پانی ایک عظیم نعمت- اس کی قدر کیجیے

اللہ تعالی کی ان گنت نعمتیں ہیں ،جس کو بندہ شمار بھی نہیں کرسکتا ،پیدا ہونے سے لے کر موت تک زندگی کا ہر لمحہ نعمتِ پر وردگار کے سایہ میں گز ر تا ہے ،وہ انسانوں کی حاجتوں کو پوری کرنے والا اور انسانی تقاضوں کی تکمیل فرمانے والاکریم پروردگارہے ،دنیا کا کوئی بھی انسان اللہ تعالی کے فضل وانعام سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ،انسان کا پورا وجود انعاماتِ الہی کا مظہراور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بے کراں احسان و انعام کا احساس دلانے والا ہے ۔قرآن کریم میں اسی لئے اللہ تعالی نے انسا ن کو اس بات کا احساس دلایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے ،ارشاد ہے :وان تعدوا نعمۃ اللہ لاتحصوھا۔( ابراھیم:34)اوراگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمارکرنے لگوتو شمار ( بھی ) نہیں کرسکتے ۔اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت پانی بھی ہے ،جس پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے ۔پانی بہت بڑی ہے نعمت ہے ،انسان کو ا س کی اہمیت اور ضرورت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب پیاس کی شدت اس کو بے چین و بے قرار کردے ،تب اسے ایک گھونٹ پانی کی قدر کا احساس ہوگا اور سمجھ میں آئے گا کہ یہ اللہ تعالی کی کیسی عظیم الشان نعمت ہے کہ جس کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا مشکل ہے ،انسان کچھ دیر کھانا کھائے بغیر رہ سکتا ہے لیکن پانی پیئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔اللہ تعالی نے نظامِ کائنات کو پانی کے ذریعہ غیر معمولی انداز میں جوڑے رکھا ہے اور انسان کی بہت سی ضرورتیں پانی ہی سے پوری ہوتی ہیں۔پانی کے ذریعہ ہی مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے ،جھاڑ اور پودے ،پھل اور پھول لہلہانے لگتے ہیں ،پانی کے سبب ہی انسان اپنی ظاہری نجاست اور میل کچیل کو دور کرپاتا ہے ،پانی ہی سے انسان ترو تازگی حاصل کرتا ہے ، پانی سے کھیت و کھلیان ہرے بھرے رہتے ہیں ،انسانی آبادی وہاں مقیم ہونا پسند کرتی ہے جہاں پانی کا نظم ہو ،ورنہ بغیر پانی کے آباد بستیاں بھی ویران جنگل بن جاتے ہیں۔غرض یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کی بہت سی حاجتوں کو پانی سے وابستہ رکھا ہے ۔
پانی کا نظام خداوندی:
پانی اللہ تعالی کی ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو ہر جگہ میسر ہے ،اور بآسانی انسا ن ا س حاصل کرلیتا ہے۔بارش برسانے والا اللہ ہی ہے ،وہ بارش کے ذریعہ انسانوں کے لئے پانی کا نظم فرماتے ہیں ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بہت سی جگہوں پر اس کا تذکرہ فرمایا کہ بارش کا برسانا یا نہیں یہ اللہ ہی کی قدرت میں ہے اور بارش ہی کے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ ، سوکھے کھیت و کھلیان کو سرسبز و شاداب ،خشک تالابوں کو رواں دواں ،اور پانی کے لئے تڑپتے انسانوں،جانوروں کو راحت پہنچا تے ہیں ۔ایک جگہ فرمایا کہ:الم تر ان اللہ یزجی سحابا ثم یولف بینہ رکا ما فتر الودق یخرج من خلالہ ،وینزل من السماء من جبال فیھا من برد فیصیب بہ من یشاء و یصرفہ عن من یشاء ،یکاد سنا برقہ یذھب بالابصار۔( نور:43)کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتا ہے ،پھر ان کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ،پھر انہیں تہہ بر تہہ گھٹا میں تبدیل کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے برس رہی ہے ۔اور آسمان میں ( بادلوں کی شکل میں ) جو پہاڑ ہوتے ہیں ،اللہ ان سے اولے برساتا ہے ،پھر جس کے لئے چاہتا ہے ان کو مصیبت بنادیتا ہے ،ان کا رخ پھیر دیتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی اچک لے جائے گی۔ایک جگہ ذکر فرمایا کہ:وھو الذی یر سل الریح بشرا بین یدی رحمتہ حتی اذا اقلت سحابا سقالا سقنہ لبلد میت فانزلنا بہ الماء فاخرجنا بہ من کل الثمرٰت کذلک نخرج الموتی لعلکم تذکرون۔