امار سونار بنگلہ (قسط دوم)

صفدر امام قادری

  ہندستان میں بیٹھے ہوئے ہم اس بنا پر غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بنگلہ دیش چوں کہ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں قائم ہوا اس لیے اس زبان کا وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا مگر اردو کے طلبا کی بھیڑ مکمل طور سے بدلے ہوئے حالات کا واضح ثبوت ہے۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی سے می نار کا جب دعوت نامہ موصول ہوا تو اپنے پڑوسی ملک کی دھرتی پر پروانہ وار پہنچنے کی سرشاری میں ہم خداے برتر کے خاص شکرگزار ہوئے کہ اپنی زبان سے محبت کے طفیل خدا نے کتنے جہان نواز دیے ہیں۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی میں سے می نار کا موضوع ’’معاصر دنیا میں اردو‘‘ عنوان سے مخصوص تھا۔ عنوان اس اعتبار سے بہت موزوں تھا کہ کسی بین الاقوامی سے می نار میں جہاں مختلف ملکوں سے لوگ آئیں، وہاں الگ الگ خطوں میں زبان و ادب کی جو صورت حال ہے، اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے جس سے یہ بات سمجھ میں آسکے کہ ہماری زبان کا دائرۂ کار وسیع ہورہا ہے۔ ڈھاکہ ایرپورٹ پر پہنچنے کے بعد ہی شعبۂ اردو کے طلبا نے استقبال اور میزبانی کے معیاری طور طریقوں کے جو نمونے پیش کیے، پانچ دنوں کے قیام میں اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ شہر کے قلب اور بیت المکرم مسجد کے بالکل سامنے ایک اچھے ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل اور ہوٹل سے یونی ورسٹی لے جانے کے لیے ڈھاکہ یونی ورسٹی کی گاڑیاں ہر وقت میسر تھیں۔

 افتتاحی اجلاس کے بعد سے می نار کا پہلا موضوعاتی جلسہ پروفیسر محمد محمود الاسلام، سابق صدر شعبۂ اردو، ڈھاکہ یونی ورسٹی کی صدارت میں ظہرانہ کے پہلے مقرر تھا۔ جس میں پانچ مقالہ جات پیش ہوئے۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے موجودہ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر محمد اسرافیل نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’دورِ حاضر میں اردو ادب کے بنگلہ تراجم‘‘ پیش کیا۔ پہلے مقالے سے ہی اس بات کا مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس سے می نار سے مجھے تو بہت کچھ حاصل ہونا ہے۔ ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ اردو کا جس قدر عظیم ادبی سرمایہ بنگلہ میں منتقل ہوچکا ہے، اس کے مقابلے ہماری مادری زبان میں بنگلہ کے تراجم کم ہیں۔ اردو کی مشہور کتابوں کے ترجمے کے باب میں جن نئی کتابوں کے نام سامنے آئے انھیں سنتے ہوئے ہمیں ایک خوش گوار احساس سے سابقہ پڑا۔ ڈاکٹر رشید احمد شعبۂ اردو ڈھاکہ یونی ورسٹی نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’بنگلہ دیش کے چند مشہور علماے کرام کی ادبی خدمات‘‘پیش کیا۔ یہ بھی ایک ایسا انوکھا موضوع تھا جس میں کئی طرح کی معلومات ازخود سامنے آرہی تھیں۔ اس موضوع سے متعلق شاید ہی ہماری علمی کتابوں میں چند صفحات لکھے ہوئے مل جائیں۔ راج شاہی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے سابق صدر پروفیسر لطیف احمد نے ’’عالمی تناظر اور بنگلہ دیش میں اردو کے مسائل اور امکانات‘‘ موضوع کو منتخب کیا تھا۔ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ اردو کی نئی بستیوں کی طرف بھی انھوں نے رُخ کیا اور اجمالی طور پر اُن چیلنجز کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی جن سے مقابلہ کیے بغیر بنگلہ دیش میں اردو کی ترویج و ترقی ممکن نہیں۔ انھوں نے تہذیبی و ثقافتی تبادلہ اور ایک دوسرے کے معاشرے کو علمی طور پرجوڑنے جیسے کارآمد موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔

