امت مسلمہ کا مرض: تشخیص اور علاج

تحریر: اما شہید حسن البناؒ ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(امام شہید حسن البناؒ نے مصر کے ماحول میں درج ذیل باتیں کہی ہیں۔ تحریر یا تقریر میں اپنے زمانہ اور مخاطب کے لحاظ سے بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر باتیں عمومی ہوتی ہیں اور سب کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ استفادہ کرنے والے آسانی سے استفادہ کر لیتے ہیں۔ کم و بیش آج ہمارے ملک میں امت مسلمہ میں یہی باتیں در پیش ہیں)۔
تشخیص : عزیز من! ضعف و قوت اور صحت و بیماری کے سلسلے میں جو حال اشخاص کا ہوتا ہے وہی اقوام کا بھی ہوتا ہے۔ ایک شخص کو تم دیکھتے ہو وہ توانا، صحت اور بھلا چنگا ہے کہ یکایک امراض کی یورش ہوتی ہے، بیماریاں اسے گھیر لیتی ہیں اور جسم کی مضبوط و محکم عمارت ہل کے رہ جاتی ہے۔ وہ برابر اضطراب کی کروٹیں بدلتا اور درد سے کراہتا ہے، یہاں تک کہ رحمت الٰہی شامل حال ہوتی ہے اور اسے ایک ایسا ماہر طبیب میسر آجاتا ہے جو اصل مرض کو پہچانتا ، اس کی عمدہ تشخیص کرتا، پھر اخلاص و دل سوزی کے ساتھ علاج کرتا ہے۔ کچھ دنوں بعد تم دیکھتے ہو اس کی قوت و صحت عود کر آئی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تندرستی پہلے سے بھی بہتر ہوگئی۔ بالکل یہی کیفیت قوموں کی ہے۔ وہ حوادث سے دوچار ہوتی ہیں۔ قومی عمارت شکستہ ہوجاتی ہے، قوت و شوکت کے تمام مظاہر ختم ہوجاتے ہیں، آفات و حوادث کے پیہم تھپیڑے انھیں نڈھال کر دیتے ہیں۔ وہ انتہائی نحیف و ناتواں اور ضعیف و لاغر ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ لالچی نگاہیں ان کی طرف اٹھنے لگتی ہیں اور غاصبوں کی دست درازیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اب وہ نہ کسی غاصب کا ہاتھ روک سکتی ہیں اور نہ کسی حریص کا دہان آزبند کرسکتی ہیں۔ اب ان کی قوت و صحت اور بقاء و ترقی منحصر ہوتی ہے تین باتوں پر۔مرض کی صحیح تشخیص ہو، صبر کے ساتھ علاج ہو اور کوئی ماہر طبیب ہو، جو درد مندی کے ساتھ ان کا علاج اور ان کی سرپرستی کرے۔ اور یہ علاج و سرپرستی جاری رہے، تا آنکہ وہ خوش حال و فارغ البال اور صحت و قوت سے مالا مال ہوجائیںَ
تن ہمہ داغ داغ شد: تجربے نے ہمیں بتایا اور حوادث سے اندازہ ہوا کہ یہ مشرقی قومیں ایک دو مرض نہیں، نہ جانے کتنے امراض کا شکار ہیں، جس پہلو سے بھی دیکھو ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
یہ سیاسی حیثیت سے بھی روگی ہیں، باہر سے ان پر سامراج کا عفریت مسلط ہے اور اندرونی طور پر وہ گروہی عصبیت، باہمی عداوت اور زبردست افتراق و انتشار کا شکار ہیں۔
یہ معاشی حیثیت سے بھی روگی ہیں، جس طبقے میں بھی دیکھو، سود کی گرم بازاری ہے اور اجنبی کمپنیاں تمام ذرائع آمدنی اور ساری دولت پر قابض ہیں۔
یہ فکری حیثیت سے بھی روگی ہیں۔ الحاد، بے دینی اور انارکزم کا ایک لشکر ہے جو ان کے عقائد کے قلعے منہدم اور اقدار کے شیشے پاش پاش کر رہا ہے۔
