امریکہ اور اسرائیل سے دوستی، اخوان اور حماس سے دشمنی!

عبدالعزیز

  پوری دنیا کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی کیا پالیسی ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اخوان اور حماس کے بارے میں اسرائیلی اور امریکی حکمراں اچھی طرح سے جانتے ہیں جبکہ مسلم دنیا اخوان اور حماس سے اس قدر واقف نہیں ہے جس قدر ہونا چاہئے۔ اخوان المسلموں مصر کی ایک ایسی پر امن اسلامی جماعت ہے جو گزشتہ ستر، اسی سال سے اپنے ملک میں جمہوری راستہ سے اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ عصر حاضر کی سب سے عظیم اسلامی تحریک ہے۔ 1928ء میں یہ تحریک وجود میں آئی۔ یہ اپنے قیام اول روز سے ایک دینی، اصلاحی اور سیاسی تحریک تھی۔ اس تحریک کا اولین مقصد خلافت اسلامیہ کا احیا اور اس کی نشاۃ ثانیہ تھی۔ 1924ء میں خلافت عثمانیہ زوال سے حسن البنا شہیدؒ کے حساس دل کو مضطرب کر دیا تھا۔ کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے اعلان کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی روایات و ثقافت پر یکسر خط تنسیخ پھیر دیا اور عرب دنیا کے کلیتاً ناطہ توڑ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیائے عرب میں ترکوں کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی اور ترک سلطانوں کی ہر یادگار کو نیست و نابود کردیا جانے لگا۔

عرب ممالک خصوصاً مصر میں قومیت، وطنیت اور الحاد و دہریت کا طوفان برپا ہوگیا۔ ہر طرف اباحیت، بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ و فحاشی کا بول بالا ہوگیا۔ ان حالات میں حسن البناء نے اخوان المسلمون کی بنا ڈالی اور دعوت و اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ ستر پچھتّر سال میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد افراد جیلوں کی سختیاں برداشت کیں ۔ اس جماعت پر پابندیوں پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں لیکن پانچ سال پہلے آمریت کے خلاف مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں اخوان المسلمون بھاری مینڈیٹ سے جیت کر ایوان اقتدار پہنچی۔ اسلام دشمنوں اور مغربی طاقتوں کو یہ کامیابی برداشت نہیں ہوئی۔ انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اخوان المسلمون پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ بادشاہوں اور شیخوں نے خونی السیسی کی ہر طرح سے مدد کی۔ اگر یہ بات کوئی اورکہے گا اور لکھے گا تو شاید کچھ لوگ طرف داروں کی بات سمجھیں گے، لیکن ایک سعودی شہزادہ کی بات تو شاید ہی دنیا نظر انداز کرسکے۔

 ’’سعودی عرب کے شاہی خاندان کی با اثر شخصیت اور شاہ عبداللہ (شاہ سلمان سے پہلے عبداللہ سعودی عرب کے بادشاہ تھے) کے بھتیجے خالد بن طلال نے حکومت کو متنبہ کیا کہ ا س کی جانب سے مصر کی فوجی بغاوت سعودی عرب کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ شہزادہ خالد بن طلال نے سعودی علمائے کرام سے مصری عوام پر ڈھائے جانے والے فوجی مظالم کے خلاف خطابات کرنے کی بھی استدعا کی۔ العربیہ، سی این این کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے مصر میں اخوان المسلمون کے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کے فیصلے کو جہاں ملک کے مذہبی و عوامی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، وہیں سعودی عرب کے شاہی خاندان میں موجود اہم افراد بھی اس حمایت کو سعودی عرب کی حکومت کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔

