الفاظ کا استعمال

ممتاز میر

آج (۵جولائی) کے ممبئی اردو نیوز میں شاہ سرخی سے کچھ ہی نیچے ایک دوسری سرخی ہے ’’تم امریکہ کے غلام ہو۔ جنیوا میں خطاب کے دوران الجزائری وکیل نے امام حرم عبدالرحمٰن السدیس کی شان میں گستاخی کی ‘‘اس خبر کو دینے کے لئے جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ادارہء ممبئی اردو نیوز آج بھی، ان حالات میں بھی، ان اقدامات کے بعد بھی سعودی حکومت اور ان کے حکام کی حمایت کرتا ہے۔ اگر ہم لکھتے تو یہ لکھتے کہ الجزائری وکیل نے امام حرم کو آئینہ دکھایا۔

انسانی نفسیات قدرت کے پیچیدہ ترین مظاہر میں سے ایک ہے۔ ہر شخص اپنی فطرت اور نفسیات کے مطابق الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ مگر کبھی کبھی محتاط روی غلط تاثر کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اور کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہ جاتی ہے۔ آج عالم اسلام کی تمنا ممبئی اردو نیوز کی محتاط روی کی مخالف ہے۔ ۔ ہم چونکہ انتہا پسند ہیں اسلئے ہمارے الفاظ ہماری فطرت کا پرتو ہوتے ہیں۔

عالم صاحب کے زمانے ہمیں کسی پر سخت حملے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مگر ہمارے احباب اکثر ہماری شدت پسندی کے شاکی رہتے ہیں۔ ہم کہتے ہین کہ اگر حضرت عمرؓصحابہء کرام کے درمیان درّہ لے کر گھومتے تھے تو آج کے انسانوں سے جو ۱۴۰۰ سال کی دوری پر کھڑے ہیں اور حضور ﷺ کے تربیت یافتہ بھی نہیں ہیں کیا سلوک کیا جانا چاہئے۔

ہم قریب ۱۵ سال قبل حج کے لئے گئے تھے۔ اس وقت امام عالی مقام صرف امام حرم تھے۔ آج محترم عبدالرحمٰن السدیس صاحب سعودی حکومت میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ ہمارا حال اس وقت یہ تھاجب ہم حرم شریف میں امام محترم کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے تو دل یہ دعا مانگتا تھا کہ قرائت ختم نہ ہو اور جب ختم ہو جاتی تھی دل سے صدا بلند ہوتی تھی کہ ارے ختم ہو گئی۔ ہم امام حرم کے اس وقت اس درجے عاشق تھے کہ اپنے مکہ میں مقیم دوست کے ساتھ جاکر ہم نے ان کا گھر، ان کی مسجد مدرسہ اور ان کی لائبریری دیکھی تھی۔ مسجد میں نماز بھی پڑھی تھی اور دروازے پر رکھے خوان سے خوب کھجوریں کھائی تھیں۔ وطن واپس آنے کے بعد بھی ہم امام محترم کی قراء ت کے سحر سے آزاد نہ ہوسکے تھے۔ اپنے ڈیسک ٹاپ میں ان کی قراء ت کے کچھ نمونے بھی جمع کر لئے تھے۔ مگر موجودہ سعودی حکمرانوں کے دور میں امام کے  بجائے ایک بڑے آفیسر بن جانے کے ساتھ ہی ہم ان کے سحر سے آزاد ہو گئے۔ اب ہم سعودی حکومت کے جتنے بڑے دشمن ہیں اتنے ہی امام کے بھی خلاف ہیں۔ ہماری خواہش بھی ہے اور دعا بھی کہ وہ اپنی ’’پوسٹ ‘‘ سے استعفیٰ دیدیں اور گوشہء گمنامی میں چلے جائیں۔

   اسلام تو دنیا میں پہلے انسان کے ساتھ ہی آگیا تھا۔ حضور  ﷺ کی بعثت صرف شرک کو مٹانے اور اسلام کو آخری شکل دینے کے لئے ہوئی تھی۔ مگر ہم ہندوستانی مسلمان پھر سے شرک کے خوگر ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنے علماء، ائمہ اولیاء و صوفیا کو حضور ﷺ سے بڑا مقام بخش دیا ہے۔ وجہ شاید وہی ہے جس کا ذکر ہم اکثر اپنے مضامین میں کرتے رہتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر انسانوں کو بھگوان بنا دینے والوں کی اولاد ہیں۔ ورنہ قرن اول کے مسلمان تو تمام عقیدت و احترام کے باوجود (اوروہ عقیدت و احترام کہ ازل سے ابد تک کوئی انسانی گروہ کسی شخصیت کا اس طرح نہ کر سکے گا) حضور  ﷺ کو بھی ٹوک دیتے تھے ؍ استفسار کر بیٹھتے تھے؍سوال کر لیتے تھے(جو چاہے الفاظ استعمال کر لیجئے) مثال کے طور پر غزوہء بدر کے وقت میدان بدر میں حضور  ﷺ نے ایک جگہ لشکر کے پڑاؤ کے لئے منتخب کی۔ ایک صحابیؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یہ آپ نے اپنی ذاتی رائے سے کیا یا حکم الہیٰ سے۔ حضور ﷺ نے اسے اپنی ذاتی پسند بتایا۔ معترض صحابی نے دوسری جگہ پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا اور اس کے دلائل بھی دئے، جسے حضور ﷺ نے قبول فرمایا۔

اسی طرح حضور نے ایک بار ظہر کی نماز میں ۴ کی جگہ۶ رکعتین پڑھادیں۔ سلام کے بعد صحابہء کرام نے فوراً پوچھا کہ کیا ۴ کی جگہ ۶ کا حکم آیا ہے ؟حضور  ﷺ کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا۔ آپ ؐ نے فوراً سجدہء سہو کیا۔ ہم ہوتے تو چپ رہتے اور ۶ فرض پڑھنا شروع کر دیتے۔ اس قسم کے واقعات حضرت عمرؓ کے دور خلافت کے بھی بڑے مشہور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی جیسے ظالم جابر حکمرانوں کے سامنے، جن کے تعلق سے مشہور ہے کہ ان کے سامنے منہ کھولنے والا ہر شخص چاہے وہ عام آدمی ہو یا بڑا عالم دین غائب کر دیا جاتا ہے، محترم عبدالرحمٰن السدیس کیا کریں۔ ہمارا جواب یہ کہ وہی کریں جو ہمارے قابل فخر اسلاف نے حجاج بن یوسف کے سامنے کیا تھا۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