امام حسین رضی اللہ عنہ

الطاف جمیل شاہ ندوی

دس محرم کی آمد ہی وجہ  غم نہیں ہے یکم محرم بھی ہمیں غم و الم کی ایسی  داستان سنا گیا  ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں  بات ہے امام حسین رضی اللہ عنہ  کی جو نواسہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ہیں فاطمہ کے لال علی رضی اللہ عنہ  کی آنکھوں کی ٹھنڈک ذرا دیکھئے تو یہ مسجد نبوی میں اک بچہ جو لڑکھڑاتے  چل رہا ہے کبھی گرتا ہے تو کبھی چلتا ہے اسے معلوم ہے کہ اس کا نانا یہیں پر تو ہے اسی کے پیار کو پانے کے لئے آیا ہے نانا کی نظر کیا پڑی خود اٹھانے آگئے گود میں لے کر اپنی بات جاری رکھی۔

یہ معصوم کبھی گود میں تو کبھی کاندھے پر چلا جارہا ہے کائنات رشک سے دیکھ رہی ہے کہ سید المرسلین صل اللہ علیہ وسلم  کے شانہ مبارک پر سواری  صحابہ کرام رشک سے دیکھ رہے ہیں فاطمہ کے لال کا کیا کہنا اگر فاطمہ رضی اللہ عنھا نبی رحمت صل اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ہیں تو حسین تو دونون کے قلب و جگر  کا سکون ہیں باب العلم کی گود اور حسین  اصحاب صفہ کی بیٹھک اور امام حسین رضی اللہ عنہ  مسجد نبوی کے دروس اور امام حسین رضی اللہ عنہ  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت اور امام حسین رضی اللہ عنہ  ابن خطاب کا عدل و انصاف  اور امام حسین رضی اللہ عنہ  عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت  اور امام حسین رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ  کی شجاعت اور امام حسین رضی اللہ عنہ  حسین رضی اللہ عنہ کا کیا پوچھے یہ اس مکتب علم و عرفان کے فارغ التحصیل  ہیں  جہاں زمانہ رشک کرتا ہے جہاں کا فارغ دنیا کا امام بنتا ہے۔

زمانہ جن کی عظمت کا معترف ہے حسین رضی اللہ عنہ انہیں  کا شاگرد رشید ہے جس عدل و انصاف  کا ڈنکا بجا ہے اسی عدل و انصاف کا شیدائی ہے ان کی شجاعت کا کیا کہئے یہ تو شجاعت و جواں مردی کی مثال ہیں شجاعت تو ان کے طواف کرتی تھی پرہیز گاری  اسلام پسندی ان ہی کا تو خاصہ  ہے  بوڑھا بزرگ وضو کرنا نہیں جانتا دو بھائی جگر گوشہ رسول آگئے بڑھ کر وضو کرتے ہیں بوڑھا شخص ان کے وارے  جاتا ہے بیٹا میں نے سیکھ لیا۔

