امام غزالی کی فارسی خدمات

حجتہ الا سلام امام ابو حامد محمدبن محمد الغزالی 054 ھ میں پیدا ہوئے۔ اور 505 ھ میں وفات پائی، گویا ان کا اصل کام کرنے کا زمانہ پانچویں صدی ہجری کا ہے۔ پانچویں صدی تک عالم اسلام کی علمی زبان عربی تھی، سارے تحقیقی اور سنجیدہ علمی مذاق کے کام عربی میں کیے جاتے تھے۔ اگرچہ مقامی زبانیں خاص طور پر فارسی اپنی جگہ بنارہی تھی اور اس وقت کئی حکمرانوں جیسے غزنوی حکمرانوں نے فارسی ادب کی سرپرستی اعلی پیمانے پر شروع کردی تھی لیکن علمی کام زیادہ عربی میں ہی ہوتے تھے۔ صرف ابھرتی ہوئی ریاستوں اور ایران کے سماجی منظر نامے میں فارسی مستحکم تھی اور اس لئے لوگ یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ عوام خاص طور پر عرب کے مشرق میں آبادپوری مسلم دنیا کو براہ راست مخاطب کرنے کے لیے عربی زبان کافی نہیں ہے بلکہ فارسی زبان زیادہ سود مند اور کارگر ہے۔ غالباً اسی لیے اس صدی میں تصوف کی معرکہ آراءکتاب ”کشف المحجوب “ لکھی گئی جس کا بنیادی مقصد عجم کو تصوف سے واقف کرانا تھا۔ اسی صدی میں شیخ الاسلام عبداللہ انصاری ہروی نے طبقات الصوفیہ تحریر کی اور چند ادبی کتابیں لکھی گئیں۔ اس سے قبل ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوںنے فارسی کو صرف تفنن طبع کے لیے اور شعر گوئی کے لیے استعمال کیا تھا، علمی کام کے لیے نہیں ۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس برہنہ حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:

امام صاحب کے زمانے تک فارسی کا لڑیچر ،عربی علوم و فنون کے فیض سے بالکل محروم تھا۔ ابن سیناءنے علائالدولہ کی خاطر سے فلسفہ میں ایک مختصر سی کتاب حکمتہ علائیہ کے نام سے فارسی زبان میں لکھی تھی لیکن دشوار ہونے کی وجہ سے متداول نہ ہو سکی اور اس لیے اس کی تقلید یا اقتباس سے فارسی زبان کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

شاعری میں بھی قصائد مدحیہ کے سوا کسی صنف کو ترقی نہیں ہوئی تھی، رزمیہ مثنوی اگرچہ سینکڑوں برس پہلے شروع ہوچکی تھی لیکن یہ کمان فردوسی نے اس حد تک زہ کی تھی کہ پھر کسی کو حوصلہ نہ ہوا “(الغزالی 4۔342)

امام غزالی نے بقول علامہ شبلی مجموعی طور پر 8 7کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی 87کتابوں میں صرف پانچ کتابیں فارسی زبان میں ہیں باقی سب عربی میں ہیں لیکن ان پانچ کتابوں کے اثرات نہ صرف علوم کے ارتقاءپر بلکہ فارسی زبان کے فروغ پر بڑے دور رس مرتب ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام غزالی نے فارسی ادبیات کے فروغ کا باب واکیا تو بے جانہ ہوگا۔ چوں کہ امام غزالی کی کتاب کیمیاءسعادت کے معاً بعد فارسی میں علمی و تحقیقی کتابوں کا چلن عام ہو گیا۔ اخلاق پر اخلاق ناصری، اخلاق جلالی اور اخلاق محسنی لکھی گئیں جو براہ راست کیمیاءسعادت کے اثرات ہیں۔ اسی عہد میں حکیم سنائی نے حدیقہ لکھی۔نظامی گنجوی نے خمسہ لکھی اور امام غزالی کے سو سال ہوتے ہوتے فارسی زبان میں ہر طرح کی علمی نثر ونظم کا آغاز ہو گیا۔ فرید الدین عطار، سعدی شیرازی اور مولانا روم نے فارسی زبان و ادب کو اس مقام تک پہنچادیا جہاں اس کا وجود بذاتہ قائم ہو گیا اور وہ مصر و شام کی قدیم زبانوں کی طرح ختم ہونے سے محفوظ رہی۔

