مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں- اعداد و شماراور ہمارا لائحہ عمل

 4 مئی کودہلی پولس کی اسپیشل سیل نےجس طرح سےدہشت گردی کافرضی الزام لگاکر دہلی،این سی آراوردیوبند سے13مسلم نوجوانوں کو ممنوعہ تنظیم جیش محمد کیلئےکام کرنے،دھماکہ خیز موادتیارکرنے اورمجرمہ سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا،تیرہ میں 9 کی گرفتاری دہلی این سی آر سےکی گئی جبکہ چار کی گرفتاری دیوبند سےدکھلائی گئی ہے، تین کوعدالت میں پیش کیا گیا بقیہ نو سےحراست میں تفتیش جاری ہے، اس خطرناک وحیران کن واقعہ کےبعد سےمیڈیا کو دوہرا رویہ اور دوغلی پالیسی کھل کرسامنے آگئی، ملک کے سبھی موقر چینلوں نے اس کو لیڈنگ نیوز بناکرگھنٹوں گھنٹوں نشرکیا، دیوبند اور دہلی سمیت ملک بھر کے مسلمان ایک مرتبہ پھر دہشت زدہ اور تشویش زدہ ہوگئےہیں، کیونکہ ۱۰ سے ۱۵ سال کے بعد ان محروسین کویقینی طور پر باعزت رہائی مل جائےگی، لیکن اس دورانیہ میں گرفتارشدگان کے اہل وعیال اور متعلقین کوشکوک وشبہات، لعن وطعن اورتحقیق و تفتیش کی صورت میں جس قیامت خیز عذاب سےگزرنا پڑے گا۔ اس کاتصوربھی نہایت بھیانک اور تکلیف دہ ہے، شاکر ریہڑی لگاکر گھرچلانےوالا توساجد مزدوری کرتا تھا، دودھ سےجلنے والاہاتھ اب بم سے جل گیاہے، پنج وقتہ نمازی مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ فی الحال ماسٹرمائنڈ ملک غدار بنادیئےگئےہیں، آزادی کے بعد سے ہی ہمیں جن حالات سےگزرنا پڑا ہے،ان میں سے سب سے جان لیوا، تباہ کن اورنسل کش، مایوس کن فرقہ وارانہ فسادات اور قوم کے Cream Power کی فرضی گرفتاریاں  ہے، آزادی کے 68 برس گذرجانے کےباوجود زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کوان کےبنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں ہرشعبہ حیات میں نظرانداز کیا گیا۔ تعلیم، روزگار، تجارت اورکاروبارمیں ناانصافی کو جاری رکھا گیا۔ اس پرستم بالائےستم انہیں فسادات کے ذریعہ محروم اور کمزور کیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی 65 سالہ تاریخ میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف تقریباً50 ہزارفسادات کروائے گئے۔ ایسے فساد بھی رونما ہوئے جسے تاریخ ہرگز بھلا نہیں سکتی، مراد آباد، ہاشم پورہ، ملیانہ، روڑکیلا، جمشید پور، بھیونڈی ممبئی، گجرات، اجمیر، احمد آباد و مظفرنگر کے فسادات رونما ہوئے۔ مسلمانوں پرفرقہ پرستوں کے ظلم وبربریت کے بعد فرقہ پرست پولیس جوانوں نے مسلمانوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیاں ماریں، انڈیا میں جتنے بھی فسادات رونما ہوتے ہیں اس میں مسلمانوں کودو محاذوں پرلڑنا پڑتا ہے، فساد کےبعد جب پولیس آتی ہے تو اکثریت کو روکنے کے بجائے الٹا اقلیتوں پر ظلم کرتی ہے۔ ملک بھر میں فسادات کے بعد تقریباً 45 تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئےگئے لیکن تمام انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ کو برف دان کی نذر کردیا گیا۔ ممبئی کے فساد کےبعدجسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ 31 پولیس عہدیدار قتل اور لوٹ مار میں ملوث تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، مہاراشٹرا کے فسادات میں پولیس جوان بھی شامل تھے، جہاں تک بات مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں کاہےتوبھارت میں مسلمان کل آبادی کا 14.2فیصد ہیں،2011ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباَ 24کروڑ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ افسوس سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود تعلیمی، سماجی، سیاسی و معاشی لحاظ سے دلتوں سے بھی بدتر ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ بھارتی حکومتوں سمیت دیگر سرکاری اداروں کا وہ متعصبانہ رویہ ہے جو گزشتہ 68 سالوں سے مسلم طبقے سے روا رکھا گیا ہے، اسی مسلم دشمنی اور تعصب کی بنیاد پرآج بھارتی جیلوں میں بند قیدیوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے  زیادہ ہے۔ 14  فیصد آبادی کے تناسب سے 22 فیصد مسلمان غیر قانونی طور پر سلاخوں کے پیچھے ہیں جہاں انہیں انصاف ملنے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔  ایک اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں، ذراسوچئےکہ ایک مسلمان 20سال جیل میں رہتا ہے اس کے بعد عدالت اسے بے گناہ قرار دے دیتی ہے، کسی کا کیریئرڈوب جاتا ہے کسی کا خاندان بکھرجاتا ہے ان کے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں اور جب وہ گھر واپس لوٹتے ہیں تو سوائے مایوسی اندھیروں کےسوا انہیں کچھ نہیں ملتا۔ پرانی دہلی کےمحمد عامر کی کہانی ہو یا مفتی عبد القیوم اور مفتی اقبال کی یا پھران جیسے ہزاروں بے گناہ اسیروں کی، سب ان افسران کےتعصب و انتقامی مزاج کو واشگاف کرتے ہیں، عامر ہی کے مطابق وہ پائلٹ بنناچاہتے تھے، مگر ان کے خوابوں کی پرواز اس وقت زمین پر آگئی جب انہیں چودہ سال کی عمر میں گرفتار کرلیا گیا تھا اورانہیں 14سال تک ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا پڑی،عامر وہ شام آج بھی نہیں بھولے ہیں جب وہ اپنی والدہ کیلئے دوائی لینے گھر سے نکلے تھے۔ ان کاکہنا ہےکہ اسی دوران پولیس نے انہیں راستے سے ہی حراست میں لے لیا۔ بعد میں ان پر بم دھماکے کرنے، دہشت گردی کی سازش رچانے اور غداری جیسے سنگین الزامات عائد کردئیے گئے۔ 18سال کی عمر میں عامر پر مقدمات قائم کئےگئے۔ ان کی قانونی جنگ 1998ء سے 2012ء تک چلی اور آخر کار فروری 2012ء میں عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا۔ جیل میں عامر کے 14سال ہی نہیں گزرے زندگی کا ایک قیمتی حصہ جیل کی کال کوٹھڑی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو ان کےوالد کا انتقال ہوچکا تھا۔ صدمہ میں ڈوبی ان کی والدہ کچھ بول نہیں سکتی تھیں، یہی نہیں بلکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے تحت بھارت کے کل قیدیوں میں  28.5 فیصد اقلیتی قیدی جیلوں میں بند ہیں۔ 22فیصد مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔ سکھ اقلیتی طبقےکا تناسب 4 فیصد اور عیسائی 4 فیصد ہیں، مزید بتایا گیا ہے کہ 6فیصد مسلمان،1فیصد سکھ اور 1.2فیصد عیسائی قیدیوں پر یہ الزام طے ہو پایا ہے۔ باقی 14فیصد مسلمان 2 فیصد سکھ اور 3فیصدعیسائی انڈر ٹرآئل ہیں، بے گناہوں کی رہائی کے لئے بنائی گئی تنظیم رہائی منچ کےبانی اور لکھنؤ کے ایڈووکیٹ شعیب اس وقت یوپی کے عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کررہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ان کے 6 مقدمات میں سے 4 نوجوانوں کو رہائی مل گئی لیکن ان کی زندگی کے اہم 7سال جیل میں ہی گزر گئے، انہوں نے مزید کہا کہ خالد مجاہد اورحکیم طارق کے بھی وہی وکیل ہیں۔ اس معاملے میں اترپردیش حکومت نے مینشن کمیشن بھی تشکیل دیا تھا کمیشن نے دونوں نوجوانوں کو بے گناہ قرار دے دیا تھا۔ واضح رہے کہ خالد مجاہد دوران حراست پولیس تشدد سے موت واقع ہوچکی ہے۔ حکیم طارق ایک دوسرے کیس میں قید ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن اور کتاب ”کافکا لینڈ“ کی مصنفہ ‘منیشاسیٹھی”کہتی ہیں کہ بھارت کاانصاف کا نظام غریبوں و اقلیتوں کے لئےنہیں ان کےخلاف ہے، پولیس تفتیشی ایجنسیاں بھی غیر جانبدار نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک مسلمان بیس سال جیل میں رہتا ہے۔ اس کے بعد عدالت اسے بے گناہ قرار دے دیتی ہے۔ ایسوسی ایشن فارپروٹیکشن آف سول رائٹس کے اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ جیل ہی ایسی جگہ ہے جہاں اقلیتی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ انتظامہ کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست بھی ہے۔ اخلاق احمد 2012ء کے سپریم کورٹ کے اس خاص کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں جہاں جسٹس ایچ ایل واتو اور جسٹس سی کے پرشاد کے دو رکنی بنچ نے گجرات کے شہر احمد آباد میں 1994ء کی دہشت گردانہ کارروائی کے ایک کیس میں گیارہ ملزموں کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو اس کے مذہب کی بنیاد پر ستایا جائے۔ جیلوں میں آبادی کے تناسب سےزیادہ مسلمانوں کی موجودگی اور پھر دس برس کے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پرعدالت سے برات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص مشن کے تحت کیا جارہا ہے، اعلیٰ حکومتی اداروں، پولیس فورسز اورتفتیشی ایجنسیوں میں ایسے مخصوص ذہنیت رکھنے والے افسران موجود ہیں، جن کااصل مقصد صرف اورصرف مسلمانوں کا استحصال ہے، ثبوتوں کےبغیر مسلم نوجوانوں کو ٹارگیٹ بنانا تفتیشی ایجنسیوں کا محبوب مشغلہ ہےاورحد تو یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کے جھوٹے مقدمات سے بری ہونے پربھی ان کی زندگی کے کھلواڑکرنے والوں کی کوئی سرزنش نہیں کی جاتی، مسلمانوں کیلئے انصاف کی آخری امید عدالت کو اس جانب توجہ دی جانی چاہئے کیونکہ بھارت میں سیکولر آئین کےمطابق کسی شخص کو اسی وقت سزا دی جاسکتی ہے کہ لگایاگیا الزام بھی ثابت ہوجائےچنانچہ مقدمہ چلائے اورصفائی پیش کئے بغیر کسی کوسزا نہیں دی جاسکتی لیکن حالیہ برسوں میں جس طرح تمام دستوری تقاضوں کو پامال کرکےاوران کی دھجیاں اڑاکرمسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں ہندوتوا ذہنیت، آئینی اور تفتیشی اداروں میں جس طرح سرایت کرگئی ہے اس نے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیتی طبقے پر عرصہ حیات تنگ کردیاہے۔ قتیل کے قتل سے لے کر خالد مجاہد کی پراسرار موت کے واقع میں یہی بھگوا ذہنیت کارفرما ہے۔ فرقہ پرست عناصر اور متعصب افسران اس میں پیش پیش ہیں۔ انہیں عناصر کے ہاتھوں مسلمانوں کونشانہ بناکر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک یہاں تک کہ انہیں موت کے گھاٹ تک اتار دینا ایک عام روایت سی بن گئی ہے۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں 45 فیصد، مہاراشٹر میں 36 فیصد، گجرات میں مسلم آبادی صرف 6 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کا تناسب22.4 فیصد ہے۔ دہلی میں مسلمان 12 فیصد جبکہ جیلوں میں 23 فیصد ہیں اسی طرح جموں و کشمیر مدھیہ پردیش، پانڈوچری اورسکم سمیت ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں مسلمان قیدیوں کی جیلوں میں شرح زیادہ ہے۔ لیکن حیرت انگیزطورسب کاساتھ سب کا وکاس والے مودی کےگجرات ماڈل میں سب سے زیادہ مسلمان قیدہیں، دوسری جانب جیلوں میں قید مسلمان ہی متعصب اور مسلم دشمن پولیس افسروں کےتشدد کاشکار بنتے ہیں۔ تفتیشی ایجنسیوں کے فرقہ پرست افسران زیر حراست مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی غیر انسانی سلوک روا رکھنےسےنہیں چوکتے۔ جیلوں میں مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے حوالہ سے یوپی کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس کا یہ سنسنی خیز انکشاف بہت اہمیت رکھتا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کےذریعہ بےقصور مسلم نوجوانوں کو خفیہ مقام پر رکھ کران کےساتھ جانوروں سے بدترسلوک کیا جاتا ہے۔ سابق آئی جی نےمزید بتایا تھاکہ 32برسوں کی ملازمت میں انہوں نے مسلمان قیدیوں پرتشدد کے بے شمار واقعات دیکھے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تفتیشی ایجنسیاں مسلم نوجوانوں کو اغوا کر کے خفیہ مقام پررکھتی ہیں تاکہ آنے والے وقت میں کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کی صورت میں انہیں”ملزم“ کے طور پر پیش کیاجاسکے۔ اسی لئے تو بھارت کےکسی بھی حصے میں کوئی بم دھماکہ ہوتا ہےتو مسلمان نوجوانون کو فوری میڈیا کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سابق آئی جی کےمطابق خالد مجاہد اور طارق قاسمی کو جب گرفتار کیاگیا تو ان کے پاس سے کوئی دہشت گردی کا مواد برآمد نہیں ہوا تھا۔ متعلقہ پولیس افسر نے ان سے پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کیاتھا کہ روپئےادا کریں گے تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی جگہ کسی دوسرے کو اٹھالیا جائے گا، اندازہ کیجئے ان افسروں کی فرقہ پرستانہ ذہنیت اور انتہا پسندی کا کہ سابق آئی جی کا یہ انکشاف منظر عام پر آچکا ہے کہ قید کے دوران مسلم نوجوانوں کو خنزیرکاگوشت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان پر ظلم و ستم کی انتہا کردی جاتی ہے۔ سینٹر فارہیومن رائٹس اینڈ لاء سے تعلق رکھنے والے وجے ہلمیٹ ممبئی کی مختلف جیلوں میں گزشتہ کئی برسوں سے کام کررہے ہیں۔ وجے ہیلمیٹ کا کہنا ہے کہ ممبئی کی جیلوں میں تقریبا چالیس فیصد مسلمان قید ہیں۔ بھارتی معروف صحافی پرفل بدھوائی کے مطابق بھارت کی ذیلی عدالتوں اور محکمہ پولیس میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے جس بنا پر مسلم برادری سے انصاف نہیں ہوپاتا ہے۔ پچھلے برسوں سے ٹاڈا اور پوٹا جیسے کالے قوانین کےتحت مسلمانوں کوحراست میں لینے کا سلسلہ مزید منظم طریقہ سے جاری ہے۔ ان کا مزید کہناہے کہ جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہےتو سب سےپہلےتفتیش کے لئےمسلمانوں کو ہی پکڑا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کےکارکن گوتم نولکھا کہتے ہیں کہ مسلمانوں کےخلاف امتیازی سلوک ایک عام بات ہےاور یہ پولیس کا دوہرا معیارہی ہےکہ ایک برادری کو جیل میں رکھا جاتا ہے اور دوسری کو سنگین سے سنگین جرم میں بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گوتم نولکھا کا کہنا ہے کہ اس قسم کی بے انصافی ختم کرنے کیلئےانتظامیہ اورپولیس کو جواب دہ بنانےکی ضرورت ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ حق معلومات میں صاف کہاگیا ہےکہ یہ اعدادو شمار مسلمانوں کی دہشت گردی کےالزامات کے تحت گرفتاری سمیت دیگر چھوٹے موٹے اور سنگین جرائم کےتعلق سے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد کی فراہمی کے لئےمتحرک شخصیت گلزار اعظمی کےبقول مہاراشٹر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں 50فیصد سےزائد ایسے مسلم قیدی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جنہوں نے اپنے جرائم کی سزاؤں کی میعاد تو پوری کرلی ہے مگر عدالت کی طرف سے ہزاروں روپئے جرمانہ ان پر عائد ہے اس رقم کی عدم ادائیگی پروہ سزاپوری کرنےکے باوجود ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہی ہیں۔ بھارتی قومی ادارے انسداد جرائم بیورو کے ریکارڈ کے تحت ہندوستان بھر کی 30سے زیادہ جیلوں میں مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں بھارت کی سیکولر ذھنیت رکھنے والی ریاستی حکومتوں اوربھگوا قیادت والی ریاستی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، ایک طویل عرصے تک بایاں محاذ کا قلعہ رہنےوالے مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر پابند سلاسل ہے، جنہیں دہشت گردی سمیت مختلف مقدمات میں زیر حراست رکھا گیا ہے، واضح رہےکہ بی جے پی سے قبل مغربی بنگال میں کبھی کوئی فرقہ پرست پارٹی اقتدار میں نہیں رہی، بھر بھی مسلمان انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، مہاراشٹر میں ہرتیسرا اوراترپردیش میں ہر چوتھا مسلمان جیل کی کال کوٹھری میں بند ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ حالات بالکل ایسے ہیں جیسے امریکہ میں سیاہ فام قیدیوں کے ہیں۔ امریکی جیلوں میں قید 23لاکھ افراد میں سے تقریباَ نصف تعداد سیاہ فام قیدیوں پر مشتمل ہےجبکہ آبادی میں ان کا حصہ 13فیصد ہے۔ ہندوستان میں پولیس بے لگام ہوچکی ہے۔ وہ کھلے عام حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کرتی ہے لیکن جوابدہ کسی کو بھی نہیں۔ مسلم اقلیتی طبقے کو خوف وہراس میں مبتلا رکھنا، انہیں شک کی بنیاد پر گھروں سے اٹھا لینا معمول بن چکا ہے، کوئی بھی بم دھماکہ یا مڈبھیڑ ہوتا ہےواقعہ ختم ہونے سے پہلے ہی مجرم کومسلمان بنادیا جاتاہے، ایف.بی.آئی کے تازہ رپورٹ کےمطابق USA میں ۱۹۸۰ سے آج تک ہونے والے بم دھماکوں کےملوث 94 فیصد none Muslim ہیں، جب بین الاقوامی رپورٹ کایہ حال ہےتو کیسے آنکھ بند کرکے ہندوستان کاہردہشت گردانہ واقعہ مسلم قوم سے جوڑ دیاجاتاہے، مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے تو ہندو راشٹر بنانے کے خواب نے سبھی ایجینسیوں و افسران کو بےمہار بنادیا ہے، ڈی وی. ونجارا جیسے سینکڑوں اعلی سطحی افسران مسلم دشمنی کا زہرپی کرپہلے بیجا گرفتاریاں کررہے ہیں، پھر تفتیش کے نام پرجانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں،علاوہ ازیں بھارت جیسے گنگاجمنی تہذیب والے ملک میں مسلمانوں کی مسیحائی کادم بھرنے والی تو سینکڑوں جماعتیں اور تنظیمیں ہیں پران تمام بےگناہوں کو رہائی اورباعزت بری کروانے کاکام بارگاہ ایزدی سےشاید جمعیۃ علماء ھند کے قائد مولاناارشد مدنی کو سونپ دیاگیاہے، جن کی جہد پیہم کےنتیجہ میں ہزاروں بے قصوروں کوجیل کی آہنی سلاخوں سے چھٹکاراملا، لیکن حالات جو بنتےجارہےہیں اس میں دفاعی حکمت عملی کسی بھی صورت میں ملت اسلامیہ ھند کےلئے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے، بلکہ اس وقت متحد ہوکر عملی اقدام کی ضرورت ہے، مظلوموں کےلئےانصاف کا کام کرنےوالی جماعتوں وشخصیات کی خدمت میں پہلےبھی ہم یہی کہہ اورلکھ رہےتھےآج پھر کہناپڑرہاھے کہ صرف حصول انصاف کےاور مظلوموں کے نام