حسین رضی اللہ عنہ  کا نام آتے ہی یاد آتا ہے اس کے لبوں کے بوسے محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم نے لئے اس کا ماتھا چومنے والا محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم  خلفائے راشدین  کا نور نظر ان کی پرورش میں جوان ہوگیا مدینہ کی بہار بن گیازمانے نے کروٹ بدلی فتنوں کی آمد ہوئی مدینہ منورہ  مین کہرام مچا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کو دوران نماز شہید کیا گیا دنیائے اسلام کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ دوران نماز خلیفہ دوم کی شہادت کا  سانحہ پیش آیا  وہ بھی مسجد نبوی میں ابھی یہ زخم تازہ تھے کہ دوسرا سانحہ پیش  آیا  خلیفہ سوم  عثمان رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا وہی عثمان جس کی حیا  مشہور تھی جو زالنورین  تھے جو سخاوت میں معروف تھے جن کی سادگئی کا زمانہ معترف تھا ہائے یہ کیسا وقت آگیا کہ پانی پلانے والا پانی پینے کو ترس گیا وہ قرآن کے اوراق پر گر پڑا ان کی شہادت عالم اسلام  کے لئے زخم بن گیا  بس اب  فتنوں  کا  دروازہ کھل گیا  شجاعت و ہمت  کے کوہ گراں حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے ہمت و عظیمت  کا مظاہرہ  کرکے کوشش کی امت مسلمہ  کو سہارا دینے کی صدیق  و فاروق  کے زمانے کو لوٹانے کی پر وہ بدطینت آرام سے نہ بیٹھے انہوں نے علی رضی اللہ عنہ  کی شہادت کو بھی اک حقیقت بنا ڈالا اف یہ زمانہ غم کہ چار یار محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلے گئے آسمان و زمین  ترس رہی ہے اب تلک ان کے زمانے کوآہ وہ عدل و انصاف کے شیدائی وہ داعی قرآن  وہ اسلام کے چلتے پھرتے  تعارف کرنے والے وہ زہد و تقوی کے  نمونے وہ خوف الہی سے کانپنے والے وہ امن و امان  کے شہسوار چلے گئے زمانہ ان کو ترس گیا۔

اب حضرت حسن رضی اللہ عنہ  نے اک نئی روایت قائم کی امت کی بقا کے لئے  امت کی فلاح و کامرانی کے لئے اپنے حق سے دستبردار ہوگئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں  ان کی زندگی نے بھی وفا نہ کی  اب خانوادے نبوی علیہ السلام میں حسین رضی اللہ عنہ کی زات  ہی تھی جو مرجع خلائق تھی  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کے انتقال کے بعد اب یزید بن معاویہ  برسر اقتدار  ہوگئے جس کی بری عادات کے سبب امت مسلمہ کے صاحب علم کے ہاں اس کی زیادہ پذیرائی نہ تھی یہی سبب تھا کہ امت کے داعیان نے بیعت نہ کی گر چہ یزید نے سختی بھی کی پر نہ مانے ان میں کبار صحابہ کرام رضوان اللہ  تھے وہ ان سے خائف رہے پر خاموشی سے رہے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نے علیحدہ سے مکہ مکرمہ میں حکومت قائم کی  امام حسین رضی اللہ عنہ پر لوگوں نے نظریں تھیں پر انہوں نے بغاوت نہ کی کوفہ کے لوگوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ  کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی خطوط پر خطوط لکھے  آنے  پر مجبور کیا اپنی ایمانی  غیرت و حمیت  کا یقین دلایا ساتھ نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا  کیا کیا نہ بتایا  نانا کا واسطہ دیا والد مہربان کا واسطہ دیا اپنی مجبوریاں بیان کیں کس کس  طرح اپنی بات  کو نہ بتایا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ  مدینہ   منورہ سے  نکل پڑے ان قسمون اور وعدوں کے سبب اصحاب نبوی علیہ السلام نے روکا مت جائے پر انہوں نے جو زاد سفر باندھا تھا وہ باندھ کر کھولنا پسند نہ کیا  عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ پہنچے انہوں نے روکنے کے جتن کئے  پر امام حسین رضی اللہ عنہ  چل پڑے اصحاب نبوی علیہ  السلام جانتے تھے کوفہ والوں کی بے وفائیاں  پر یہ صالح مزاج امام ان کی باتوں پر یقین کرگیا مکہ سے باہر  نکل  آئے  بڑی امید سے پیچھے اپنے نانا کے وطن کو دیکھا اور بابا کی قیام گاہ  کی اور چل دے خانوادے نبوی علیہ السلام  کا یہ قافلہ کوفہ پہنچا تو حالات نے رنگ دکھانا شروع  کردیاعبد اللہ بن زیاد گورنر نے اب مشیروں سے بات کی امام حسین رضی اللہ عنہ  کی آمد کی بات ہوئی شقی القلب  مشیروں نے امام حسین رضی اللہ عنہ  کو باغی بتایا ان کی عظمت  و  رفعت  شان  میں گستاخی کن افسانے بتائے ابن زیاد جیسا جلاد اپنے من کی تسکین خانوادے نبوی علیہ السلام  کی تباہی سے کرنے پر تل گیا  شرم وحیا  سے عاری لوگ ان قدموں کو کاٹنے پر تن گئے جو قدم بارہا کائنات کے امام کے کاندھے پر چلا  کرتے تھے ان انگلیوں کو کاٹنے پر تن گئے جو انگلیاں  چومنے کے قابل تھیںہائے یہ کیا زمانہ ورطہ حیرت سے دیکھنے لگا کہ فاطمہ کا لاڑلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ  علی رضی اللہ عنہ  کے جگر کا ٹکڑا اک مصیبت میں پھنس گیا نانا کا کلمہ پڑھنے والے نواسے کی گردن کاٹنے پر تن گئے نانا کی شفاعت کی دہائی دینے والے نواسے پر تیر برسانے لگئے  نانا سے حوض کوثر کا جام  پینے کے متمنی نواسے کو پانی دینے سے انکار کرگئے  عظمت کی باتیں کرنے والے ذلت کی پستی میں گر گئے رب کے حضور تائب  ہونے کے متمنی اس کے پیارے پر غضب ناک ہوگئے قرآن کو ماننے والے داعی قرآن کے دشمن  ہوگئے زمین و آسمان  میں کہرام مچا یہ کون ہیں جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے نواسے کو یوں  تڑپا رہے ہیں۔