علامہ شبلی نعمانی کو امام غزالی کی اس لسانی اہمیت کا احساس تھا ۔حالاںکہ انہوں نے اس کا اثبات پورے و ثوق کے ساتھ نہیں کیا ہے ،پھر بھی ان کا ایک طویل اقتباس ہے جس میں انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے:

”امام صاحب کے زمانے میں شاعری کے دریا کا بہاﺅ قصیدہ گوئی کی طرف تھا اور فلاسفہ کا سیلاب کرم اس کے زور کو اور روز بروز بڑھاتا جاتا تھا۔ امام صاحب کی بدولت جب فلسفہ اخلاق نے لٹریچر پر اثر ڈالنا شروع کیا تو گو ان کے قریب العصر شعراءمثلا میر معزی ، عبدالواسع جبلی، نظامی عروضی، لامعی کر مانی۔ انوری، ادیب صابر کے کلام میں کوئی جدت پیدا نہیں ہوئی لیکن ان کے بعد ہی شاعری کی درخت میں اخلاق کی شاخ پھوٹنی شروع ہوگئی یہاں تک کہ خواجہ فرید الدین عطار، مولانا روم، سعدی شیرازی کی آبیاری نے اس میں ہزاروں برگ و بار پیدا کر دیئے۔

ایک بڑا عظیم الشان اثر جو بالخصوص فارسی شاعری پر پڑا وہ تصوف کے مذاق کا شامل ہونا تھا۔ اس وقت تک اشعار میں شاعری کا اصلی جوہر یعنی جذبات انسانی کا اظہار بالکل نہیں پایا جاتا تھا اور اسی وجہ سے شاعری بالکل ایک صدائے بے اثر تھی ۔غزل گوئی اگرچہ شروع ہوگئی تھی لیکن چوںکہ اس کی بنیاد ایک خلاف فطرت جذبہ یعنی امرد پرستی پر رکھی گئی تھی اس لیے تاثیر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

امام صاحب نے جب فارسی زبان کو تصوف سے آشنا کیا اور فارسی لٹریچر کی رگ وپے میں صوفیانہ خیالات سرایت کر گئے تو شاعری میں بھی سچے جذبات اور احساسات آگئے ،خواجہ فریدالدین عطار نے جو اس طرز کے بانی تھے سادگی کے ساتھ صوفیانہ خیالات ادا کیے۔ عارف رومی نے اس میں گرمی پید اکی اور پھر سعدی و حا فظ و عراقی نے اس شراب کو قدرے تیز کر دیا ۔

          حر یفاں رانہ سر ماندو نہ دستار

غرض فارسی شاعری میں تاثیر کا جو نشہ پیدا ہوا وہ تصوف کی بدولت ہوا اور تصوف کا مذاق جو زبان میں آیا وہ امام غزالی کی بدولت آیا ۔ (الغزالی )

علامہ شبلی نعمانی کے اس اقتباس میں واضح طور پر یہ اعتراف موجود ہے کہ فارسی زبان کے فروغ اور فارسی میں علی نثر اور با مقصد نظم کا آغاز امام غزالی کی کاوشوں کا رہین منت ہے۔