اجتماعی حیثیت سے بھی یہ روگی ہیں، یہ عادات و اخلاق میں اباحیت اور انتہا پسندی کا شکار ہیں اور ان انسانی فضائل سے یکسر بیگانہ ہیں جو انھیں فیروز مند، سراپا نور اور مجسم خیر و برکت اسلاف سے وراثت میں ملے تھے۔ یہ تقلید مغرب کی رو میں بہہ رہی ہیں۔ مغربیت کی ناگن ان کے تمام معاملات کو زہر آلود کر رہی ہے، یہ زہر اب خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور ان کی ساری خوشیاں مکدر ہورہی ہیں۔ یہ ان ناقص بشری قوانین کے پیچھے دوڑ رہی ہیں جو کبھی کسی جرم کا انسداد نہیں کرسکتے، کسی سرکش کی تادیب نہیں کرسکتے اور نہ کسی ظالم کا ہاتھ روک سکتے۔ غرض جو کبھی ان آسمانی قوانین کی جگہ نہیں لے سکتے جو ہمارے خالق و مالک اور مہربان رب کے عطا کردہ ہیں۔
اسی طرح وہ تعلیم و تربیت کے باب میں بڑی آزاد خیال اور کج روی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان نئی نسلوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پارہی ہے جو کل کے سیاہ و سپید کی مالک اور تعمیر قوم و تاسیس ملت کی ذمہ د ار ہوں گی۔
ذہنی اور نفسیاتی حیثیت سے بھی یہ روگی ہیں۔ یہ انتہائی مہلک نا امیدی اور تباہ کن دوں ہمتی کا شکار ہیں۔ یہ شرم ناک بزدلی اور خطرناک پست فطرتی کا صید زبوں ہیں۔ یہ ایسی بے مروتی اور حرص و انانیت میں مبتلا ہیں کہ اللہ کی پناہ! نہ خرچ کرنے کا حوصلہ، نہ ایثار و قربانی سے کوئی واسطہ، نہ ذوقِ عمل نہ شوقِ جہاد، جہد و مشقت سے گریزاں، عیش و عشرت کی دل دادہ۔
جو امت اتنے سارے خطرناک عوارض سے دوچار ہو، جس امت سے اتنی ساری مہلک قوتیں برسرپیکار ہوں اور اسے بالکل مٹا دینے کے درپے ہوں جو سامراج، گروہ بندی، سود، اجنبی، استحصال، الحاد، اباحیت، لاقانونیت، تعلیمی ابتری، حرص و نا امیدی، بزدلی و نامرادی کی آفتوں میں مبتلا ہو اور بدقسمتی سے دشمن پر فریفتہ بھی ہو، فریفتگی بھی ایسی کہ دشمن کی ایک ایک ادا بالخصوص بری اداؤں کی عاشق ہو، بھلا ایسی کسی امت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
یہ بیماریاں تو ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک ایک بیماری بڑی بڑی غالب اور مقتدر قوموں کو کھاجائے۔ پھر اس امت کا حالِ زار کیا کہئے جس کے ایک تنِ ناتواں کے ساتھ یہ ساری ہی بیماریاں چمٹی ہوئی ہوں؟
واقعہ یہ ہے کہ یہ مشرقی قومیں جو عرصۂ دراز سے دشمنوں کا نشانۂ ستم ہیں، جن کا جسم ایک طویل مدت سے ان جراثیم کی آماجگاہ ہے، یہاں تک کہ ان جراثیم نے اندر پہنچ کر خوب انڈے بچے بھی دیئے۔اگر یہ مشرقی قومیں نہایت دلیر، سخت جاں، باہمت اور ٹھوس نہ ہوتیں تو آج ان کا کہیں پتا نہ ہوتا۔ وہ صفحۂ ہستی سے کبھی کی مٹ چکی ہوتیں، مگر اللہ کو یہ منظور نہیں اور مومنین بھی اس کیلئے تیار نہیں۔
میرے بھائی! اس امت کے مرض کہن کی یہ ہے وہ تشخیص جو اخوان سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ رہیں وہ تدابیر جو اس کی صحت و شفایابی کیلئے وہ اختیار کرتے اور سر انجام دیتے ہیں تو ان کی تفصیل آگے آتی ہے۔
امید کی کرن، بیداری کی لہر: عزیز من! ان وسائل کا تذکرہ کرنے سے پہلے میں یہ بتادوں کہ ہم اپنی قوم و ملت سے مایوس نہیں ہیں۔ ہمیں تو بڑی بھلائیوں اور کامرانیوں کی امید ہے۔ ہمارا تو گمان ہے کہ یہی مایوسی ہمارے لئے بلائے جہاں ہے۔ یہی نا امیدی ہمارے لئے سم قاتل ہے۔ یہی دل شکستگی ہماری محرومیوں کی ماں ہے ورنہ خیر و سعادت کے کتنے ہی قافلے ہمارے ساتھ رہتے اور کامرانیاں ہمارے قدم چومتیں۔ اسی لئے ہم ذرا بھی مایوس نہیں۔ بحمد اللہ نا امیدی ہمارے کاشانۂ دل میں جھانکتی تک نہیں۔
