دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

ترتیب: عبدالعزیز
(ساتویں و آخری قسط)
یہودِ مدینہ میں سے جس قبیلہ نے سب سے پہلے غداری کا ارتکاب کیا وہ بنو قینقاع تھے۔ دستور کے مطابق ان کی سزا ہلاکت اور موت تھی مگر حکومت نے خود بنو قینقاع کے حلیف عبداللہ بن اُبی کی سفارش پر انھیں موت کی سزا دینے کے بجائے صرف جلا وطن کیا جس سے ظاہر ہے کہ حکومت نے دستور میں درج سزا سے کم سزا دی۔ بنو نضیر یہودیوں کا دوسرا قبیلہ تھا جو غداری کا مرتکب ہوا۔ دستور کے مطابق انھیں موت کی سزا دی جانی چاہئے تھی مگر حکومت نے صرف ان کی جلا وطنی پر اکتفا کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے دستور میں درج سزا سے کم سزا دی۔ بنو قریظہ یہودِ مدینہ کا تیسرا قبیلہ تھا جس نے غداری کا ارتکاب کیا، دستور کے مطابق ان کی سزا بھی موت تھی مگر انھوں نے از خود اپنے پرانے حلیف حضرت سعدؓ بن معاذ کو حَکم مقرر کرنے کی حکومت سے درخواست کی۔ دستور کے مطابق غداری کا ارتکاب کرنے والوں کی اس درخواست کو حکومت نظر انداز کرسکتی تھی، مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ حضرت سعدؓ کو حَکم مقرر کر دیا جنھوں نے تورات کے حکم کے مطابق سزائے موت کا فیصلہ دیا اور اس سزا کو صرف ان بالغ جنگجو مردوں تک محدود رکھا جنھوں نے دستور کو توڑا اور ایک آئینی اور دستوری حکومت کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کرکے با قاعدہ جنگ کی اور شکست کھاکر گرفتار ہوئے۔ حکم نے اپنے فیصلے میں غداروں اور باغیوں کے علاوہ قبیلے کے تمام دیگر افراد، عورتوں اور بچوں پر اس سزا کا اطلاق نہیں کیا اور انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ بنو قریظہ کے واقعے سے چند اہم دستوری نکات سامنے آتے ہیں:
(1 بنو قریظہ نے غداری کی، اپنے اس انتہائی جرم کا جج خود اپنی مرضی سے مقرر کروایا۔
(2 حکومت چاہتی تو بنو قریظہ کی درخواست کو مسترد کر دیتی جس میں انھوں نے اپنا جج اپنی مرضی سے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا بلکہ یہودیوں کی مرضی کے مطابق حَکم مقرر کردیا۔
(3 حکم نے دستور کے بجائے یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات کے قانون کے مطابق فیصلہ کیا ، حکومت نے اسے بھی تسلیم کرلیا کیونکہ دستور کی ایک دفعہ (26) کے مطابق یہودیوں کو مذہبی آزادی دی گئی تھی جس سے اس فیصلہ کی گنجائش نکلتی تھی۔
(4 اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنی یہ سزا خود تجویز کی کیونکہ انھوں نے اپنی مرضی کا حکم مقرر کروایا جس نے اس سزا کا فیصلہ سنایا۔
(5 بنو قینقاع اور بنو نضیر کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ اگر بنو قریظہ اپنا حکم خود مقرر نہ کرواتے اور وہ انھیں یہ سزا نہ سناتا تو حکومت بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح شاید بنو قریظہ کو بھی سزائے موت نہ دیتی بلکہ انھیں بھی صرف جلا وطنی کی سزا دیتی۔
اس تفصیل کے بعد ہم اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا بنو قریظہ کو دستور کے مطابق سزا دی گئی یا کم سزا دی گئی یا زیادہ سزا دی گئی؟ دستور کے مطابق اس جرم کی سزا موت تھی۔ اگر چہ حکم نے تورات کے مطابق سزا دی مگر اس سلسلے میں تورات کا حکم دستور کے مطابق تھا۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ سزا دستور کے مطابق تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ دستور میں بیان کردہ سزا سے کم نہ تھی اور آخری بات یہ کہ بنو قریظہ کو دی گئی سزا بہر حال دستور کی سزا سے زیادہ ہر گز نہ تھی۔