اس موقع پر ایک بات اور یاد رکھنی چائیے کہ امام غزالی کے عہد تک آتے آتے مسلم دنیا میں طوائف الملوکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ،بغداد کی حکومت برائے نام رہ گئی تھی اور مشرق اور مغرب میں خود مختار حکو متیں قائم ہوچکی تھیں۔ ایران پر ایک ترکی خانداں سلجوقی کی حکمرانی تھی، جس میں ملک شاہ سلجوقی سب سے مشہور حکمراں ہوا ہے ۔ ان مقامی حکومتوں کی وجہ سے بغداد کے مشرقی علاقوں میں فارسی زبان کا چلن عام تھا اور بادشاہ سے لے کر رعیت تک سب کے لیے رابطہ کی زبان فارسی ہی تھی، امام غزالی نے بھی اپنی عوامی اہمیت کی کتابوں کو اس لیے فارسی زبان میں لکھا ،اور اس لئے امام غزالی کے خطوط بالعموم فارسی ہی ہوتے تھے ۔

امام غزالی کے تصنیفی کام بامقصدر ہے ہیں۔ ان کی تصنیفات محض ذوق تصنیف کی تسکین کے لیے نہیں تھیں۔ اس لیے ان کی عربی کتابوں میں بھی زبان بڑی سلیس اور رواں نظر آتی ہے، خاص طور پر احیاءالعلوم تو سادہ عربی نثر نگاری کا ایک شاہکار ہے۔امام غزالی کی یہ خوبی ان کی فارسی میں بھی نظر آتی ہے۔فارسی بھی بڑی سیلس اور سادہ لکھتے تھے۔ فارسی میں پرتکلف عبارت آرائی کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ امام غزالی نے ایسے مواقع پر اسلوب نگارش سادہ ہی رکھا ہے ،اس کی مثالیں ان کے خطوط میں بکثر ت ہیں فارسی زبان و ادب کے فروغ میں امام غزالی کی خدمات پر مصنفینکی توجہ کم رہی۔ دوسری طرف خود امام غزالی کی شخصیت اتنی بھاری بھر کم ہے کہ ان کی عربی تصنیفات اور ان کے موضوعات ایسے ہیں کہ ان کا فارسی ذخیرہ نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ اس لیے کسی نے اس کی کوشش نہیں کی کہ فارسی زبان میں ان کا مقام و مرتبہ متعین کرے۔

فارسی میں امام غزالی کی تصنیفات کو دیکھیں تو ان میں صرف کیمیائےسعادت با ضابطہ تصنیف ہے۔ کیمیاءسعادت انہوں نے احیاءالعلوم کے بعد لکھی اور اگر اس کو فارسی کی احیاءالعلوم کہا جائے تو شاید ناموزوں نہ ہو۔ امام غزالی کے بعض سوانح نگاروں نے بھی اسی طرح کے اشارے بھی کیے ہیں۔ اور کیمیا سعادت کے مقدمے میں خود امام غزالی نے فرمایا ہے :

میں نے یہ کتاب فارسی جاننے والوں کے لیے لکھی ہے۔ اس لئے کوشش کی ہے دقیق اور پیچیدہ معانی سے گریز کروں تاکہ عام لوگ اس کو سمجھ سکیں۔ اگر کوئی مزید تحقےق کرنا چاہے تو وہ احیاءالعلوم اور جواہر القران جیسی عربی تصنیفات سے رجوع کرے۔ یہ کتاب عوام کے لےے لکھی گئی ہے۔ اس لےے فارسی زبان میں لکھی تا کہ عوام اس کو سمجھ سکیں اور ان کے لئے کوئی دشواری نہ ہو۔

 امام غزالی نے اس کتاب کو چار عنوان اور چالیس اصلوں میں تقسیم کیا ہے ،عنوانات کی تقسیم کا انداز بڑا دلچسپ ہے ،انہوں لکھا ہے کہ اسلام کے مطابق انسان کی اصلاح کے چار پہلو ہیں ،دوکا تعلق ظاہر سے ہے اور دوکا تعلق باطن سے ہے ،جن کا تعلق ظاہر سے ہے وہ یا تو خدا اور بندے کے تعلق کے بارے میں ہیں یا بندے اور بندے یعنی انسانوں کے تعلق کے بارے میں۔ اول کو عبادات کہتے ہیں اور دوسرے کو معاملات کہتے ہیں۔