ہندستان سے دو افراد اس اجلاس میں اپنے مقالوں کے ساتھ موجود تھے۔ کشمیر سے محترمہ حافظہ مظفر جو قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی کی معزز رکن ہیں، انھوں نے ’’عصرِ حاضر میں اقبال کے تصورِ خودی کی اہمیت‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ سے می نار کے مرکزی عنوان سے اس موضوع کا براہِ راست کوئی تعلق نظر نہیں آیا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اقبال جیسے عظیم فن کار پر ایک مختصر سا مقالہ پیش کرکے شاید ہی سے می نار کے شرکا کے علم میں اضافہ کیا جاسکتا تھا۔ خاکسار نے اسی جلسے میں ’’اردو کی کاروباری جہتیں : ہندستانی تناظر اور عالمی انسلاک‘‘ موضوع پر اپنے مقالے کی تلخیص پیش کی جس میں ہندستان اور پاکستان میں روزگار کے نئے ذرائع کس طور پر اردو کے طلبا کے ہاتھ میں آئے، اس سلسلے سے گفتگو کی گئی تھی۔ عالمی سطح پر اردو کے نئے شعبے اور مراکز کے بارے میں ہمارا یہ تاثر تھا کہ ہندستان اور پاکستان سے ادب، تہذیب اور ثقافت کا ایک زندہ رشتہ لازم ہے جس سے اردو بولنے والوں کے نہ صرف یہ کہ آفاق روشن ہوں گے بلکہ روزگار کے نئے وسائل بھی ازخود میسر آتے جائیں گے۔ اس جلسے کی صدارت پروفیسر محمد محمودالاسلام نے کی جو دورانِ نظامت بھی مقالہ خواں اصحاب کی ادبی و علمی خدمات کا گوشوارہ پیش کررہے تھے اور پھر صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے تمام مقالات پر اپنے مشاہدات درج کراتے ہوئے اس اجلاس کو کامیابی تک پہنچایا۔

ظہرانے کے بعد خاکسار کی صدارت میں دوسرا اجلاس شروع ہوا جس میں چھے مقالہ خواں حضرات شریکِ بزم تھے۔ ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی جیسے ممالک کی بنیاد پر اردو کا ایک عالمی منظرنامہ اس جلسے کے مقالہ خواں حضرات نے پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد محمودالاسلام نے ’’بنگلہ دیش میں اردو کی صورت حال‘‘ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ یہ مقالہ قیامِ بنگلہ دیش سے اب تک کے ادیبوں، شاعروں، محققین کی خدمات کا واضح خاکہ کھینچنے میں کامیاب تھا۔ پروفیسر محمود الاسلام نے اردو سے متعلق بنگلہ دیش میں موجود ادارے، اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ اس آبادی کی پہچان کرنے کی بھی کوشش کی جو بنگلہ دیش میں رہتے ہوئے اردو کو ایک علمی اور کاروباری زبان کے طورپر استعمال میں لاتی نظر آتی ہے۔ بہار کے پچیس لاکھ مہاجرین کے بارے میں بھی انھوں نے بتایا کہ تمام افراد اردو بولتے ہیں اور بنگلہ دیش کی اردو آبادی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پروفیسر محمد غلام ربانی، سابق صدر شعبۂ اردو، ڈھاکہ یونی ورسٹی نے ’بنگلہ دیش میں اردو افسانہ‘ عنوان سے ایک تعارفی نوعیت کا مضمون پڑھا جس میں کم و بیش عہدِ حاضر کے تمام قابلِ ذکرلکھنے والوں کی تحریروں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس جلسے میں دنیا کی مختلف آبادیوں میں اردو کے احوال کے پیش نظر بھی چند موضوعات مخصوص کیے گئے تھے۔