ہمارا تو پورا ماحول ہمارے لئے ایک پیام امید ہے، اگر چہ بد اندیش کتنے ہی شگون لیں۔ جب تم کسی مریض کے پاس جاتے ہو اور دیکھتے ہوئے کہ رفتہ رفتہ اس کی آواز بند ہو رہی ہے، نبض ڈوب رہی ہے، سانس اکھڑ رہی ہے اور جسم بے حس و حرکت ہو رہا ہے تو سمجھ جاتے ہو کہ بیماری قابو سے باہر ہے، اس کا وقت اب قریب ہے اور اب جاں بر ہونا مشکل ہے، لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، خاموش زبان کچھ ہل رہی ہو، ٹھنڈے جسم میں کچھ حرکت آرہی ہو، تو تمہیں کچھ تسکین ہوگی۔ اس کی صحت و زندگی کی آس بندھے گی۔
بالکل یہی مثال ان مشرقی اقوام کی ہے ان پر بھی ایک وقت آیا تھا، جب ان پر بری طرح جمود طاری تھا وہ حرکت و نمو کی ساری صلاحیتیں کھو بیٹھی تھیں مگر اس وقت تو پوری امت میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے، ایک عام بیداری جوش مار رہی ہے، نہایت قوی اور جان دار شعور کے دیئے جل رہے ہیں، نہایت تند و تیز اور زبردست احساسات کی انگیٹھیاں دہک رہی ہیں اور اگر وہ اس وقت بہت سی بیڑیوں سے بوجھل نہ ہوتی، پھر قیادت کی زبوں حالی نہ ہوتی، انھیں صحیح رہنمائی میسر ہوتی تو یہ بیداری نہایت حسین اور خوش آئند نتائج کا پیش خیمہ ہوتی۔
بہر حال یہ بات طے ہے کہ یہ بیڑیاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ یہ زمانہ ضرور کروٹ لے گا، کہ تلوّن تو زمانے کی فطرت ہے، اسے ایک حال پر قرار کہاں؟ یقین مانو، یہ سرگشتگی ختم ہوگی، یہ طوائف الملوکی دور ہوگی۔ پھر اس امت کو زمین میں غلبہ و تمکن حاصل ہوگا۔ پہلے بھی اختیارات کا مالک اللہ تھا۔ آج بھی اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
لہٰذا ہم کبھی نا امید نہیں ہوسکتے۔ قرآن پاک کی آیات، رہبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات فلاکت زدہ امتوں کا عروج، زوال آمادہ قوموں کی ترقی اور تعمیر و ترقی تک امید کی کرن دکھاتی، امید کی شمعیں جلاتی، امید کے پرچم لہراتی اور امید ہی امید کے پیغام سناتی ہیں۔ نیز یہ بتاتی ہیں کہ صحیح ترقی کی راہ کیا ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ تمام باتیں کھول کھول کر بتا دی گئی ہیں، کاش وہ سمجھنے کی کوشش کرتے۔
سورۂ قصص کے آغاز ہی میں یہ آیتیں پڑھتے ہو، دیکھو، یہ آیتیں کس قدر جاں فزا اور ولولہ انگیز ہیں:
’’طٰسٓمٓ ۔یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں ۔ ہم تمہیں موسیٰ و فرعون کی سرگزشت سناتے ہیں، بالکل ٹھیک ٹھیک، ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے ہیں۔ بے شک فرعون نے سر زمین (مصر)میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں والوں کو اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا تھا۔ وہ ان میں سے ایک طبقے کی کمر توڑ رہا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کرا دیتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا۔ بلا شبہ وہ مفسدین میں سے تھا اور ہم چاہتے تھے کہ جن لوگوں کی اس س سرزمین میں کمر توڑی جارہی تھی ان پر احسان کریں اور بنا دیں انھیں ملک کا وارث، اور زمین میں انھیں غلبہ و تمکّن عطا کریں اور دکھا دیں فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو، ان کی طرف سے وہ چیز جس کا وہ اندیشہ محسوس کرتے تھے‘‘۔