زمانہ دیکھ رہا تھا کہ اک شقی القلب انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کو کربلا میں زمین بوس کر رہا ہے ہائے یہ کیسا وقت آگیا کہ وہ ننھا جو مسجد نبوی میں لڑکھڑا رہا تھا تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہارا دیا اب زمین پر پڑا ہے بے یار و مدد گار جس کے لاشے پر جانے سے درندے جانے سے گھبرا  جاتے اس کے جسم پر ظالم زور آزما رہے ہیں وہ جو کسی کا نور نظر تھا زمین پر زخموں سے چور پڑا ہے وہ جس سے محبت  کا دم بھرتے تھے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم  وہ زمین پر خون میں ڈوب گیا ہے۔

تاریخ نے ایسی درندگئ کا منظر دیکھا جو اندوہ ناک منظر تھا جس سے سن کر دل تڑپ جاتے ہیں ہاں یہ ہماری تاریخ کا وہ المناک باب ہے جو تا قیامت بند نہ ہو سکے گا اور اس اندوہ  ناک الم  نے امت مسلمہ کو وہ زخم دئے ہیں جو اب بھی تروتازہ ہین اور اب تک یہ زخم انہیں شقی القلب افراد کے ہاتھوں امت سہہ رہی ہےدرس یہی ہے کہ امت مسلمہ  کے اندر ہی وہ درندے پل رہے ہیں جو زخم پر زخم دئے جارہے ہیں  امت مسلمہ کو  فاسق کی اطاعت گوارہ نہیں ہے  چاہئے وہ کتنا بھی قوت و  طاقت  کا  مالک ہو ظالم و جابر  غیر ہی نہیں اپنے بھی ہوتے ہیں  جن کی درندگئی و حیوانیت نے امت کو تباہ کیا ۔امت کی تباہی غیروں سے زیادہ اپنوں کی عنایت سے ہوئی ہے۔

شقی القلب  کلمہ پڑھ کر بھی زندیق  و فاجر ہی رہتے ہیں  وہ چاہئے صاحب اقتدار ہوں کہ وہ غلامان  اقتدار ہوں۔ آپ اپنا حق ادا کریں اور مسلسل جدوجہد ہی نوید فلاح ہے نہ کہ خاندانی مراسم اگر شہادت ہی منزل فلاح ہو تو پھر ججکنا کیسا اسے ہی گلے لگا لیں۔ کسی فریب خوردہ اور بزدل قوم پر تمہارا احسان  ہو تو ہو پر امید وفا اس سے نہ رکھنا۔

تبصرے بند ہیں۔