‘المحدثات’ (اردو) كا رسم اجراء

ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

(آكسفورڈ)

ميرى كتاب (الوفاء بأسماء النساء) كے مقدمه كا خلاصه انگريزى ميں تقريباً بيس سال پہلے شائع ہوا، اور وه كافى مقبول ہوا، امريكه كى كئى خواتين نے بتايا كه اس كتاب كى وجه سے سيكڑوں مرتد لوگ دوباره اسلام ميں واپس آگئے۔ الحمد لله، بار بار اس كى طباعت ہوتى رہى، فرانسيسى، بوزنين، انڈونيشين اور مليالم زبانوں ميں اس كے ترجمے شائع ہو چكے ہيں، اردو ترجمه برادر عزيز ابو الاعلى صاحب ندوى (فرزند ارجمند مولانا عنايت الله صاحب سبحانى) كى توجه سے ہدايت پليشرز كى جانب سے شائع ہوا۔

آج جماعت اسلامى كے مركز ميں امير جماعت جناب سيد سعادت الله صاحب كى صدارت ميں اسى اردو ترجمه كا رسم اجراء ہوا، اس پروگرام ميں مردوں اور عورتوں نے بڑى تعداد ميں شركت كى، آخر ميں سوال وجواب كا سلسله بهى چلا۔ پروگرام كے اختتام پر عورتوں نے الگ سے ملاقات كى، ان ميں مولانا امين عثمانى مرحوم كى صاحبزادى ايمان عثمانى بهى تهيں، انہوں نے اپنا تعارف كرايا، الله تعالى ان كے علم وعمل ميں ترقى دے، اور انہيں اپنے والد مرحوم كے لیے صدقه جاريه بنائے۔

ذيل ميں چند سطريں تحرير كى جا رہى ہيں جس سے كتاب كے موضوع اور اس كى افاديت كا كچه اندازه ہو سكے گا:

آج مسلمانوں كو جتنے مسائل درپيش ہيں ان ميں ايك اہم مسئله "اسلام ميں عورتوں كا مقام "ہے، اس مسئله كو سمجهنے اور اس كا حل تلاش كرنے كى سنجيده كوشش اب تك مفقود ہے، جب كوئى مسئله در پيش ہو تو اس كا حل نكالنا ضرورى ہے، كيونكه انسان كى فطرت الله تعالى نے ايسى بنائى ہے كه وه مسائل كے ساته زياده دنوں تك نہيں ره سكتا، اگر ہم نے قرآن وسنت كى روشنى ميں حل نہيں پيش كئے تو لوگ غير اسلامى حل قبول كريں گے، اور غير اسلامى حل جس تيزى سے مسلمانون ميں مقبول ہو رہے ہيں اس سے يه اندازه لگانے ميں كوئى دشوارى نہيں ہوسكتى كه ہمارى نئى نسل ميں كيوں ارتداد تيزى سے پهيل رہا ہے؟ يا كم از كم اس كے دلوں سے اسلام كى حقانيت اور اس دور ميں اس كى قيادت كى صلاحيت پر يقين كيوں كمزور ہوتا جا رہا ہے ؟

اس ارتداد، نفاق اور ايمان كى كمزورى كى بنيادى وجه مسلمان مردوں اور عورتوں كے اندر اس دين كى بنيادى تعليم كى كمى ہے، اسلام خدا كى بندگى كا مذہب ہے، اور خدا كى بندگى علم پر قائم ہے، جہالت كے ساته بندگى واطاعت ممكن ہى نہيں، ہم عام طور سے مردوں كى تعليم كى دعوت ديتے ہيں، اور اس تعليم كے دلائل فراہم كرتے ہيں، جو دليليں مردوں كى تعليم وتربيت كے حق ميں دى جاتى ہيں بعينه وہى دلائل ہيں عورتوں كى تعليم وتربيت كى ضرورت كے، تعليم انسان كو اس كى محدوديت سے نكالتى ہے، اور اسے خدا نے جو صلاحيتيں دى ہيں ان كا استعمال بتاتى ہے، عورتوں كو بهى انہيں صلاحيتوں سے نوازنا جن سے مرد متصف ہيں اس كا قطعى ثبوت ہے كه عورتيں بهى اپنى ان خدا داد صلاحيتوں اور توانائيوں كو بروئے كار لائيں، اور علم ويقين كے اعلى مراتب پر فائز ہوں۔ قرآن كريم نے عورتوں اور مردوں كى تعليم كے درميان كوئى تفريق نہيں كى، حضور اكرم صلى الله عليه وسلم نے عورتوں كى تعليم كى بہت زياده ہمت افزائى كى، اور اس كا اہتمام اور انتظام كيا، اس كا نتيجه ہے كه صحابيات سے ليكر بعد كى صديوں تك عالمات كى تعداد ہزاروں تك پہنچى ہوئى ہے، يه عورتيں حديث، تفسير اور فقه وغيره ہر ميدان ميں پيش پيش تهيں۔