ان آیات کے آئینے میں تم دیکھتے ہو کہ باطل قوت پاکر کس طرح سرکشی کرتا ہے، اپنی طاقت پر اسے کیسا ناز ہوتا ہے، اپنی آن بان اور شان و شوکت پر وہ کس درجہ مطمئن ہوتا ہے اور اس بات سے غافل ہوجاتا ہے کہ چشم حق برابر اس کی گھا ت میں ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ خدا کی نعمتوں پر حد سے زیادہ اترانے لگتا ہے تو غیرتِ حق جوش میں آتی ہے اور جلال و جبروت کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، قوت و اقتدار کے تازیانے حرکت میں آجاتے ہیں اور شہنشاہِ کائنات اس کو گرفت میں لے لیتا ہے، اس وقت ارادۂ الٰہی ظالموں سے انتقام لیتا اور مغلوب و مقہور بندوں کی دستگیری فرماتا ہے اور اب دیکھتے دیکھتے باطل کی بنیادیں ہل اٹھتی ہیں۔ اس کی عظمت و سطوت کے عالی شان محل زمین پر آرہتے ہیں اور حق کی جڑیں مضبوط اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور اہل حق سربلند و سرفراز ہوتے ہیں۔
کتاب حکیم و محکم کی ان آیات کے ہوتے ہوئے کسی اسلامی گروہ یا مسلم امت کیلئے یاس و نا امیدی کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ تو آخر مسلمان کتابِ الٰہی کو کب سمجھیں گے اور کب اس سے عبرت پزیر ہوں گے؟
میرے بھائی! اسی طرح کی آیات کی بنا پر (اور قرآن ان سے بھرا پڑا ہے) اخوان مایوس نہیں ہیں۔ وہ تو نہایت پر امید اور صہبائے یقین سے سرشار ہیں، وہ نصرتِ الٰہی کے انتظار میں ہیں۔ سامنے مشکلات کا ہجوم اور مصائب کا اژدہام ہے لیکن امید کی اسی کرن پر نظریں جمائے ہوئے وہ ایک با حوصلہ سپاہی کی طرح سرگرم عمل ہیں اور مدد تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
رہے وہ وسائل جن پر گفتگو کا ہم نے وعدہ کیا تھا تو وہ تین چیزیں ہیں اور یہی فکر اخوان کی بنیاد ہیں۔ پہلی چیز: صحیح دستور العمل ہے اور یہ کتاب اللہ، سنت رسول اور احکام اسلام کی شکل میں موجود ہے، بشرطیکہ مسلمان انھیں صحیح انداز سے سمجھیں، ان میں اپنے ذاتی خیالات و رجھانات کی آمیزش نہ کریں، ان کے چشمۂ صافی کو گدل اور رخِ زیبا کو میلا نہ کریں، چنانچہ اخوان دین اسلام کا اسی انداز سے مطالعہ کر رہے ہیں، نہایت گہرا، وسیع اور جامع مطالعہ۔
دوسری چیز: مومن کارکن ہیں۔ اسی لئے اخوان نے اس دین سے جو کچھ سمجھا ہے، اسے بے لاگ طریقے سے اپنا رہے ہیں اور پوری شدت سے اس پر کار بند ہیں۔ اللہ کا شکر ہے انھیں اپنے فکر پر کاکامل ایمان ہے جو مقصد انھوں نے اپنایا ہے اس پر انھیں شرح صدر ہے اور انھیں یقین ہے کہ جب تک وہ اللہ کے ہو کر رہیں گے اورہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں گے نصرتِ الٰہی کے فرشتے ان پر سایہ فگن رہیں گے۔
تیسری چیز: ہوش مند، با تدبیر، بیدار مغز اور قابل اعتماد قیادت ہے، بحمد اللہ اخوان کو یہ قیادت بھی میسر ہے۔ چنانچہ وہ اس کی کامل اطاعت کرتے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
میرے بھائی! یہ ہے ہماری دعوت کا اجمالی تعارف اور یہ ہیں وہ باتیں جو ہمیں تمہارے سامنے رکھنی تھیں۔ یہ وہ خواب ہیں جنھیں شرمندۂ تعبیر ہونا ہے اور ان خوابوں کے یوسف تم ہو۔ تو جس راہ پر ہم گامزن ہیں، اگر وہ راہ تمہیں پسند ہو تو اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دو اور ہمارے ساتھ مل کر کام کرو، اللہ ہمیں اپنی توفیق سے بہرہ مند فرمائے، وہ ہمارے لئے بس ہے۔ وہ بہترین کارساز، بہترین دوست اور بہترین مددگار ہے۔ واللہ اکبر وللہ الحمد!

تبصرے بند ہیں۔