 سعودی عرب کے امیر ترین شہزادہ ولید بن طلال کے بڑے بھائی شہزادہ خالد بن طلال نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سمیت سرکاری حکام کو مصر کے منتخب صدر کے خلاف ہونے والی سازش کو جائز اور قانونی قرار دینے سے شاہی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر پائی جانے والی حقیقی مخالفت میں تیزی آئے گی۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ مصری فوج کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرنا ان لوگوں کو کھلا لائسنس دینے کے مترادف ہے جو شاہ عبداللہ کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں ۔ حکومت نے مصر کے منتخب صدر کے خلاف رونما ہوئے ہونے والی سازش کی مخالفت کے بجائے حمایت اور تائید کرتے ہوئے اپنی حکومت کے خلاف خطروں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شہزادہ خالد بن طلال نے ایک الگ بیان میں سعودی عرب کے علماء کرام اور مذہبی شخصیات کو مصر میں فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمانوں کی حالت زار پر اختیار کی جانے والی خاموشی کو توڑنے کی استدعا کی۔ شہزادے کے سیکڑوں ٹوئٹر پیغامات اس وقت سعودی عرب میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ سعودی جریدے ’الوطن‘ کے ویب سائٹ پر شہزادے نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس طرح کسی قسم کے منفی خیالات کو پیش نہیں کر رہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب مصری فوج کی بے جا حمایت کرنا چھوڑ کر مظلوم اور نہتے عوام کی دلجوئی کیلئے آگے بڑھے نہ کہ فوجی ڈکٹیٹر السیسی کی حمایت کرتے ہوئے عوامی نفرت کو سمیٹے الوطن ویب سائٹ کے مطابق شہزادہ خالد کی جانب سے مصر کے حوالے سے ملکی پالیسی پر تنقید پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی بلکہ وہ اس سے قبل بھی مصر میں رونما ہونے والی صورت حال پر خاصے برہم ہیں ۔ 14 اگست کو مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان رابعہ العدویہ میں مصری فوج کی بربریت کے بعد سے شہزادہ خالد دکھی ہیں ۔ اس وقت بھی انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے اس بغاوت کا ساتھ دینا دین اور مذہب کے ساتھ مذاق ہے، تاہم ویب سائٹ سے اس پیغام کو ہٹا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے زیادہ صارفین میں خاصی پذیرائی ملی ہے اور لوگ شہزادے کے پیغام کو اپنے دل کی آواز اور ترجمانی قرار دے رہے ہیں ۔

دوسری جانب سعودی حکومت کے حامی ذرائع ابلاگ نے شہزادے کے موقف پر تنقید شروع کر دی ہے۔ العربیہ کے مطابق شہزادہ خالد سعودی شاہی خاندان میں اپنے دینی مزاج کے سبب ایک الگ مقام رکھتے ہیں ۔ انھیں سعودی عرب کے دینی حلقوں میں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ایک کاروباری اور حکومت کی جانب سے کھیل فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں ۔ وہ اسرائیل کے زبردست مخالف ہیں ۔ یہی وجہ ہے اخوان المسلمون کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق شہزادہ خالد 2011ء میں اس وقت بھی میڈیا میں موضوع بحث بنے تھے جب اسرائل کے انتہا پسند یہودیوں نے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے تحت رہا ہونے والے فلسطینیوں کو قتل کرنے کیلئے ایک لاکھ ڈالر کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت شہزادہ خالد نے صیہونی اعلان کے مقابلے میں ایک اسرائیلی فوجی کے اغوا پر ایک ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ العربیہ کے مطابق شہزادہ خالد اپنے چھوٹے بھائی اور دنیا کی امیر ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والے شہزادہ ولید بن طلال پر بھی اس کی سرگرمیوں کے سبب تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ ماضی میں شہزادہ ولید نے ایک فلم کی نمائش کرائی تھی جس پر شہزادہ خالد نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کے اثاثے ضبط کرلئے جائیں کیونکہ وہ بدی کو عام کر رہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق شہزادہ خالد کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کا حالیہ اقدام سعودی ریاست اور عوامی حمایت کی بنیادوں کو کمزور کر سکتا ہے۔ ادھر جمعہ کے روز ریاض کی ایک مسجد میں نمازیوں نے جنرل سیسی کے حامی ایک مصری باشندے کی زبردست پٹائی کردی۔ سعودی عرب کی سرکاری پالیسی کے سہارے دلیری دکھانے والے مصری باشندے کو اس وقت سعودی شہریوں نے زد و کوب کیا جب اس نے امام مسجد کی جانب سے مصری اسلام پسندوں کیلئے دعا مانگنے پر امام مسجد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تھا‘‘۔ (جنرل السیسی نے اس رمضان المبارک میں مسجدوں میں اعتکاف کرنے پر پابندی عائد کردی ہے یہ حرکت بھلا کون کرسکتا ہے؟)

