اسلام بلاشبہ دین فطرت ہے!

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ

آفرینشِ عالم سے لے کرطلوع اسلام تک بے شمارایسے مذاہب دنیامیں آئے جن میں بہت سی خوبیاں اوراچھائیاں تھیں۔ ان مذاہب نے بنی نوع انسان کوعبادت، نیکی اوربھلائی کی ترغیب دی۔ گناہوں اوربُری باتوں سے بچنے کی ہدایت بھی کی۔ دنیااورعاقبت کے معاملے میں بھی حتی المقدورخلقِ خداکی رہنمائی کی۔ لیکن ان میں سے اکثرمذاہب سچے اورالہامی ہونے کے باوجودچونکہ نامکمل تھے اوران میں نہ توبنی نوع انسان کی اجتماعی ترقی کاساتھ دینے کی صلاحیت تھی اورنہ یہ انسان کی روحانی تسلّی کے علاوہ فطری ضرورتوں کوپوراکرسکتے تھے۔ اس لئے بنی نوع انسان رفتہ رفتہ ان مذاہب سے ہٹتے چلے گئے۔ اوردُنیابُری طرح لامذہبی کی تاریکی اورگمراہی میں مبتلاہوگئی۔

مذہب سے ہٹ جانے کے بعدبنی نوع انسان کی حالت یہ ہوگئی کہ خدااَوربندہ کاتعلق ختم ہوگیا۔ فرعونیت اورخودسَری کاجذبہ دماغوں پرحاوی ہوگیا۔ معاشرتی نظام درہم برہم ہوگیا۔ حرام وحلال کی تمیزمٹ گئی۔ گناہ اورثواب میں فرق باقی نہیں رہا۔ اخلاقی اوربداخلاقی کاامتیازمٹ گیا۔ فسق وفجوراورجرائم کادورشروع ہوگیا۔ شہوانیت اورنفسانیت سارے نظامِ حیات پرچھاگئی۔ انسانیت پردرندگی نے غلبہ پالیا۔ قتل وخون، آبروریزی اوربربریت کے مناظرعام ہوگئے۔ غرضیکہ دُنیادرندوں اوروحشیوں سے بھی بدترمخلوق کی بستی بن گئی۔

مشرق سے لے کرمغرب تک شمال سے لے کرجنوب تک دُنیاکے ایک سرے سے لے کردوسرے سرے تک جب درندگی، فرقہ فرستی اورشہوانیت کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی اوردُنیامیں جہالت کاسب سے بڑامرکزملکِ عرب بناہواتھا۔ ایسے پُرفتن حالات میں عرب کی سرزمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبرحضوررحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ نے قرآن کریم کی مقدس تعلیم، اپنے بلندکردار اورشریعت اسلامیہ کی روشنی سے اس فانی دنیاکوروشن ومنورکردیا جوتاریکی اورجہالت کی انتہائی پستی میں جاپڑی تھی۔

اسلام کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسی سابقہ مذاہب کی تکذیب نہیں کی بلکہ ایک کامل اوراکمل مذہب چونکہ دنیامیں آگیاتھااس لئے تمام سابقہ مذاہب کی خودبخودتنسیخ ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اسلام کی بلندوبالاتعلیمات سے بنی نوع انسان کوآشناکیاوہیں ان کوتمام سابقہ مذاہب اوربانیانِ مذاہب کے احترام کی بھی ہدایت فرمائی۔ غرضیکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہ انسانوں کوجس دین اسلام سے رشناس فرمایاوہ ایک ایسامکمل، سچااورفطری مذہب ہے جودنیاکے ہرترقی یافتہ انسان کی دینی اوردنیاوی معاملہ میں سچّی رہنمائی کرتاہے اورجوعینِ فطرتِ انسانی اورانسانی ضرورتوں کے مطابق ہے۔ چنانچہ اسی دین حنیف کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے:”تواپنامنہ سیدھاکرواللہ کی اطاعت کے لئے ایک اکیلے اسی کے ہوکر، اللہ کی ڈالی ہوئی بناجس پرلوگوں کوپیداکیا، اللہ کی بنائی ہوئی چیزنہ بدلنا، یہی سیدھادین ہے مگربہت لوگ نہیں جانتے”۔ (ترجمہ کنزالایمان:سورۂ روم، ۳۰)