صحابيات، تابعيات اور بعد كى صديوں ميں بہت سى عورتيں حديث وفقه ميں ممتاز تهيں، ان كى ايك بڑى تعداد فتوے بهى ديتى تهى، لوگ ان سے حديث وفقه وغيره كى تعليم ليتے تهے، كچه خواتين اپنے حفظ سے حديثيں پڑهاتى تهيں، بہت سى حديثيں صرف عورتوں كى روايت سے محفوظ ہيں، حنفى، مالكى، شافعى، حنبلى اور دوسرے مسلكوں كے كتنے فقہى مسائل ايسے ہيں جو تنہا عورتوں كى روايتوں پر مبنى ہيں، امام ابو عبد الله الحاكم النيسابورى فرماتے ہيں كه اسلام كے ايك چوتهائى احكام كى بنياد عورتوں كى روايتوں پر ہے، دنيا ميں كوئى مذہب نہيں جس كے تشكيلى دور ميں خواتين نے يه عظيم علمى كردار ادا كيا ہو۔

ايك اہم نكته جسے عام كرنا چاہئے يه ہے كه مردوں ميں سيكڑوں وه لوگ ہيں جنہوں نے حديثيں گڑهى ہيں اور حديثوں ميں جهوٹ بولا ہے، جبكه امام ذہبى وغيره مؤرخين وماہرين رجال كا بيان ہے كه عورتوں ميں كوئى ايسا نہيں جس پر حديث ميں جهوٹ بولنے كا الزام ہو، اور اس ميں شك نہيں كه عام طور سے عورتيں صرف دين كے حرص اور خدا ورسول كى خوشنودى كے لئے حديثيں پڑهتى پڑهاتى تهيں، فنا في الحديث كے مقام عالى ميں عورتوں نے حيرت انگيز مثاليں قائم كى ہيں، فاطمة بنت المنجا التنوخية (متوفاة سنه 714ه) نے دمشق كى مسجدوں اور مدرسوں ميں بخارى شريف اور ديگر كتب حديث پڑهائيں، بعد ميں مصر كے امراء كى دعوت پر وہاں منتقل ہوگئيں، اور بادشاہوں اور امراء كے محلوں، مسجدوں اور مدرسوں ميں درس حديث ديا، يہاں تكـ كه جس دن ان كا انتقال ہوا وه درس بخارى ميں مشغول تهيں اور اس وقت ان كى عمر 89 سال تهى، ان كا بخارى كا نسخه تركى كى ايكـ لائبريرى ميں اب تكـ محفوظ ہے۔

بخارى شريف سے عورتوں كے اشتغال كا حال يه ہے كه اس وقت تك بخارى شريف كا سب سے صحيح نسخه ايك خاتون كا ہے، نسخه يونينيه جس كى طباعت كا اہتمام سلطان عبد الحميد ثانى نے قاہره سے كيا تها اور جسے نسخه سلطانيه كہا جانے لگا وه نسخه ہے حافظه كريمه مروزيه (متوفاة سنه 464هـ) كا، جن سے حافظ ابو بكر خطيب بغدادى، حافظ سمعانى وغيره نے بخارى پڑهى، يه نسخه شيخ زہير ناصر كى تحقيق سے شائع ہو كر متداول ہے، اسى طرح بخارى شريف كى عورتوں كى سند سب سے اونچى ہے، عام طور سے ديوبند، ندوه اور ديگر مدرسون كى سند ميں امام بخارى تك بيس يا اس سے زائد واسطے ہوتے ہيں جبكه عائشه مقدسيه (متوفى 814ه) كے واسطه سے ميرے اور امام بخارى كے درميان صرف چوده واسطے ہيں، امام بخارى كا انتقال سنه 256ه ميں ہوا، اور اس وقت سنه 1443هـ ہے، تقريبا باره سو سال كے عرصه ميں صرف چوده واسطوں كا ہونا غايت علو اسناد ہے۔

