اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے تقاضے

مولانا محمد جہان یعقوب

راقم نے ’’عقیدۂ آخرت و علاماتِ قیامت ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جو الحمدللہ!کئی اخبارات ورسائل میں شایع ہوا اور ہر مکتبۂ فکر کی طرف سے اسے نہ صرف پسند کیا گیا، بلکہ احباب کی طرف سے اصرار ہے کہ اسی انداز میں تمام ضروریات ِ دین پر قرآن واحادیث ِ صحیحہ سے راہ نمائی فراہم کی جائے، یہ مضمون اس سلسلے کی پہلی کڑی اور نقشِ اول ہے۔

سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی عمل یا قول اسی وقت صحیح اور قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب کرنے والے کا عقیدہ درست ہو، چنانچہ عقیدہ درست نہ ہونے کی وجہ سے تمام اعمال کی اللہ تعالیٰ کی نظر میں باطل ہو جاتے ہیں۔ اس مفہوم کی کئی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایمانیات میں چھے چیزوں کو اصل کی حیثیت حاصل ہے اور پورے دین کی عمارت انھی ارکان پر قائم ہے، باقی سب اس کی شاخیں ہیں، انھیں ضروریاتِ دین بھی کہا جاتاہے، جو یہ ہیں :اللہ تعالیٰ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان، اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان اوراچھی بری تقدیر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر ایمان۔ان سب پرایمان لانا ضروری ہے۔ آئیے!اب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے تقاضوں پر قرآن واحادیثِ صحیحہ کی روشنی میں گفت گو کرتے ہیں !

اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پرایمان لانااور اس میں کسی کو شریک نہ کرنا، ایمان کی اولین شرط ہے، اس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں :

 اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے۔ (الرعد : 16) اللہ تعالیٰ ہمارا رازق ہے۔ (الأنعام :14، وسبا :24) اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے اوریعنی کائنات کی تمام چیزوں پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار چلتا ہے۔ (آل عمران :109) اللہ تعالیٰ سب کاکارساز ( کام بنانے والا) ہے، اگر وہ مدد کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔(سورئہ یٰس)اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کارب یعنی ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر چیز کا پالنے والاہے۔(النجم:25) کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار دلائل پھیلے ہوئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کو پہچانا جا سکتا ہے۔مثلاً:دن رات کا آنا جانا (النور:44) سورج کا طلوع غرو ب ہونا(یٰس:40) سرد یوں گرمیوں کا آنا جانا، ہواؤں کاچلنا (الجاثیۃ:۵) بادلوں کا بننا (الرعد:12، 3) اور ان سے بارش کابرسنا، (النور:43) وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (اخلاص:1) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (نساء :171) اس کے لیے کوئی متبادل شکل یا کوئی ہم پلہ نہیں۔ (اخلاص:۴) اس کی کوئی اولاد نہیں، اس کے والدین (دونوں یا ایک) نہیں۔ (اخلاص:3)

 اس کے لیے کوئی شریکِ حیات یعنی بیوی نہیں۔ (الجن:۳)اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا یا کسی کو حاجت رو ا، مشکل کشا اورعالم الغیب سمجھتے ہوئے پکارنا باطل ہے، اس کے مقابلے میں کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں۔ (الحج :62)

 ’’اللہ‘‘اس ذات واحد ویکتا اور قادر مطلق کا ذاتی نام ہے، اس کے علاوہ اس کے صفاتی نام بھی ہیں (الأعراف:180) جن کو کوئی شمار نہیں کر سکتا، البتہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے صفاتی نام بیان ہوئے ہیں ,جن کے یاد کرنے پر جنت کی بشارت بھی زبان نبوت سے دی گئی ہے۔(ترمذی شریف)