 السیسی کون ہے؟  عرب دنیا اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کی ماں مراکشی نژاد یہودی خاتون ہیں ۔ ملکیہ نیتا نے 1952ء میں جنرل سیسی کے والد سے شادی کی تھی اور 1954ء میں عبدالفتاح کی ولادت ہوئی۔ ملکیہ مراکش کی شہریت کے ساتھ 1958ء میں مصری شہریت بھی دیدی گئی، تاہم انھیں 1973ء میں اپنے بیٹے عبدالفتاح کو فوج میں بھرتی کرانے کیلئے مراکش کی شہریت سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ جنرل سیری کے سگے ماموں ’’عوری صباع‘‘ اسرائیل کے قیام کے بعد 1951ء سے 1968ء تک وہاں وزیر تعلیم و تربیت سمیت کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ واضح رہے کہ یہودیت ایک غیر تبلیغی مذہب ہے۔ اس مذہب میں اسی شخص کو یہودی تسلیم کیا جاتا ہے جس کی ماں یہودی ہو۔ اسی اصول کی روشنی میں مذکورہ انکشاف کے بعد سب عرب تجزیہ کاروں اورمذاہب عالم کے ماہرین نے جنرل سیسی کو یہودی ہونے پر یقین کا اظہار کیا ہے۔

 سابق ترک وزیر اعظم اور موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’اخوان المسلمون کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا ماسٹر پلان اسرائیل نے محمد مرسی کے صدر بننے سے پہلے ہی بنا لیا تھا‘‘۔ (معروف جریدہ ڈیلی زماں )

 اسی اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام قطر پر برادران یوسف دے رہے ہیں اور دوسری تنظیم جو اخوان سے نکل کر بنی ہے جو حماس کے نام پر ہے اور اسرائیلی جارحیت کی فلسطین میں مزاحمت کر رہی ہے۔ حماس پر اور غازہ پٹی پر جب ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تو دنیا بھر کے مسلمان حماس کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے فلسطین میں ’الفتح‘ کی ساکھ کمزور ہوگئی ہے۔ محمود عباس جو اس کے سربراہ ہیں ، وہ بھی اسرائیلی اور امریکی پالیسیوں کی زد میں ہیں اب ان میں اور اسرائیلیوں میں فرق نام کا رہ گیا ہے، اس لئے الفتح والوں کو حماس والے بالکل نہیں بھاتے۔

 قطر پر دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ حماس جیسی تنظیم کو سپورٹ کرتا ہے۔ الجزیرہ قطر کا چینل ہے یہ عرب دنیا کا ایک طرح سے اس وقت آئینہ ہے اس سے بھی برادران یوسف پریشان ہیں ۔ ان بادشاہوں اور شیخوں سے اب پردہ بہت جلد اٹھ جائے گا کہ وہ اپنے عوام کے بہی خواہ ہیں یا اسرائیل و امریکہ کے دوست اور بہی خواہ ہیں ۔ مسلمانوں کو شیعہ -سنی کا عینک سے دیکھنے کے بجائے حق کی عینک سے دیکھنا چاہئے۔ بہت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد ہی برادران یوسف میں کیوں اس قدر جوش اور جذبہ ابھر کر آگیا کہ اسرائیل کی سب سے مخالف تنظیم اخوان اور حماس ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی اور ان دونوں تنظیموں کی اخلاقی حمایت کی وجہ سے بادشاہوں اور شیخوں کا عتاب قطر پر بڑھ گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک شیخوں اور بادشاہوں کی جارحانہ پالیسی سے دور ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ نے بادشاہوں اور شیخوں کے مقاطعہ قطر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے کہا تھا کہ ان کے دوریکے اثرات عرب دنیا میں پڑنے لگے۔ اب دوسرا بیان ہے کہ اگر عرب دنیا چا ہے تو امریکہ ثالثی کیلئے تیار ہے۔ یہ ہیں جو جنگ بھی کراتے ہیں اور صلح کرانے کیلئے بھی تیار بیٹھے رہتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