( الاعراف :57)اور وہی ( اللہ ) ہے جو اپنی رحمت ( یعنی بارش ) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی ) خوش خبری دیتی ہیں ،یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہین کسی مردہ زمین کی طرف ہنکالے جاتے ہیں ،پھر وہاں پانی برساتے ہیں ،اور ان کے ذریعہ ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں ،اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ سے نکالیں گے ،شاید ( ان باتوں پر غور کرکے ) تم سبق حاصل کرلو۔بے شمار جگہوں پر اللہ تعالی نے پانی کی اہمیت کو اور اس کی ضرور ت کو بیا ن کیا ،انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک ان گنت مواقع ایسے آتے ہیں جہاں پانی سے تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے، قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالی نے اس کا ذکر فرمایا۔پانی اللہ تعالی کی کیسی عظیم نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:بلاشبہ قیامت کے دن انسان سے نعمتوں میں سب سے پہلے یہ سوال ہوگا کہ کیا ہم نے تجھے تن درستی نہیں دی تھی اور کیا ہم نے تجھے پینے کے لئے ٹھنڈا پانی نہیں دیا تھا ۔( ترمذی :رقم الحدیث 3304)
ایک حیرت انگیز واقعہ:
پانی کتنی عظیم نعمت ہے ،درج ذیل واقعہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ابن سماک ؒ جو اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور محدث تھے، انہوں نے ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید کو دیکھا کہ وہ سخت پیاس کی حالت میں پینے کے لئے پانی ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں اور پانی کا گلاس منھ سے لگانے ہی والے ہیں ۔ابن سماک ؒ نے آواز دی : اے امیر المومنین !میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تھوڑی دیر پانی پینے سے رک جائیں ؟جب ہارون رشید نے پانی کاپیالہ زمین پر رکھ دیا تو ابن سماک ؒ نے عر ض کیا :میں آ پ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر آپ پانی کے اس گھونٹ سے روک دیا جائے تو آپ کتنی قیمت دے کر اسے خریدلیں گے؟ہارون رشید نے جواب دیا کہ اپنی آدھی سلطنت دے کر خرید لوں گا۔ابن سماکؒ نے کہا: اللہ تعالی آپ کو خیر و مسرت کے ساتھ رکھے ! پانی پی لیجئے۔جب ہارون رشید پانی پی چکے تو ابن سماک نے کہا:میں آپ کواللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر پیٹ سے یہ پانی نہ نکلے ( پیشاب نہ ہو) تو کتنی قیمت کے عوض اس کو نکالنے کا علاج کرائیں گے؟ہارون رشیدنے کہا:اپنی آدھی سلطنت کی دولت اس کے علاج میں لگا دوں گا۔ابن سماک ؒ نے کہا:اے امیر المومنین پھر اس سلطنت کو آپ کیا کریں گے کہ پانی کاایک گھونٹ اس سے زیادہ قیمتی ہے ۔( سنہرے اوراق:327)پانی اللہ تعالی کی ایسی اہم نعمت ہے کہ جس کے سامنے دنیا کی سلطنت بھی ہیچ ہے ،یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ وہ ہر امیر ورغریب ،فقیر وبادشاہ سب کو سیراب کررہی ہے۔بغیر پانی کے انسان کا زندہ رہنا مشکل ہے ،اور پانی کی کمی و قلت انسانوں کو بے چین کردیتی ہے ،جانوروں اور چرند و پرند کو تڑپادیتی ہے ،اور کاروبارِ جہاں متاثر ہوجاتا ہے ،ایک پانی کی کمی سے مختلف مشکلات اور مسائل و حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،فر د سے لے کر حکومت ،شہروں سے لے کر دیہاتوں تک کے نظام میں خلل ہوجاتا ہے ۔
پانی پلا نا بھی بڑا کام :
پانی چوں کہ انسان کے لئے ایک ضرور ت ہے اس کی حاجت خود اس کو بھی پیش آئے گی اور دوسرے انسان بھی اس کی ضرورت کو محسوس کریں گے ،اسی لئے اللہ تعالی نے پانی پلانے کو بڑے اجر وثواب کاکام قرار دیا ۔زمانہ جاہلیت میں بھی پانی پلانے کو نیک اور اچھا کام تصور کیا جاتا تھا اور پانی پلانے والوں کو اس دور میں بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،اور لوگ چاہتے کہ حجاج کو پانی پلانے کی سعادت ان کے حصے میں آئے ۔حضرت موسی ؑ کے واقعہ کو بھی قرآن کریم میں ذکر کیا گیا کہ جب آپ مدین آئے اور ایک مقام پر آرام کیا اسی سے قریب ایک کنویں پر لڑکیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے جانور وں کو پلانے نہیں پلا پارہی ہیں تو آپ آگے بڑھے ان کے جانوروں کے لئے پانی کا انتظام فرمایا:چناں چہ فرمایا:فسقی لھما ثم تولی الی الظل فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر ۔( القصص:24)اس پر موسی نے ان کی خاطر ان کے جانوروں کو پانی پلادیا ،پھر مڑکر ایک سائے کی جگہ گئے ،اور کہنے لگے:میرے پروردگار !جو کوئی بہتری تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں۔