شروع سے بڑے بڑے ائمه حديث وفقه نے كثرت سے عورتوں سے حديثوں كى روايتيں كى ہيں، امام بخارى كے شيخ مسلم بن ابراہيم فراہيدى اور ابو الوليد طيالسى نے صرف ايك شہر بصره كى ستر عورتوں سے حديث كى روايت كى، حافظ سمعانى نے اپنى 68 شيخات كا ذكر كيا ہے اور ان كے احوال بيان كئے ہيں، ابن عساكر نے اپنى معجم الشيوخ ميں 80 شيخات كے تراجم لكهے ہيں، اور اپنى مختلف كتابوں ميں ان سے روايتيں كى ہيں، اسى طرح امام مزى، ابن تيميه، برزالى، ذہبى، عراقى، ابن حجر، سخاوى، سيوطى وغيره كى خواتين شيخات كى تعداد بہت زياده ہے، ابن النجار جنہون نے خطيب بغدادى كى تاريخ پر ذيل لكها ہے انہوں نے چهہ سو مردوں اور چار سو عورتوں سے روايت كى، يعنى ان كے عہد ميں چاليس فيصد اہل علم كا تعلق خواتين سے ہے، بلكه شايد خواتين اہل علم كى تعداد اس سے زياده ہو، كيونكه عورتوں كے متعلق لوگوں كے پاس معلومات بہت كم ہوتى تهيں۔

حديث كى بہت سى كتابيں اور بہت سے اجزاء اس وقت صرف عورتوں كى روايت سے باقى ہيں، مثلاً امام طبرانى كى معجم كبير جو پچيس جلدوں ميں ہے فاطمة الجوزدانية (متوفاة 524هـ) كى روايت سے متداول ہے۔

فقه ميں بهى عورتوں كا بڑا مقام تها، امام ابو حنيفه اور امام مالك رحمة الله عليهمانے بہت سے امور ميں عورتوں كے فتووں پر عمل كيا، صحابيات كے بعد مشہور فقيه خواتين مين عمرة بنت عبد الرحمن، حفصة بنت سيرين، معاذة العدوية، أم الدرداء، فاطمة بنت المنذر بن الزبير وغير ہن كے نام نمايان ہيں، حنفى مذہب كى ايك اہم كتاب علاء الدين سمرقندى كى (تحفة الفقهاء) ہے، ان كى صاحبزادى نه يه كه اس كتاب كى ماہر تهين بلكه ان كو پورى كتاب زبانى ياد تهى، سمرقندى كے شاگردوں ميں مشہور فقيه علامه كاسانى ہيں، جب كاسانى نے فقه كى تعليم مكمل كرلى تو اپنے استاد سے ان كى صاحبزادى فاطمه كے ساته شادى كرنے كى خواہش ظاہر كى، سمرقندى نے كہا كه ميرى بيٹى فقه كى ماہر ہے اور تم اس كے مقام كو ابهى تك نہيں پہنچے، تم ميرى كتاب كى شرح لكهو، اگر وه مجهے پسند آگئى تو ميں تمهارى شادى اس سے كردوں گا، چنانچه كاسانى نے (بدائع الصنائع) كے نام سے يه شرح مكمل كى، جو استاد كو پسند آئى اور انہوں نے اپنى بيٹى كى شادى ان سے كردى، مؤرخين كہتے ہيں: شرح تحفته وتزوج بنته، اس كے بعد حلب كے امير نے كاسانى كو حلب كے ايك كالج ميں پڑهانے كى دعوت دى، كاسانى وہاں پڑهانے گئے، ان كے شاگرد ابن العديم الحلبى وغيره كہتے ہيں كه كاسانى ہم لوگون كو فقه پڑهاتے اور ہم ان سے بحث كرتے، كبهى كبهى جب انہيں جواب كا علم نه ہوتا تو ہم سے كہتے تم لوگ انتظار كرو ميں ابهى آتا ہوں، اور جب آتے تو ہمارے سوال كا جواب ليكر آتے، ہميں بعد ميں معلوم ہوا كه كاسانى اپنى بيوى فاطمه سے پوچهكر ہميں بتاتے ہيں، كاسانى كى بدائع الصنائع كے بارے ميں مولانا رشيد احمد گنگوهى رحمة الله عليه كى رائے ہے كه يه حنفى مذہب كى سب سے بہتر كتاب ہے، حنفى مذہب كى سب سے اچهى كتاب صرف ايك عورت سے شادى كرنے كے لئى لكهى گئى، اور جس شخص نے يه كتاب لكهى اس كى بيوى فقه كى اس سے بڑى عالمه تهى۔ نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے زمانه سے ليكر صديوں تكـ عام دستور رہا ہے كه عورتيں مسجدوں ميں منعقد ہونے والے حلقہائے دروس ميں شريك ہوتى تهيں اور درس ديتى تهيں، شام عراق، مصر اور عالم اسلام كى دوسرى مسجدوں ميں جہاں مرد پڑهتے پڑهاتے تهے وہيں عورتيں بهى پڑهتى پڑهاتى تهيں، اسلام ميں سب سے زياده مقدس تين مسجديں ہيں: مسجد حرام، مسجد نبوى اور مسجد اقصى، ان تينوں ميں عورتيں درس ديتى تهيں، اور ان كے دروس ميں عورتيں شريك ہوتى تهيں، اور مرد بهى شريك ہوتے تهے، بلكه مرد شركاء كى تعداد زياده ہوتى تهى، ان مين علماء، محدثين، فقهاء اور قضاة ہوتے تهے، مسجد حرام مين كئى عورتون نے حطيم ميں درس ديا ہے، مسجد نبوى ميں متعدد خواتين كے سامنے حديثون كا سماع ہوا ہے، ان ميں ايكـ خاتون فاطمه البطائحيه (متوفاة سنه 711هـ) ہيں جو امام ذہبى، امام سبكى وغيره كى شيخه ہيں، ان كى مجلس درس قبر اطہر كے پاس لگتى تهى، وه قبر اطہر كے سرہانے بيٹهتى تهيں، جب تهكـ جاتى تهيں تو قبر مبارك كى ديوار سے ٹيك لگاتى تهيں، اور مجلس كے آخر ميں تمام حاضرين كے لئے اپنے ہاته سے اجازت لكهتى تهيں، اسى طرح مسجد اقصى ميں ام الدرداء رحمها الله تعالى سے ليكر بعد كى صديوں تك عورتوں كے دروس كثرت سے ہوتے تهے، اور سامعين كى تعداد سيكڑوں سے متجاوز ہوتى تهى۔