یعنی خودارشادباری یہی ہے کہ اب کامل ترین دین تم کوعطاکردیاگیاہے۔ اس کے بعدتمہیں کسی نامکمل دین کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس اپنارخ اسی دین فطرت یعنی دین اسلام کی طرف کرلو۔ یہ دین فطرت وہی دین ہے جس فطرت کے مطابق بنی نوع انسان کوپیداکیاگیاہے۔ جوکہ عین فطرت انسانی کے مطابق ہے۔ پھرساتھ ہی یہ بھی ارشادہوتاہے کہ یہی آخری دین ہے۔ اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتاگویااللہ جل شانہٗ نے خودہی تمام گذشتہ مذاہب کی تنسیخ فرمادی ہے۔ اوربنی نوع انسان کورسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک ایسادین عطافرمادیاہے جودین فطرت ہے، جومکمل ترین مذہب ہے، اورجس میں بنی نوع انسان کی تمام ضروریات کاسامان موجودہے۔

اسلام کی حقائق اورتعلیمات پرجب غورکیاجاتاہے توانسانی ضمیرخودبخودپکاراُٹھتاہے کہ بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے۔ جس میں انسان کے پرستش کے جذبہ کے لئے عبدومعبودمیں رابطہ کی سچی راہیں موجودہیں۔ جس میں روح کی طمانیت کے لئے بھی مکمل سامان ملتاہے۔ جس میں غم اورخوشی، تمدّن اورمعاشرت کے لئے بھی ایک مکمل دستورالعمل پوشیدہ ہے۔ جس میں دنیاوی کشاکش اورپریشانیوں کابھی مکمل علاج ہے۔ جس میں دنیاوی رشتوں کے تمام نزاکتوں سے انسان کوآشناکردیاگیاہے، جس میں خدااوربندہ کے تعلق سے لے کرانسان اورجانورتک کے تعلق کے تمام مدارج سمجھادیے گئے ہیں۔ غرضیکہ پیدائش سے لے کرجوانی تک، جوانی سے لے کربڑھاپے تک، بڑھاپے سے لے کرموت تک اورموت سے لے کرقیامت تک کی تمام منازل سے بنی نوع انسان کوآشناکرادیاگیاہے۔ یہاں تک کہ انسان کی دینی اوردنیاوی زندگی کاکوئی بھی ایساپہلونہیں ہے جس کوتشنہ چھوڑاگیاہو۔

اسلام کی صداقت اوردین فطرت ہونے کااس سے بڑھ کراورکیاثبوت ہوسکتاہے کہ وہ اسلام جس کوشروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس گھرکے صرف تین آدمیوں نے قبول کیاتھا۔ مگرایک مختصرسے عرصہ میں ساری دنیاپرچھاگیا۔ اس لئے نہیں کہ اس کی تبلیغ کی گئی تھی۔ بلکہ اس لئے کہ اس میں مقبول ہونے کی اوردنیاکواپنے اندرجذب کرنے کی کامل صلاحیت موجودتھی۔ دوست اوردشمن جس نے ا س کے حقائق پرغورکیاوہ اسی کاہوگیااورایساہوگیاکہ نہ مخالفین کی صعوبتیں اس کواسلام سے ہٹاسکیں اورنہ حکومت کی تلواریں اسے دینِ حنیف سے منحرف کرسکیں۔ بس جس نے اسلام کوقبول کرلیاوہ اسی کاشیدابن کررہ گیا۔ جان دیے دی مگراسلام کونہ چھوڑا۔ کیااس سے بڑھ کراسلام کی حقّانیت، صداقت اوردین فطرت ہونے کااورکوئی ثبوت ہوسکتاہے؟۔ دین اسلام کی اسی بے پناہ کشش کایہ کرشمہ ہے کہ آج جب دنیامیں ہرطرف الحاداوربے دینی کاچرچہ ہے۔ اس وقت بھی اس دین حنیف کے ایک سوپچیس کروڑسے زیادہ ماننے والے موجودہیں اوربحمدہ تعالیٰ روزافزوں کثیرتعدادمیں اضافہ ہوتاہی جارہاہے۔ ایک سروے کے مطابق پوری دنیامیں مذہب اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے والاواحدمذہب ہے۔