دنیا میں کسی پیاسے انسان کو پانی پلانا کتنا عظیم اجر کا باعث ہوگا ملاحظہ فرمائیے ،نبی کریمﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالی اس کو جنت کے سبزجوڑے عطا فرمائے گا ،اور جو کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا ،اور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی ( یا کوئی مشروب) پلائے اللہ تعالی ا سکو نہایت نفیس( جنت کی ) شرابِ طہور پلائے گاجس پر غیبی مہر لگی ہوگی۔( ابوداؤد:رقم الحدیث1434)ایک طویل حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی چند باتوں کے بارے میں بندے سے سوال فرمائے گا جن میں ایک یہ ہوگا کہ:اے ابن آدم !میں نے تجھے پینے کے لئے پانی مانگا تھا ،تونے مجھے پلایا نہیں ،بندہ عرض کرے گا !میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو تو رب العالمین ہے ،تجھے پینے سے کیا واسطہ ؟اللہ تعالی فرمائے گا!میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی پینے کے لئے مانگا تھا تونے اس کو نہیں پلایا ،سن !اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پالیتا۔( مسلم :رقم الحدیث4667)اس حدیث میں پانی پلانے کو کس درجہ اہم ترین عمل بتایا گیا اور یہاں تک اللہ تعالی نے فرمایا کہ کسی پیاسے بندے کو پانی پلانا یہ اللہ تعالی کے قرب خاص حاصل کرنے کا سبب ہوگا۔
پانی کو ضائع نہ کریں:
پانی اللہ تعالی ایک اہم نعمت ہے اس کی قدر دانی نہایت ضروری ہے ، اس کا بے جا استعمال اور فضول ضائع کرنا بہت بُرا عمل ہے ۔اس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا اور پانی کو احتیاط سے استعمال کرنے کی تعلیم دی ،چناں چہ حدیث میں ہے ک:رسول اللہ ﷺ حضرت سعدؓ کے قریب سے گزرے ،حضرت سعدؓ وضو کررہے تھے ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کیا فضول خرچی کررہے ہو؟اس پر حضر ت سعدؓ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:بے شک ( وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے) اگر چہ تم کسی بہتے دریا پر بھی ہو۔( ابن ماجہ:رقم الحدیث419)یعنی اگر کسی دریا کے کنارے ہی بیٹھ کر کیوں نہ وضو کروجہاں پانی وافر مقدار مین موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں بھی پانی کو ضرورت سے زیادہ استعمال مت کرو۔یعنی تعلیم دی نبی ﷺ نے کہ امت کو کسی موقع پر بھی غیر ضروری ضائع نہ کیا جائے ،اور بتایا کہ پانی کیسی عظیم نعمت ہے۔
لمحۂ فکریہ:
پانی نعمت الہی ہے ،اس کی حفاظت اور قدردانی ضرور ی ہے ،عام طور پر جن کے یہاں پانی کی سہولت ہوتی ہے وہ پانی کے استعمال میں احتیاط کرتے ہی نہیں ،اور بہت سے لوگ پانی کو غیر ضروری استعمال کرنے کو فضول خرچی نہیں سمجھتے ،جب کہ نبی کریم ﷺ نے وضو جو عبادت کا آلہ ہے اس میں پانی کو احتیاط سے استعمال کرنے کی ترغیب دی ،یہ فکر نہ ہونے کی وجہ سے مساجد میں وضو خانوں کے پاس پانی کو احتیاط اور بقدر ضرور ت استعمال کرنے کی پرچیاں چسپاں ہوتی ہیں لیکن اس کے باجودہ بھی توجہ نہیں دی جاتی ۔اس وقت موسم گرما اگرچہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہے لیکن پورے شباب کے ساتھ شروع ہوچکا ہے ،دھوپ کی شدت بڑھتے جارہی ہے اور ہمارے ملک کے بہت سے علاقے اور ہماری ریاست کے بہت سے شہر و دیہات پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں، تالاب خشک پڑے ہیں ،سطح آب میں غیر معمو لی کمی واقع ہے ،لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ،عام استعما ل کے لئے بھی دشواریاں ہیں ایسے میں پانی کو صحیح استعمال کرنا یہ اہم ترین ذمہ داری ہے ۔اور جہاں اس نعمت کی فراوانی ہے انہیں اس کی قدر کرنا چاہیے اور دھوپ کے اس سخت زمانہ میں اپنی بساط کے مطابق پیاسوں کو پلانے کے اہتمام کی فکر بھی کرنی چاہیے ،اگر ہم بذات خود ا س کا انتظام کرسکتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ جو لوگ پانی پلانے کا نظم کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا چاہیے کیوں کہ یہ بھی ایک عظیم سنت اور بڑے اجر و ثواب کا باعث عمل ہے ۔تشنہ لبوں کو سیراب کرنا اور دھوپ کی تمازت سے بے قرار پیاسوں کی حلق تر کرنا یقیناًایک عظیم خدمت ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