جن چیزوں کا تعلق ان کے باطن سے ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں یا تو ان کا تعلق فضائل اخلاق سے اور یہ مطلوب ہے کہ انسان ان اخلاق سے متصف ہو اس کو منجیات کہتے ہیں یا ان کا تعلق رذائل اخلاق کی اصلاح ہوتا ہے جن کو مہلکات کہتے ہیں۔ اس طرح اس کتاب میں چار ارکان یا اصول سے یعنی عبادات ،معاملات منجیات اور مہلکات کے تحت گفتگو کی ہے اور مقدمہ کو بھی چار عنوانات میں تقسیم کیا ہے یعنی خود شناشی خدا شناشی، دنیا شناشی اور آخرت شناشی۔

کیمیاءسعادت، احیاءالعلوم کے بعد امام غزالی کی سب سے مقبول کتاب ہے۔ خود امام غزالی نے اس کو دو جلدوں میں لکھا تھا۔ بعد میں دو جلدوں میں بھی شائع ہوتی رہی اور ایک میں بھی اس کتاب کے اثرات فارسی زبان اور علم اخلاق دونوں پر بڑے نمایاں ہیں۔ بر صغیر ہند میں اس کتاب کے متعدد ترجمے ہوئے ۔

اور دیگر زبانوں خاص طور پر انگریزی ،عربی ،ترکی ،اطالوی ،بنگالی ،اور مالی زبانوں میں اس کے تراجم معروف ہیں ۔

2۔ نصیحة الملوک

کیمیا سعادت کے بعد نصیحة الملوک امام غزالی کی اہم فارسی تضیف ہے ،یہ کتاب دراصل ایک خط ہے جو انہوں نے ملک شاہ سلجوقی یا سلطان سنجر کے نام لکھا تھا ۔اس کتاب کے سلسلے میں محققین نے کئی اختلافات درج کیے ہیں۔ مرحوم جلال ھمائی نے اس کو ایڈٹ کیا ہے اور مقدمہ میں ان اختلافات کاذکر کیا ہے۔ مثلاً اکثر محققین کا خیال ہے کہ اس میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے حالات اور عورتوں کے اوصاف سے متعلق ابواب الحاقی ہیں یا مثلاً اس کا مخاطب ملک شاہ ہے یا سلطان سنجر ہے وغیرہ ۔

چوںکہ بادشاہ کی زبان فارسی تھی اس لیے امام غزالی نے یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی بعد میں اس کا عربی ترجمہ ہوا ۔اس کتاب میں پہلے اسلامی عقائد بیان کئے ہیں پھر ایمان کی دوشاخیں قراردے کر حق اللہ اور حق العباد کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد بادشاہ کا منصب اس کی ذمہ داریاں اور ان ذمہ داریوں کو صحیح طرح ادا کرنے کے لیے ہدایا ت لکھی ہیں۔

یہ کتاب پہلے عربی میں ترجمہ ہوئی یعنی پھر انگریزی اور اردو میں اس کے ترجمہ ہوئے ۔

3۔ پندنامہ

پند نامہ دراصل ایک طویل خط ہے جو کسی بادشاہ کے لیے لکھا گیا ،بادشاہ نے امام غزالی کو خط لکھا اس میں بڑے القاب و آداب استعمال کیے۔ مثلا امام غزالی کو اس طرح مخاطب کیا۔ یگانہ عصر ، اے فرید دھر ،اے قطب سالک ،اے حی مسالک ،اے نجم زاھر، اے شمع ظاہر، اے خواجہ انام، اے حجتہ الاسلام ،اگرچہ آپ نے احیاءالعلوم ،جو اہر القران اور کیمیاءسعادت وغیرہ میں ہم جیسوں کے لیے بڑی نصیحتیں لکھ دی ہیں تاھم یہ گذارش ہے کہ کیمیا اور احیاءمیں کچھ ابواب آسان زبان میں میرے لیے لکھ دیں تاکہ میں ان کے مطالعہ سے مشرف ہو سکوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی برکت سے میرا باطن صاف ہو جائے اور طبعیت غدار دنیا سے سرای جاوید دار القرار کی طرف راغب ہو جائے ۔