 یونی ورسٹی آف حیدرآباد کے استاد ڈاکٹر محمد زاہدالحق نے ’’بہار میں اردو کا مستقبل اور امکانات‘‘ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ بنگلہ دیش سے ہم سائیگی کے سبب اور بنگلہ دیش میں موجود اردو بولنے والے بہار کے افراد کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام کو اپنے پڑوسی ملک کے سب سے قریب کے صوبے میں اردو کی صورت حال اور ترقی کے امکانات کس طور پر سامنے آئے ہیں، اس کے بارے میں انھیں جاننے کی خواہش تھی جسے ڈاکٹر محمد زاہد الحق نے اپنے مقالے کا حصہ بنایا۔ انھوں نے بہار میں سرکاری زبان کے نفاذ سے پیدا ہوئی اچھی اور مشکل دونوں صورتوں کی تصویر کشی کی۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کی سب سے کم عمر استاد محترمہ حفصہ اختر نے ترکی کے شاعر اور ادیب خلیل طوقار کی شاعری کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا۔مجھے اپنے صدارتی خطبے میں یہ بات کہنی پڑی کہ اس مقالے سے قبل تک خلیل طوقار کی ناقد اور محقق کے طور پر شناخت سے میں واقف تھا لیکن بنگلہ دیش پہنچ کر مجھے ان کے دو شعری مجموعوں کی اشاعت کا بھی پتا چلا، اس کے لیے میں نے محترمہ کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ایسے بین الاقوامی سے می ناروں کا یہ اپنے آپ فائدہ ہوتا ہے کہ موضوع ترکی کا ہو، مقالہ خواں بنگلہ دیش کا اور استفادے کے لیے ہندستان کا ایک اردو طالب علم اسٹیج پر موجود ہو۔

  راج شاہی یونی ورسٹی کے اردو کے نوجوان استاد ڈاکٹر محمد شاہد الاسلام نے ’’پاک بھارت میں اردو کی صورت حال‘‘ کا گوشوارہ پیش کیا۔ اُن سے بنگلہ دیش اور ہندستان دونوں ملکوں کے بعض اصحاب نے سوال و جواب کے وقفے میں جرح کی اور ہندستان سے ڈاکٹر نعیم انیس اور ڈاکٹر محمد زاہد الحق نے ان سے یہ بجا طور پر شکایت کی کہ پاکستان کے ادب سے ہندستانی صورت حال کا انھوں نے جو موازنہ کیا ہے، وہ مبنی بر صداقت نہیں ہے اور غلط فہمیوں کے دروازے کھولنے کا باعث ہوگا۔ راج شاہی یونی ورسٹی کے اردو کے بزرگ استاد ڈاکٹر محمد حسین احمد کمالی نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’موجودہ دور میں عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کی صورت حال‘‘ پیش کیا۔ موضوعاتی اعتبار سے وسعت کی وجہ سے ڈاکٹر کمالی اپنے مخصوص موضوع پر مرتکز نہ رہ سکے۔ لسانیاتی اعتبار سے بعض پرانے اور منسوخ نظریات کو نئے عہد میں انھوں نے اردو کے تعلق سے نتیجہ خیز انداز میں پیش کرنا چاہا جس پر سوال و جواب کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ صدارتی تاثرات میں مجھے خاص طور پر اس سلسلے سے مداخلت کرنی پڑی کہ انھوں نے باسی معلومات پر تازہ نتائج اخذ کرکے مناسب کام نہیں کیا۔

  ڈھاکہ یونی ورسٹی کے بین الاقوامی سے می نار کے پہلے دن جو گیارہ مقالہ جات پیش ہوئے، ان میں سے کم از کم نصف ایسے ضرور تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئے علمی حوالوں سے لیس اور اردو کی عالمی حیثیت کے داعی تھے۔ اس سے می نار میں بین الاقوامی اعتبار سے مشہور و معروف اصحاب بھلے نظر نہ آئیں مگر اکثر مقالات اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے نظر آئے۔ بعض مقالہ جات تو معلومات کے اعتبار سے یکسر نئے اور انوکھے علمی علاقوں کی سیر کراتے ہوئے سامعین اور ماہرین دونوں کے علم میں اضافے کا سبب بنے۔ ہندستان کے روایتی سے می نار اور یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو کے انعقادات میں پڑھے جانے والے مقالوں سے بنگلہ دیش کے اس سے می نار کے مباحث زیادہ تازہ اور کارآمد تھے۔ صدر سے لے کر کسی مقالہ خواں نے ہماری یونی ورسٹیوں کے سے می نار کی طرح فضول گوئی اور وقت کاٹنے کے انداز کو روا نہیں رکھا جس کی وجہ سے ہر جلسہ وقتِ مقررہ پر شروع اور ختم ہوا۔ ایک نئے ملک اور بڑی مشکلوں سے مجتمع ہوئی اردو آبادی کا یہ انداز ہمیں اوّلاً حیرت میں مبتلا کرگیا۔ دعا ہے کہ اردو کے نئے نئے علاقوں میں ایسے خوش گوار احساسات سے ہمارا سابقہ بار بار پڑے۔۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