ڈاکٹر ذاکر نائک اغیار کے نشانے پر

محمد وسیم

 اسلام کی پرامن دعوت کو عام کرنے والوں کے لئے راہیں پر خطر رہی ہیں ، ان کے خلاف کفار و مشرکین نے ہمیشہ مشکل حالات پیدا کئے ہیں ، تاکہ اسلام کی برتری کو ختم کیا جا سکے، کیوں کہ اسلام کی برتری کا مطلب ہے کفار و مشرکین کے لئے ذلت و رسوائی کا گهیر لینا، تاریخ گواہ ہے کہ داعیء اسلام کو وقت کے فرعونوں سے سامنا رہا ہے، مگر جس دعوت کو ڈاکٹر ذاکر نائک عام کر رہے ہیں ، اس کا محافظ اللہ، قرآن پاک کی سورہء صف آیت نمبر 8 میں فرماتا ہے کہ "وہ اللہ کے نور کو اپنی پھونک سے بجهانا چاہتے ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ تو اپنے نور کو دنیا میں پھیلا کر ہی رہے گا، اگرچہ کفار برا مانیں "۔ اس لئے جو بھی اسلام کی روشنی کو پھیلانے کے لئے نکلے گا، تو اس روشنی کو بجھانے کی لاکھوں کوششیں کی جائیں گی- کفار و مشرکین متحد ہو کر اسلام کو مٹانے کی کوشش کریں گے، مگر اسلام کی روشنی دنیا میں پھیل کر رہے گی، اسلامی تعلیمات ہر ایک تک پہنچ کر رہے گی، گو کفار کتنی ہی سازشیں کر لیں۔ آج دنیا ایک بار پھر اسلام کے خلاف برسرِ پیکار ہے، مسلمان رہنما ان کے نشانے پر ہیں ، جس کی ایک مثال ڈاکٹر ذاکر نائک کی ہے۔ جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی میڈیا، حکومت اور متعصب مسلمانوں کے نزدیک مجرم ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک ہندوستان میں انتہائی پرامن طریقے سے اسلام کی دعوت کو عام کر رہے تھے، پیس ٹی وی اور اسلامک ریسرچ فاونڈیشن نے کبھی بھی ملک مخالف میں حصہ نہیں لیا، کبھی کسی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی، مگر اس کے باوجود بھی وہ ہندوستانی حکومت کی نظر میں سب سے بڑا دہشت گرد ٹهہرے۔ جس ملک اور قوم کے جسم میں اسلام و مسلمان مخالف خون دوڑتا ہو، اس کے یہاں تو مسلمانوں کا ہر بچہ دہشت گرد ہی دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک محض مسلمان اور لا الٰہ الا اللہ کی دعوت عام کرنے کی وجہ سے دہشت گرد قرار دےء گئے ہیں۔ انهیں ہندوستان کی حکومت نے تو ان کے والد کے جنازہ تک میں شریک نہیں ہونے دیا، اس کے بعد بھی یہ جمہوری شیطان اپنے آپ کو انسانیت کا سب سے بڑا دعوے دار سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جانوروں اور کتوں کے مرنے پر پارلیمنٹ میں آنسو تو بہاتے ہیں – مگر مسلمانوں کے مرنے پر یہ کلمہء افسوس بھی نہیں کہتے، بلکہ انهیں تو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں جمہوری شیطانوں نے انسانیت اور ترقی کے نام پر مسلمانوں کی حالت کو چماروں سے بھی بدتر کر دیا ہے۔

ہندوستان کے قوانین میں ہر شخص کو اپنے مذہب کی تعلیمات عام کرنے کی اجازت ہے، مگر اسلامی تعلیمات کے فروغ سے انهیں دشمنی ہے، ہمارے آباء و اجداد نے ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کرنے کے لئے اس لئے قربانیاں دی تھیں کہ ہم خوشحال زندگی گزار سکیں ، اگر آج وہ زندہ ہوتے اور مسلمانوں کی حالت دیکھ لیتے تو جیتے جی مر جاتے تھے، انهوں نے آزادی کے لئے بے شمار قربانیاں محض اس لئے دی تھیں کہ مسلمان سکون کی زندگی گزار سکیں ، سچ تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ہمیں آزادی نہیں ملی- مگر اس کے باوجود بھی ہم ہر سال آزادی کی خوشیاں مناتے ہیں۔ پھر تو ایسی خوشی قابلِ افسوس ہے۔ جس خوشی کا اظہار ہم اپنے مسلمان بھائی کو دہشت گرد قرار دینے اور مسلمانوں کی خراب حالت کے باوجود بھی منائیں. اس لئے مسلمانوں کے خلاف ہو رہی سازشوں کے خلاف وقت رہتے ہوئے ہمارے اکابرین کو فیصلہ کرنا ہوگا. کیوں کہ آج ڈاکٹر ذاکر نائک نشانے پر ہیں تو کل ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف اغیار کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے بھی ہیں۔ جو اپنے زبان و بیان سے مسائل پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائک ملیشیا میں ہیں۔ تو اخبارات نے بھی وہاں پر ان کی موجودگی کا ذمہ دار ملیشیائی حکومت کو ٹھہرا کر دہشت گردی اور شدت پسندی کا الزام لگایا ہے، جو کہ انتہائی قابلِ افسوسناک ہے، خبر کے مطابق ہندوستانی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف ابھی تک سرکاری طور پر تحریری صورت میں ملیشیائی حکومت کو ان کی دہشت گردی سے متعلق آگاہ نہیں کیا ہے۔

قارئینِ کرام !  تاریخ اسلام کے صفحات پڑھنے کے بعد ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے کفار و مشرکین پر کبھی حملہ کرنے میں پہل نہیں کی، اور نہ تو کفار و مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف کوئی ثبوت ہی ملا، بلکہ انهوں نے ہمیشہ سازشیں اور دھوکہ کر کے مسلمانوں پر حملہ کیا ہے، جس کی ایک تازہ مثال ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف دنیائے کفر کا ایک ہوجانا ہے، ان کے تار کو حافظ سعید اور داءود ابراہیم سے جوڑا جا رہا ہے، جس میں میڈیا اہم کردار نبھا رہا ہے. ایک انتہائی پرامن شخصیت کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنانا، دہشت گرد قرار دینا، دوسرے ملکوں کے افراد سے تار جوڑنا، جس کے کوئی ثبوت نہیں ہیں. اسلام دشمنی کو صاف ظاہر کرتا ہے- سیاسی مفادات کے لئے وقت وقت پر ان کے نام کو استعمال کیا جاتا ہے، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-

آخر میں اپنی باتیں سمیٹتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک سال سے ڈاکٹر ذاکر نائک اغیار کے نشانے پر ہیں ، ان کو جلد از جلد گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس لئے ایسے نازک وقت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی سلامتی کے لئے ہم دعائیں کریں ، محض مسلکی دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کی جماعتیں اغیار کا ساتھ نہ دیں ، کیوں کہ کفار و مشرکین مسلمانوں کے کبھی بھی ہمدرد نہیں ہو سکتے…

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