ان مباحث و تفصیلات کے بیان کے بعد ہم تحقیق کے اس مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ مستشرقین یہود و نصاریٰ سے پوچھیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستورمدینہ پر عمل کرکے آئین، دستور، قانون اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا؟ یا آئین، دستور اور عدل و انصاف کو نافذ کرکے یہود مدینہ پر ظلم کیا؟ اگر دستور و قانون پر عمل درآمد عدل و انصاف کا عین تقاضا ہے اور یقیناًنہ صرف یہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے بلکہ تہذیب و تمدن، شرفِ انسانیت اور فطرت کے قوانین کے ساتھ مطابقت ہے تو پھر یہودیوں پر ظلم و ستم کی فرضی داستانوں، قتل و خونریزی کے من گھڑت قصوں، مذہبی و نسلی امتیازات و تعصبات کی وضعی روایتوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ ہم بلا خوفِ تردید اور بلا اندیشہ لومۃ لائم پورے وثوق اور تاریخی حقائق کی مستحکم بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہود مدینہ نے خود اپنی آزادانہ، خود مختارانہ رائے اور برضا و رغبت دستورِ مدینہ کو تسلیم کیا اور جن نسلی تعصبات کی توقعات کے تحت انھوں نے ایسا کیا تھا جب وہ پوری ہوتی نظر نہ آئیں تو انھوں نے اپنی فطرت کے مطابق متفقہ آئین کے ساتھ غداری اور بے وفائی کا رویہ اختیار کیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگر دنیا کے کسی یہودی کو اس کے متعلق کوئی شک و شبہ ہو تو وہ مستند تاریخی شواہد کی روشنی میں اس کی تردید کرے، من گھڑت افسانوں ، وضعی روایتوں اور فرضی داستانوں کا سہارا نہ لے۔
ہم نے دستورِ مدینہ کے تحت عدالتی نظام پر بحث کے دوران اس کی وضاحت اس لئے ضروری سمجھی تاکہ صدیوں سے یہودیوں نے اسلام کے خلاف جو محاذ آرائی قائم کر رکھی ہے، اس کے حقیقی پس منظر کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان حقایق کی پردہ کشائی سے یہودی حقیقت کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ انھوں نے قصداً اور عمداً تاریخ کو مسخ کرکے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف فضا پیدا کی ہے، ان میں اگر دیانت دار اور مخلص محقق موجود ہوں تو وہ ضرور ہماری ان باتوں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں گے اور اگر خدا نے انھیں توفیق دی تو حقیقت کو بھی پالیں گے، البتہ ہم مغربی نصرانی مستشرقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ تعصبات سے بالا تر ہوکر کریں تو انھیں اپنی بہت سی تاریخی غلطیوں کی اصلاح کا موقع مل سکتا ہے، بالخصوص ہم توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اس کتاب کے دوسرے، تیسرے، پانچویں اور چھٹے اور نویں باب سے ضرور استفادہ کریں گے۔ ان مستشرقین کو مخاطب کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ صلیبی جنگوں کی ابتدا سے لے کر اب تک مسیحی دنیا میں جو نفرت اسلام کے خلاف پائی جاتی ہے اس کا بنیادی سبب یہود مدینہ کے متذکرہ بالاتین قبیلوں کے خلاف ریاست مدینہ کی آئینی کارروائی ہے۔ یہودیوں نے اسے اسلام کے خلاف خوب استعمال کیا۔ یہودیوں کی وساطت سے یہ زہر یورپ میں پھیلا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف من گھڑت افسانے اور فرضی داستانیں وضع کی گئیں۔ عیسائی یورپ کو اُکسا کر مغرب و مشرق کو صلیبی جنگوں کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک اسلام و عیسائیت کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مسلسل وسیع کیا جاتا رہا۔