امام غزالی نے اس خط کے جواب میں یہ کتاب تصنیف کی ۔

4۔نصیحت نامہ

نصیحت نامہ وہی کتاب ہے جو عربی میں ایہا الولد کے نام سے مشہور ہے یہ کتاب پہلے فارسی میں لکھی گئی پھر خود امام غزالی نے ہی عربی میں لکھی ۔

5۔ زاد آخرت

زاد آخرت بھی امام غزالی کی اہم کتاب ہے ۔امام غزالی نے اس کے مقدمہ میں خود لکھا ہے کہ ایک صاحب نے درخواست کی کہ کیمیاءسعادت مشکل کتاب ہے آپ میرے لیے ایک آسان کتاب لکھ دیں اس لیے میں نے بدایة الہدایة کے مضامین کو فارسی زبان میں منتقل کر دیا، اس کتاب کے متعدد نسخے موجود ہیں ۔

6۔فضائل الا نام من رسائل حجتہ الاسلام ۔

امام غزالی کے خطوط کا مجموعہ ہے یہ مجموعہ ان کے کسی شاگرد نے جمع کیا اس میں پانچ ابواب ہیں ۔

باب اول        درنامہ ھای کہ بہ ملوک و سلا طین نوشتہ،  4

باب دوم                  نامہ ھای کہ یہ وزرا نوشتہ     41

باب سوم                 نامہ ھای بہ امراءوار کان نوشتہ    5       73

باب چہارم     نامہ ھای یہ فقہا و ائمہ دین نوشتہ       7

باب پنجم                 در فصول و مواعظ ہر وقت     7

یہ مجموعہ کئی اعتبار سے بہت اھم ہے ایک تو اس میں امام صاحب کے عہد کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کا آئینہہے ،دوسرے اس میں امام غزالی کی سماجی خدمات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ امام غزالی اور حکمرانوں کے روابط کا آئنہ دار بھی ہیں۔

نثری تصنیفات کے علاوہ امام غزالی فارسی میں شعر بھی کہتے تھے ،علامہ شبلی نے لکھا ہے:

امام صاحب اگر چہ شاعر نہ تھے لیکن چوںکہ زمانے کا اقتضاءاور لطف طبعیت دونوں باتیں جمع ہو گئی تھیں اس لیے چپ بھی نہ رہ سکتے تھے، اس زمانے میں شاعری کے انواع میںدو صنف نے نہایت ترقی کی تھی۔ قصیدہ اور رباعی ،لیکن قصیدہ مدح اور خوشامد کے لیے مخصوص ہوگیا، اس لیے وہ امام صاحب کے شایان شان نہیں تھا ۔

البتہ رباعی ان کے مذاق کے موافق تھی ۔امام صاحب کبھی کبھی کچھ کہتے تو رباعی کہتے۔

یہ عجب بات ہے کہ امام صاحب کا فارسی زبان میں جس قدر کلام ہے حقائق و معارف سے پُر ہے اور ان کی عظمت و شان کے مناسب ہے۔ ان کی ایک رباعی یہ ہے ۔

کس را پس پر دہ قضا راہ نشد

وزسر قدر ہیچ کس آگاہ نہ شد

ہر کس کہ زسر قیاس چیزے گفتند

معلوم نگشتہ و قصہ کوتاہ شد

خلاصہ یہ کہ امام غزالی کے عہد تک فارسی زبان بطور ایک علمی زبان کے ابھر نے لگی تھی اور بعض اہم کتابیں لکھ کر امام غزالی نے فارسی کے فروغ وار تقاءمیں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