پرکانفرنسیں، سیمینار، اجلاس اور ملت کے خون پسینہ کےکروڑوں روپئےسےمنعقد  کی جانےوالے اجتماعات ہرگز ہرگز کافی و مفید نیز منتج نہیں ہے، بلکہ قائدین کو چاہئے کہ وہ خداراپتوں کوچھوڑ کرجڑوں کی بیخ کنی کاکام کریں، ورنہ اگر آپ دس سے پندرہ سال جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارنے والے۱۰یا۲۰افراد کوباعزت بری کرائیں گے، یہ ظالم ومنتقم مزاج افسران و خفیہ ایجینسیاں ۱۰۰ مزید کو گرفتار کرکےدہشت گردقرار دے دیں گے اوریوں ہی بےگناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوتارہےگا، خداکے واسطےاس پہلو پر توجہ دیں، ورنہ تو اب آپ کا اپنا گھربھی محفوظ نہیں ہے، مظلوموں کی قانونی پیروی کےساتھ ساتھ ظالم و خاطی افسران و ڈپارٹمینٹ نیز زعفرانی میڈیا کےخلاف ملک گیر مہم چلائی جائے، ان کےمجرمانہ ٹارچر کوexpose کیا جائے، قانون کی مدد لیتے ہوئے ان سب کے خلاف ملک کےہرتھانہ اورپولیس اسٹیشن میں ایف.آئی.آر اور ہرایک عدالت میں ہتک عزت کامقدمہ کرایاجائے، پرسکون طریقہ سےجنتر منتر سے لے کرپارلمینٹ واسمبلی گھیراؤ، ملک بندمہم، جیل بھرو تحریک جیسی مؤثر حکمت عملی کوبروئےکارلایاجائے، اور حکومت وعدلیہ کو مجبورکیاجائے کہ عدالت عظمی سبھی تفتیشی ایجینسیوں اور افسران  کو اس بات کاپابند بنائےکہ مذھب کی بنیاد پر مسلمانوں کےساتھ دوہرا اور دوغلا رویہ ہرگز نا برتیں، ورنہ قانون کے پاس دار مسلمان قانون شکنی پراترنے پرمجبور ہوگئے توہندوستان کی چولیں ہل جائیں گی، شاید یہی قدم پژمردہ مسلم قوم کے لئے اکسیروحیاتین کاکام کرے گی، توآئیے آج اور ابھی سے اپنےاپنے علاقہ سےایک قدم بڑھاتےہیں۔ حصول انصاف اور مظلوموں کو ظلم سے بچانے کےلئے، ہرگاؤں ہرقریہ اور ہرضلع سے ہرصوبہ تک اور پھر قومی سطح پرسبھی ملی تنظیموں کو ایک Pressure Group  کی طرح کام کرناچاہئے،کیونکہ عامر سے مفتی عبد القیوم تک، مفتی اقبال سے عبد الکریم ٹنڈا تک ہزاروں کی تعداد میں جتنے بھی ملزمین بےگناہ قرار دے کر باعزت بری کئےگئےہیں،ان کےگرفتار ہوتے ہی تفتیشی ایجنسیوں، بھگوا افسروں اور زرخرید میڈیا انہیں ماسٹر مائنڈ اورککھیات آتنکی بتلاکرمسلمانوں کوآتنک وادی اور مذھب اسلام کو آتنک کاپرتو قرار دینے کی خوب کوششیں کرتےہیں،ان کےباعزت رہاہوتے ہی اپنی خبط مٹانے کےلئےتابڑتوڑگرفتاریاں شروع کردیتے ہیں، اس تعصب بھرے پلاننگ کوواشگاف کرنے کےلئےجہاں ان افسروں اور میڈیائی اہل کاروں پرقدغن لگانےکےلئے سرپرکفن باندھ کرجامد کردینےوالی خود ساختہ مصلحتوں کےجال سے نکل کرمرکزی وصوبائی حکومتوں پردباؤبنایاجائے، وہیں  اعلی ترین وکلاء کی ٹیم بناکرہرشہر میں "لایرس فورم” بنائی جائے اور ایک میڈیا سینٹر قائم کرکے ایک چینل اورہمہ لسان اخباروں کےذریعہ زعفرانی میڈیا کا منھ توڑ جواب حق گو حق پسند بےباک اوربےلاگ میڈیاکےذریعہ سےدیاجائے اور ۱۲۵ کروڑ ہندوستانی عوام کو حقائق سے واقف کرایا جائےتاکہ باہمی مفاہمت و معاونت سےگنگا جمنی تہذیب برقرار رہ سکے اوریہ سارے امورہماری نمائندہ ملی تنظیموں جمعیۃ العلماء، مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ کےلئے عقدہ لاینحل نہیں ہے، عوام الناس ان کی ایک آواز پر، تن من دھن قربان کرتےآئیں  ہیں اور آگے بھی تمام ترتوانائیاں قربان کرنے کوہمہ وقت تیار ہے۔ بس ضرورت ہے کہ دوسروں پرتکیہ کرناچھوڑکرقوم مسلم کےلئے خود ہی ایک جھونپڑی بنائی جائے جوایک دن شیش محل بھی بنےگا ان شاءاللہ!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