دین حنیف کے ان ایک سوپچیس کروڑ پرستاروں کی حالت یہ ہے کہ خواہ وہ پوری طرح اسلام کی جملہ تعلیمات پرعامل نہ ہوں لیکن ان کوسچے دل سے اس مذہب کی صداقت کااعتراف ہے۔ ان کے عقائداپنی جگہ پوری طرح مستحکم ہیں۔ ان میں دوسری خامیاں خواہ کتنی ہی کیوں نہ موجودہوں لیکن کیامجال کہ کوئی طاقت ماسوائے خداکسی دوسری چیزکی ان سے پرستش کراسکے۔ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے ان کومنحرف کرسکے یااسلام کے بنیادی عقائدسے ان کوہٹاسکے۔ یعنی صرف پیروان اسلام ہی دنیامیں مذہب کے ایسے سچے پیروکارہیں کہ جن سے ہرمعاملہ میں لغزش ہوسکتی ہے مگراسلام کے بنیادی اُصولوں سے ان کی لغزش اورانحراف ناممکن ہے۔ کیااس سے بڑھ کرکسی مذہب کی صداقت کابیّن ثبوت مل سکتاہے۔

دنیامیں جتنے بھی مذاہب آئے اُن کی کتابیں بدل گئیں۔ ان کے اصول بدل گئے۔ ان کی تعلیمات بدل گئیں۔ لیکن اسلام ہے کہ ساڑھے چودہ سوسال گزرجانے کے بعدبھی اس الہامی کتاب قرآن کریم کاایک ایک نقطہ ایک ایک زیروزبرجوں کاتوں محفوظ ہے۔ اس کے بنیادی عقائدفولادکی چٹان کی طرح اس الحادوبے دینی کے زمانہ میں مستحکم ہیں۔ اس کے ماننے والوں میں توکمزوریاں اورخامیاں پیداہوتی رہی ہیں اورہوتی رہیں گی۔ لیکن یہ فطری مذہب آج بھی اپنی تمام نورانی تجلّیوں کے ساتھ جلوہ گرہے اورصبح قیامت تک جلوہ گررہے گا۔ اس کی صداقت اورسچائی کااس سے بڑھ کراورکیاثبوت ہوسکتاہے کہ ساڑھے چودہ سوسال گزرجانے کے بعدآج بھی اس میں روزِاوّل کی طرح جاذبیت اورکشش موجودہے۔

اسلام اگردین فطرت نہ ہوتاتوکیاوہ اس دنیاکاساتھ دے سکتاتھاجس نے گذشتہ پانچ سوسال کے اندرحیران کن ترقی کی ہے۔ اتنی بڑی مادّی ترقی جوآفرینش عالم سے لے کرپانچ سوسال قبل تک کبھی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیاکے انتہائی ترقی کرجانے کے باوجوداس کی تعلیمات اوررہنمائی کی آج بھی دنیامحتاج ہے۔ اگریہ دین فطرت نہ ہوتاتوبنی نوع انسان اسے بھی اُسی طرح چھوڑدیاہوتاجس طرح سابقہ مذاہب کوحالات کاساتھ نہ دینے کی وجہ سے ترک کردیاتھا۔ لیکن یہ توایسامکمل دین فطرت ہے جسے چھوڑنے کی کوشش کے باوجودبھی نہیں چھوڑاجاسکتااورجس سے انتہائی بے اعتنائی اختیارکرتے ہوئے بھی سہارالئے بے غیرکسی کاگذارہ ہوہی نہیں سکتا۔

تبصرے بند ہیں۔