امت اسلامیہ کی بے وقعتی ،اسباب وعلاج

 محمد شاہ نواز عالم ندوی

اس وقت کرۂ ارض پر تقریباً 1,47,62,33,470 مسلمان آباد ہیں، جن میں سے ایک ارب صرف ایشیا میں، 400ملین افریقہ، 44ملین یوروپ میں اور 6ملین امریکہ میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہرپانچواں انسان مسلمان ہے۔ دیگرمذاہب کے افراد کی تعداد کے ساتھ مسلمانوں کا تناسب کچھ اس طرح سے بنتاہے کہ ہر ہندو کے مقابلہ میں 2مسلمان اور ہر یہودی کے مقابلہ میں 100 مسلمان ۔(بحوالہ : عالمی سروے ریکارڈ2013-14ء ) اس کے باوجود آج پوری دنیامیں مسلمان اس قدر بے وقعت اور کمزور کیوں ہیں؟

آج یوں محسوس ہوتاہے کہ پوری دنیا مسلمانوں کا مخالف ہے۔ پوری دنیامیں آباد انسانوں اگر کسی کو دشمن سمجھتے ہیں تو وہ مسلمان ہیں۔ کبھی عراق جلتاہے، کبھی چیچینیا میں مسلمانوں کی کٹائی پسائی ہوتی ہے، کبھی افغانستان میں بم برسائے جاتے ہیں، کبھی لیبیا اور یمن کی ناکہ بندی کی جاتی ہے، فلسطین کی تاریخ ہی عجیب ہے ، گزشتہ پانچ دہائیوں سے امن کا کبھی وہاں سے گزر ہی نہیں ہوا کبھی بھولے سے بھی امن نے اس سرزمین پر قدم نہیں رکھا، اور آج شام کامنظرنامہ تو آپ کے سامنے ہے، کیا کچھ نہیں ہورہاہے معصوم بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں، بیماروں تک کو نہیں چھوڑا جارہاہے۔ ہر صبح وہاں کی ایک تازیانۂ عبرت ہوتی ہے اور ہر شام بلکہ ہرلمحہ جو گزر جاتاہے یا گزر نے والا ہوتاہے، وہاں کے باشندوں کے لئے معجزہ سے کم نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس طرح زندہ ہیں۔ امیدوں نے اپنے سارے دروازے ان کے لئے بند کردیئے ہیں۔ پوری تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ظالم اپنے ظلم کی تمام حدیں توڑچکاہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی مذکورہ آبادی کے ساتھ 52 طاقتور اور بااختیار حکومتیں قائم ہیں۔ لیکن کسی ملک کو سوائے ترکی کے ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی جرأت نہیں ہورہی ہے۔ بس یوں محسوس ہوتاہے کہ اللہ کی یہ بھری پُری دنیا جس کی خلافت کے لئے امت محمدیہؐ کو برپا کیا گیا تھا خود اسی امت کے لئے اپنی وسعت کھو چکی ہے اور وہ منظر جس کی پیش گوئی رسول اکرمؐ نے کی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا جب قومیں تمہارے (مسلمانوں) کے خلاف ایک دوسرے کو اس طرح آواز دیں گی جیسے بھوکے ایک دوسرے کو کھانے پر بلاتے ہیں۔‘‘ (مفہوم حدیث) اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ شاید پوری کائنات اور کائنات کا ذرہ ذرہ ہمارا (مسلمانوں کا) دشمن ہوگیاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو سینکڑوں دلوں میں پیدا ہوتاہے، امت کے محسنین اور مصلحین اور اساطین علماء، مفکرین کی نیندیں حرام کرجاتاہے۔ لیکن معدود چند ہی اس کا جواب ڈھونڈ کر اس عمل پیراہوتے ہیں۔ خیر ان حالات کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو وجہ بالکل صاف ظاہر ہے۔ میں اپنی کم علمی اور ناقص تجربات کی روشنی میں جو سمجھ رہا ہوں اس کو پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
وجوہات :۔ سب سے پہلی وجہ مسلمانوں کا رشتہ علم سے قطعی ٹوٹ چکاہےحالانکہ اسی علم کی بنیاد پر اس امت کو خیر امت کہا گیاہے۔ کم علمی، جہالت، نادانی، مسلم معاشرہ کا شعار بن چکاہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ عالمی سروے رپورٹ میں درج ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کی تعداد 52ہے اور ان تمام مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد 500ہے یعنی 30؍لاکھ مسلمانوں کے لئے صرف ایک یونیورسٹی، اس کے برعکس امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں، ہندوستان میں 8407یونیورسٹیاں ہیں۔ 2004 میں شنگھائی جیاڈونگ یونیورسٹی نے کارکردگی کے اعتبار سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی اور حیران کن طورپر درجہ اول میں مسلم ممالک کی کوئی یونیورسٹی جگہ نہیں بناسکی۔ اقوام کے ادارہ برائے ترقی (یواین ڈی پی) کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق پوری عیسائی دنیا میں شرح خواندگی تقریباً 90فیصد ہے اور 15عیسائی ممالک ایسے ہیں جہاں شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔ اس کے برعکس مسلم ممالک میں اوسط شرح خواندگی کوئی 40 فیصد ہے اور کوئی بھی مسلم ملک 100فیصد شرح خواندگی کا حامل نہیں۔ یہی صورت حال ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے تعداد کی ہے۔ مسلم ممالک میں ہر 10لاکھ مسلمانوں میں سے 230سائنسدان ہیں جبکہ امریکہ میں ہر دس لاکھ افراد میں 4000، جاپان میں 5000سائنسدان ہیں۔ پوری عرب دنیا میں ہمہ وقتی محققین کی کل تعداد 35ہزار ہے اور ہر 10لاکھ عربوں میں صرف 50تکنیک کار ہیں جبکہ عیسائی ممالک میں یہ تناسب ہر 10لاکھ افراد میں ایک ہزار تکنیک کاروں کا ہے۔ مسلم دنیا تحقیقی کاز اور تعلیم وترقی پر اپنی مجموعی پیداوار کا صرف 0.2فیصد خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی مجموعی پیداوار کا 5فیصد حصہ علم وتحقیق اور ترقی کی مد میں صرف کرتی ہے۔ معاشرہ میں علم وآگہی پھیلانے کی نشاندہی ان دوچیزوں سے بھی ہوتی ہے کہ ہر 2000 افراد کے لئے روزانہ کتنے اخبارات شائع ہوتے ہیں اور ہر10لاکھ افراد کے لئے کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ مسلم دنیا میں 10ہزار افراد کے لئے صرف 23روزنامے اور جبکہ صرف سنگاپور میں یہ تناسب ہر ہزار افراد کے لئے 360 اخبارات کاہے۔ برطانیہ میں ہر ایک کے لئے 2000کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے جبکہ مصرف میں 10لاکھ افراد کے لئے صرف 20کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔ نتیجتاً مسلم دنیا علم وآگہی پھیلانے میں ناکام ہورہی ہے۔ اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات کا تناسب بھی مسلم ممالک کچھ اس طرح ہے سعودی عرب0.3 فیصد، کویت، مراکش اور الجیریا 0.3فیصد ہے جبکہ سنگاپور میں یہ تناسب 58 فیصد کاہے۔ یہ امر بھی دلچسپی خالی نہیں کہ اوآئی سی کے رکن مسلم ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) دوکھرب ڈالرز سے بھی کم ہے جبکہ صرف امریکہ سالانہ 12کھرب ڈالرز کی اشیاء اور روزگار پیدا کرتاہے، چین 8 کھرب ڈالرز، جاپان 3.8کھرب ڈالرز اور جرمنی 2.4کھرب ڈالرز کی مجموعی پیداوار جی ڈی پی کاحامل ہے۔ سروے رپورٹ نے اس کی بھی وضاحت کی ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر اجتماعی طورپر 500ارب ڈالرز کی مصنوعات اور روزگار سالانہ پیداکرتے ہیں جبکہ صرف اسپین ایک کھرب ڈالرز کی مصنوعات وروزگار سالانہ پیداکرتاہے، اسی طرح کیتھولک پولینڈ میں یہ شرح 489ارب ڈالرز اور بدھ تھائی لینڈ میں 545 ارب ڈالرز ہے۔ گویا مسلمانوں کی مجموعی پیداواری آمدنی باقی دنیا کے مقابلہ میں بہت تیزی سے کم ہورہی ہے۔
دوسری وجہ:۔ مذکورہ تحریر میں ایک سرسری جائزہ پیش کیا گیا ورنہ حقیقت اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ کمزوری، بے وقعتی کی دوسری وجہ جو خود بخود علم کی کمی، میدان علم سے دوری، تحقیق وریسرچ سے کنارہ، جہالت سے وجود پذیر ہے وہ ہے آپسی محبت کا فقدان، شیرازہ کا انتشار، امت کا علماء ومصلحین سے دوری، دانشوروں اور اہل علم کا عام امت سے کنارہ کشی وغیرہ جیسی خرابیاں ہیں، جن کا علاج وقت کی اہم ضرورت اور علماء اسلام اور دانشوران قوم وملت، قائدین ومفکرین کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی توکوئی بعید نہیں ہمارے وجود کو اللہ مٹادے گا اور ہماری جگہ دوسری قوم کو پیداکرکے اس سے اپنے دین اور اپنی خلافت کا کام لے لے گا۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ اور توفیق سے نوازے ۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