عہد حاضر میں مشرقِ وسطیٰ کے قضیے کی اصل جڑ بھی یہی ہے۔ یورپ و امریکہ میں اسلام اور مشرق وسطیٰ کے نام پر یہودی سرمائے سے قائم اکثر تحقیقی و تربیتی ادارے اسی مقصد کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اگر چہ مستشرقین میں بعض مخلص و دیانت دار محقق بھی موجود ہیں مگر اکثر اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اگر ہماری یہ حقیر کوشش مستشرقین کی پھیلائی ہوئی اس تاریخی غلطی کی تصحیح میں ممد و معاون ثابت ہوسکی تو یہ معمولی کامیابی نہیں۔ غلط فہمی یہ پیدا کی گئی ہے کہ یہود مدینہ کے تین قبیلوں۔۔۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ کے ساتھ ظلم ہوا تھا۔ اس بے بنیاد اور بے حقیقت فرضی اور وضعی داستان سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام، پیغمبر اسلام اور امت اسلامیہ (نعوذ باللہ) ظلم و بربریت کے داعی ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں عربوں کو چین نصیب ہوگیا تو وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ان کے پیغمبرؐ نے متذکرہ یہودی قبیلوں کے ساتھ مدینہ میں کیا تھا؛ جبکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ان یہودی قبیلوں کے ساتھ دستور، آئین اور قانون کے مطابق عدل و انصاف سے بھی بڑھ کر رحمت و رافت اور عفو و احسان کے ساتھ سلوک کیا گیا تھا، لہٰذا ان کے ساتھ ظلم و بے انصافی کی پوری داستان بے بنیاد اور افسانوی ہے جس کی تائید تاریخ و تحقیق کے کسی بھی مسلمہ اصول سے نہیں ہوتی، اس لئے اے نصرانی مستشرقین! آپ تو تعصب کی پٹی آنکھ سے اتاریں، حقیقت کو دیکھیں اور جو کچھ اب تک آپ کے آباء نے یہودیت کے زیر اثر غلط فہمی پیدا کی ہے، اس کی تصحیح کریں۔ اگر یہ اپیل یہودی اہل علم و دانش پر اثر کرے تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں، اسلام کے خلاف بے بنیاد افسانہ طرازی سے باز آئیں اور دنیا کو اضطراب و بے چینی کی جگہ امن و سلامتی اور سکون و چین کا سانس لینے دیں، بالخصوص نصرانی مستشرقین تاریخی حقایق اور مستند روایات کی بنیاد پر اپنے باطل نظریات پر نظر ثانی کریں تاکہ انسانیت نفرت و کدورت کے خانوں میں بٹنے کے بجائے محبت و رحمت کے دامن میں سکون حاصل کرے اور قرآن کے اس ابدی پیغام اور دعوت کیلئے عالمی فضا سازگار بنے:
’’کہہ دو اے اہل کتاب! آؤ ایک کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں، اور اگر وہ پھر جائیں تو انھیں کہو ہم مسلمان ہیں‘‘ (64:3)۔
دستور مدینہ کے تحت عدلیہ پر بحث ختم کرنے سے پہلے یہ بات بصیرت افروز ہوگی کہ ریاستِ مدینہ نے جو ضابطۂ دیوانی اختیار کیا تھا اس کا پاکستان میں رائج ضابطہ دیوانی 1908ء (ایکٹ 1908-5) کے ساتھ مندرجہ ذیل معاملات میں تقابل کیا جائے:
(الف) کسی شخص کی طلبی اور حاضری لازمی قرار دینا اور اس کا حلفیہ بیان لینا۔
(ب) دستاویزات کو برآمد کرنے اور انھیں پیش کرنے کا لزوم۔
(ج) حلف ناموں کے ذریعے شہادت لینا۔
(د) گواہوں کے بیان اور دستاویزات کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے کمیشن جاری کرنا۔
یہ امر بصیرت افروز ہے کہ ریاست مدینہ کے چیف جسٹس نے جو ضابطہ اختیار فرمایا پاکستان میں مروجہ ضابطہ دیوانی اس سے مماثلت رکھتا ہے۔ جن مقدمات اور فیصلہ جات کو اوپر بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کی کافی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ آپؐ کی عدالتی بصیرت بیسویں صدی کے عدالتی تقاضے پورے کرتی ہے۔ اس تقابل کیلئے خصوصی طور پر ان تفصیلات کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ’’عدالتی نظام‘‘ کے تحت اس باب میں پہلے مقدمہ کے سلسلے میں دی گئی ہیں۔ اس سے اس نظریے کی نفی ہوجاتی ہے کہ اسلام صرف ساتویں صدی کیلئے موثر تھا، یہ تو بیسویں صدی کی بات ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف کے بارے میں جو تعلیمات دی ہیں وہ قیامت تک دیگر تعلیمات پر فوقیت رکھتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