اللہ تعالیٰ مخلوق کی صفات سے پاک ہیں، اور قرآن وحدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سننے، دیکھنے، بولنے، سوچنے کی نسبت ہے، وہاں اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ، بولنے کے لیے زبان  اور سوچنے کے لیے دل و دماغ کا محتاج نہیں، وہ ان کے بغیر دیکھنے، سننے، بولنے اور سوچنے پر قادر ہے۔ (المؤمنون:91، الصّٰفّٰت:80) اسی طرح اللہ تعالیٰ جسم جسمانی عوارض یعنی جسم اور جسم سے تعلق رکھنے والی تمام چیزوں سے پاک ہے اور جہاں قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف بظاہر اعضا ء کی نسبت ہے، وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی نہ کسی صفت ِکمال کی تعبیر ہے، جیسے اللہ کی صفتِ قدرت کو’’ ید ‘‘(ہاتھ)کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ (یٓس:83)

دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں، البتہ خواب میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ممکن ہے۔(الأنعام :103) قیامت کے دن جنتیوں کو اللہ تعالیٰ اپنا دیدار کرائیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہوگی، جو جنت میں جانے والوں کو عطا کی جائے گی۔(یونس:26) اللہ تعالیٰ حاضر ناظر یعنی ہر جگہ بغیر مکان کے موجود ہے۔ (الحدید:4 )

 اللہ تعالیٰ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔(سورہ ق:16) فائدہ:حکیم الأمت مجدد ملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں :میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذِاول کاغذِ ثانی کے قریب ہوجاتاہے، لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذِ اول کی بہ نسبت کاغذِ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے، تو اللہ تعالیٰ فرما رہاہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے، لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے، اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے، لیکن اللہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے، چاہے وہ موجود ہویا ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو، وہ ہر قسم کے غیب کا جاننے والا ہے، غیب کے خزانوں کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اسی طرح زندگی موت، دفن کی جگہ، ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟کون کل کیا کرے گا؟بارش کا علم، غرض ذرے ذرے کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے (الأنعام:59)

اللہ تعالیٰ ہر سمت اور جہت میں موجود  ہے۔(النساء:126) البتہ تمام سمتوں اور جہتوں میں ’’ اوپر کی جہت ‘‘کو باقی تمام سمتوں اور جہات پر برتری حاصل ہونا ہر شخص جانتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا خیال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اشارہ اوپر کی طرف کیا جاتا ہے اور’’ اوپر والے‘‘ سے اللہ تعالیٰ ہی کو مراد لیا جاتا ہے۔ایک حدیث میں بھی ہے کہ ایک خادمہ، جو بولنے سے معذور تھی، اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ مؤمن ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ:اللہ تعالیٰ کے لیے’’اوپر والے‘‘کے الفاظ کا استعمال کوئی بے ادبی وگستاخی نہیں۔

خلاصہ یہ کہ :ہر قسم کے کمالات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں، وہی مشکل کشا، حاجت روا، عالم الغیب، ہر جگہ موجود، مختارِ کل اور عالم الغیب ہے۔اس کی ذات کے سواکوئی عبادت وبندگی، سجدہ وتسبیح اور نذر ونیاز کی مستحق نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات وصفات پر کامل ایمان رکھنے اور اس کے ساتھ کسی کو کسی بھی حیثیت سے شریک نہ کرنے کی توفیق اور اپنی سچی محبت نصیب فرمائے۔آمین!

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک سبق آموز نصیحت
    ایک دیہاتی کسی شہر میں فٹ بال کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اس نے قریب میں کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا –
    ” چاچا – اس گیند کی کیا غلطی ہے – جو سارے ملکر اسے لاتوں سے مار رہے ہیں ” – ؟
    ان بزرگ نے جواب دیا – ” اس گیند کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اندر سے خالی ہے –
    ورنہ کسی کی کیا مجال کہ اسے لاتوں سے مارے – ”
    موجودہ دور میں ہم مسلمانوں کا یہی حال ہے – ایمان بس زبان پر ہے اور اندر سے خالی ہے –

تبصرے بند ہیں۔