمان شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں

4۔ عبادتوں کا اجر کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔

5۔ اِس ماہ عمرے کا ثواب حج کے برابر ہوجاتا ہے۔

اِس ماہ میں اپنے اعمال کو مرتّب و منظّم کرنے کی کوشش کیجیے۔ روزآنہ کا شیڈول مقرر کیجیئے۔ 1۔ تراویح ادا کی؟ 2۔ تہجد ادا کی؟ 3۔ اشراق و چاشت پڑھی؟ 4۔ قرآن کی تلاوت کتنی کی؟ 5۔ صدقہ خیرات کیا؟ 6۔ دعائیں مانگیں؟ 7۔ صبح شام کے اذکار کا اہتمام کیا؟ 8۔ بحث لڑائی جھگڑے سے دور رہے؟ 9۔ غیبت سے پرہیز کیا؟ 10۔ جھوٹ سے بچنے کی کوشش کی؟ 11۔ لغو باتوں سے پرہیز کیا؟ وغیرہ۔

 استقبالِ رمضان صرف گھر کی صفائی اور پکوان کی تیاری نہیں بلکہ یہ اللہ سے قربت اور اُسکی رضا کے حصول کی تیاری ہے۔ کچھ باتیں جو ہمیں یاد رکھنی ہیں:

فرائض کی وقت پر ادائیگی:

رمضان میں یہ معمول بنالیں کہ ہر فرض نمازیں اور زکوۃ وقت پر ادا کریں گے۔

نزولِ قرآن کا مہینہ:

قرآن کو روزانه پڑھنے کا پختہ معمول بنالیجیے۔ یاد رکھیے کہ اُمّت کے بگاڑ و نقصانات اور پسپائی کی وجوہات یہی ہیں کہ ہم نے قرآن کو ہماری زندگیوں سے ترک کردیا۔ اِس نزولِ قرآن کے مہینے میں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنائیے۔ اُمّت کی برتری، اتحاد اور کامیابی صرف قرآن اور اُس پر عمل میں ہی پوشیدہ ہے ۔ اِس ماہِ مبارک میں عزم کرے کہ انشاء اللہ قرآن زندگی کے ہر مرحلے میں ہمارے ساتھ ہوگا، جس پر عمل کرکے ہم دنیا پر چھا جائیں گے۔ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

توبہ و استغفار کی کثرت:

تمام لغزشوں، گناہوں، برائیوں اور بداعمالیوں پر صدقِ دل سے توبہ کریں۔ سابقہ غلطیوں پر نادم ہو اور اُنھیں دوبارہ دہرانے سے پرہیز کریں۔

تقویٰ:

قرآن رمضان کی فرضیت کا اہم مقصد بیان کرتا ہے، "اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔” (2:183). روزے کے ذریعے مومنین میں اللہ کا ڈر’ خوفِ الہٰی اور پرہیزگاری کی عملی تربیت مقصود ہے۔

نوافل و واجبات کا اہتمام:

تراویح، تہجد، طاق راتوں میں جاگنا، اعتکاف و دیگر واجبات کا اہتمام کریں۔

محبّت و اخوت:

اپنے دلوں کو تمام قلبی بیماریوں سے پاک و صاف کرلیں۔ نفرت، انتقام، حسد، کینہ، بغض جیسی بیماریاں ہماری مغفرت کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اپنے دلوں کو ان برائیوں سے صاف کرلیں۔ سب کو معاف کردیں۔ تاکہ اِس رمضان ہم اپنا نام اللہ کے یہاں متقیوں میں لکھا سکیں۔

صلح رحمی:

دعاؤں کی قبولیت میں اہم رکاوٹ رشتوں کو کاٹنا ہے۔ اِس ماہ ٹوٹی ہوئی تمام رشتہِ داریاں دوبارہ جوڑ لیں تاکہ ہماری دعائیں بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل کرسکیں۔

لایعنی کاموں سے احتیاط:

ایسے کاموں اور مشاغل رمضان کی روحانیت اور سعادت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا بہترین منصوبہ بندی کریں تاکہ نئے جوش، حوصلہ، جذبہ اور اُمنگ کے ساتھ اِس ماہِ صیام اور ماہِ برکات کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اور یہ مقدّس مہینہ ہماری زندگی کا ایک نیا موڑ اور نیا باب ثابت ہو۔

