اُس نے میری بینائی پر کیسا منتر پھونک دیا

راجیش ریڈی

اُس نے میری بینائی پر کیسا منتر پھونک دیا
بند آنکھوں سے آئے نظر جو ایسا منظر پھونک دیا

مشکل تھا پر آخر دل پر پتھر رکھ کر پھونک دیا
میں نے جو کچھ باہر کا تھا اپنے اندر، پھونک دیا

شام کو لَوٹ کے گھر آنے تک سب دَم سادھے رہتے ہیں
وقت نے ہم سب کی سانسوں میں یہ کیسا ڈر پھونک دیا

مارنا تھا اپنے اندر کے راون کو ، لیکن ہم نے
راون کا اک پتلابنا کر چوراہے پر پھونک دیا

اک مدت سے کوئی تماشہ دیکھا نہیں تھا بستی نے
سو بستی والوں نے مل جل کر میرا گھر پھونک دیا

نام سے جو منسوب ہیں میرے شعر وہ سارے اُس کے ہیں
جس نےمیرے ہر مصرعے میں لفظِ سخنور پھونک دیا

تبصرے بند ہیں۔