ان تينوں مسجدوں كے علاوه دوسرى مسجدوں، مدرسوں اور كالجوں ميں بهى خواتين كے دروس ہوتے تهے، دمشق ميں جامع بنى اميه ميں اپنے عہد كا سب سے بڑا محدث قبة النسر كے نيچے بيٹهكر درس حديث ديتا، عائشه بنت ابن عبد الهادى (ت 814هـ) كا بهى تقرر وہاں درس حديث كے لئے ہوا تها، اور انهيں باقاعده تنخواه ملتى تهى، ان كے دروس ميں شريك ہونے والوں ميں اس زمانه كے دو سب سے بڑے ماہر حديث تهے، ايك حافظ ابن ناصر الدين الدمشقى، اور دوسرے حافظ ابن حجر العسقلانى، حافظ ابن حجر نے عائشه مقدسيه سےحديث كى چهوٹى بڑى تقريبا ًستر كتابيں اخذ كيں۔

بعض نوجوان علماء كے ذہن ميں يه سوال پيدا ہوتا ہے كه عورتوں كى تعليم اور ان كے حقوق كے لئے ميں اتنى جد وجہد كيوں كر رہا ہوں؟ اس مسئله كى مختصر وضاحت ضرورى ہے:علماء كى ذمه دارى ہے كه جب قرآن وسنت كے كسى حكم كى تحريف ہو يا اس پر عمل يا اس كے نفاذ ميں ركاوٹ ہو تووه اس تحريف كا خاتمه كريں اور قرآن وسنت كے حكم پر عمل كرنے اور اور اس كے نفاذ كى راه ہموار كريں، عورتوں كے بنيادى انسانى اور اسلامى حقوق خدا تعالى كے ديئے ہوئے ہيں اور اس كے پيغمبر صلى الله عليه وسلم كے بيان كرده ہيں، ان حقوق كے لئے جد وجہد كرنا پورى امت كى ذمه دارى ہے۔

عورتوں پر جو زيادتى ہو رہى ہے اور جس طرح ان كو ان حقوق سے محروم كيا جا رہا ہے جو خدا اور اس كے پيغمبر نے انہيں ديئے ہيں اس كے نقصانات بہت واضح ہيں، عورتيں صرف اسلام سے بد ظن نہيں بلكه بہت بڑى تعداد ميں مرتد ہو رہى ہيں، اور اس كى وجه سے بہت سے مرد بهى ارتداد كا شكار ہيں، اس صورت حال كا صحيح اندازه نه كرنے كى وجه سے علماء كى قيادت كمزور پڑ رہى ہے۔

اور سب سے زياده اہم بات يه ہے كه عورتوں كے متعلق ہمارا منفى رويه عورتوں كے عظيم احسانات كى نا شكرى وناقدر دانى اور ان كے كارناموں سے چشم پوشى كى دليل ہے، اقبال نے خواتين اسلام كو خطاب كرتے ہوئے كتنى دل ميں اترنے والى بات كہى ہے:

زشام ما بروں آور سحر را
به قرآں باز خواں اہل نظر را
تو مى دانى كه سوز قراءت تو
دگر گوں كرد تقدير عمر را

تبصرے بند ہیں۔