وقت کی قدر کریں:

ہر لمحہ، ہر پل، ہر وقت اور ہر گھڑی ماہِ صیام کی رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں اُٹھانے کے لئے تیار ہوجائے تاکہ پچھتاوا ہمارا مقدر نہ بنے۔ کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

  یہ تو اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہم سے اِس بات سے ہی بہت خوش ہوجاتا ہے جب اُس کے نازل کردہ حکم کی فرمانبرداری میں بندہ مومن تمام حلال چیزوں سے رُک جاتا ہے۔ بھوک و پیاس کی شدت کے باوجود حکمِ الٰہی پر سر خم کردیتا ہے۔ قدرت کے ہوتے ہوئے بھی ساری چیزوں سے دور ہوجاتا ہے۔ تمام اعمال صرف اللہ کی محبّت اور اسکی رضا کے لئے کرتا ہے۔ نیّت خالص اللہ کے لیے رکھتا ہے۔ مستقل محنت کرتا ہے۔ اللہ کی پسند کو اپنی پسند اور خواہشات پر فوقیت دیتا ہے۔ اطاعت میں سر جھکا دیتا ہے۔ پھر راستے میں آنے والی خاردار جھاڑیوں کی شکل میں مشکلات، پریشانیاں، بھوک کی شدّت، الجھنیں اور تکلیفیں سہل سے سہل تر ہوجاتی ہیں کیونکہ روزے کا بدلہ اللہ اتنا دے گا کہ بندہ خوش ہوجائےگا۔ اور پھر روزہ داروں کو بابِ ريان (سیراب کرنے والا دروازہ) سے داخل کیا جائے گا، پھر اُنھیں کبھی پیاس نہ لگے گی۔ (مفہومِ حدیث- ابنِ ماجہ)

ماہِ رمضان میں نیکیاں کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسلیے دعاؤں کا بھرپور اہتمام کریں۔ تہجّد اور افطار سے قبل جب دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ اُس سے تمام ضروریات، جائز خواہشات، امن و سکون، اطمینان اور ایمان پر زندگی و موت مانگیں۔ تکالیف، گناہ، ظلم و بربریت، قتل، فساد اور فرقہ واریت کے خلاف اللہ سے مدد و نصرت کا سوال کریں۔ فلسطین، غزہ، کشمیر، روہنگیا، شام اور اُمتِ مسلمہ کے مظلومین کے حق میں دعائے مغفرت کریں۔ خیر و عافیت کے ساتھ رمضان کے گزرنے کی دعائیں مانگیں۔ ظالم حکمران اور اُن کے ظلم و ستم و شرور سے پناہ مانگے۔ اخلاق، جنید، زینب اور آصفہ کے لیے مغفرت اور نجیب کی سلامتی کے لئے اللہ کے حضور گڑگڑائیں اور دعائیں کریں۔

     یاد رکھیے! اگر روزہ ہم میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا یا ہم اپنے روزمرہ کے گناہوں والے اعمال سے باز نہیں آتے تو جان لیجیۓ کہ یہ فرض عبادت ہم پر بڑی گراں گزرنے والی ہیں۔ اور ایسے بھوکا پیاسا رہنے والے روزہ دار کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں۔ اسلیے ان لمحات کہ صحیح استعمال کریں۔ ممکن ہو کہ یہ رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ثابت ہو یا حوادث کے تھپیڑوں میں ہم آنے والے ماہ و سال میں روزے رکھنے کے قابل نہ ہو یا صحت ہمارا ساتھ چھوڑ جائے۔ اسلیے ان فکروں کو چھوڑیئے کہ رمضان میں کیا پکائیں اور کونسی نئی ڈشیز کھائیں بلکہ اپنے اصل ہدف کو نگاہوں کے سامنے رکھے اور دعائیں کریں کہ اے اللہ! یہ رمضان ہمارے تقویٰ میں اضافے کا باعث ہو۔ ہم میں مجاہدانہ، عابدانہ اور زاہدانہ صفات پروان چڑھے۔ ہم گناہوں سے مکمل پاک و صاف ہوجائے، ہماری مغفرت ہو اور اِس حال میں ہم اپنے خالق سے ملاقات کریں کہ ہمارا رب ہم سے راضی اور ہم اپنے رب سے راضی ہو۔ آمین یا ربّ العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