امن کے علم بردار بنئے

مولانا سراج الدین ندویؔ

(چیئرمین ملت اکیڈمی۔سرکڑہ بجنور،یوپی)

امن انسانی زندگی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح کھانا پانی، امن کے بغیر کوئی سماج اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ امن ہر انسان کی خواہش اور آرزو ہے۔ اس کے باوجودوہ بھی انسان ہی ہیں جو امن کے خلاف حرکتیں کرتے ہیں اور سماج میں بے امنی ہی نہیں بدامنی پھیلاتے ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک بھی بدامنی کی راہ پر ہے۔ جہاں دیکھو کسی کی داڑھی نوچی جارہی ہے ،کسی کو مارا جارہا ہے، چوری،لوٹ اور قتل کے واقعات ہر دن ہورہے ہیں، اس کے علاوہ حکومتی سطح پر ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جو سماج میں بے چینی پیدا کررہے ہیں، کسانوں کا احتجاج سال بھرتک چلنے کے بعدختم ہوا ہے، این آرسی اور سی اے اے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس وقت کچھ مفاد پرست گروہ ملک میں نفرت کا کاروبار کررہے ہیں، ان حالات میں ہرسمجھ دار شخص بے چین ہے، پریشان ہے، کاروبار متاثر ہیں۔ فرقہ بندی عروج پر ہے، عصبیت کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہے۔کوئی شہر کوئی گائوں ایسا نہیں جہاں کچھ شرپسند عناصر ماحول کو خراب نہ کررہے ہوں۔ باقاعدہ بدامنی کے ٹھیکیدار ہیں، دھرم سنسد کے نام پر قتل عام کا اعلان کا کیا جارہا ہے۔

امن کی کوششیں بھی ہورہی ہیں، ہر پولیس اسٹیشن کی نگرانی میں امن کمیٹیاں ہیں، تیوہار کے موقع پر ان کی میٹنگیں بھی ہوتی ہیں، ہر لیڈر خواہ سیاسی ہو یا مذہبی امن کی پکار لگارہا ہے،اخبارات میں مضامین اور بیانات شائع ہورہے ہیں۔ لیکن یہ سب مصنوعی ہے۔ دل صاف نہیں ہیں اور ہاتھ ملایا جارہا ہے۔اخلاق اور کردار کی باتیں عنقا ہوتی جارہی ہیں، جب اور جس وقت جس کا دائوں چلتا ہے وہ پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتا ہے۔نفرت اور تعصبات کی تہیں دبیز ہورہی ہیں۔ اقتدار کی ہوس نے انسانوں کو حیوان بنادیا ہے۔

یہ ملک ہمارا ہے ،ہم سب کا ہے،اس کی تعمیر میں سب کا کردار ہے،اس کی آزادی میں سب کا خون شامل ہے۔اس ملک کو اپنا گھرسمجھئے یہاں کی ہر چیز اپنی ہی ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت ہماری اپنی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس لیے کہ نفرت اور بدامنی کی آگ ہر گھر کو خاک کردے گی، آگ کسی کا مذہب اور مسلک دیکھ کر گھر نہیں جلائے گی بقول شاعر:

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہرشخص کا احترام کیا جائے ، ہرشخص قابل عزت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے۔ لقد کرمنابنی آدم(ہم نے اولاد آدم کو باعزت بنایا ہے)انسان ہونے کی بنیاد پر ہی ہر انسان لائق احترام ہے، اس کا نام ادب سے لیا جائے، اس کی توہین نہ کی جائے، اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، اس کے دھرم اور اس کے عقائد کی تنقیص نہ کی جائے۔ ماضی میں اگر ایسی باتیں ہوئی بھی ہوں جن کی بنیاد پر اختلافات ہیں،تو آج انہیں بھولنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ گزرگئے ان کا حساب لینے کو اللہ کافی ہے۔

ہمارے ملک میں کئی مذہب کے لوگ رہتے ہیں،یہاں ہر سوکلو میٹر پر کلچر اور زبان بدل جاتی ہے، اس لیے ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مذہبی زبان عربی ہے اور برادران وطن کی زبان سنسکرت ہے، اس لیے کبھی کبھی مندر اور مسجد کی اذانوں اور کیرتن پر اعترا ض ہوجاتا ہے، ہمیں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ دوسرا بھی اپنی زبان میں اسی خدا کی عبادت کررہا ہے جس کی ہم کررہے ہیں۔ اگر یہ جذبہ ہوگا تو پھر ایک دوسرے سے محبت پیدا ہوگی۔ ایشور، اللہ، گاڈسب ایک ہی ذات کے نام ہیں۔کوشش کی جائے کہ ہر دھرم کے لوگ اپنے دھرم کے علاوہ اپنے ہمسایوں کے دھرم کی بھی بنیادی باتوں کو جانیں اور سمجھیں۔ اس کے لیے پروگرام ہونے چاہئیں، مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے سمپوزیم اور اجتماعات کا اہتمام کرے جہاں سب دھرموں کے لوگ اپنے دھرم کی بنیادی باتیں عوام کے سامنے پیش کریں۔

ہر انسان خطائوں کا پتلا ہے، غلطی سب سے ہوسکتی ہے، اس لیے ایک دوسرے کو معاف کرنے کا جذبہ پروان چڑھایا جائے۔ اگر کوئی غلطی کرے تو اس کے گھر کے لوگ خود ہی غلطی کرنے والے کی سرزنش کریں۔ کسی بھی ذاتی جھگڑے کو اجتماعی رنگ نہ دیا جائے۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ کوئی شخص نادانی میں یا شرارتاً ہولی کا رنگ مسجد پر ڈال دیتا ہے یا گوشت کا ٹکڑا مندر میں پھینک دیتا ہے، بس اتنی سی بات پر دونوں مذہب کے لوگ آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ خدا اتنا کمزور نہیں ہے کہ کسی کے رنگ یا گوشت کے ذرا سے ٹکڑے سے وہ داغدار ہوجائے، یا اس کی شان میں فرق آجائے۔ اس موقع پر ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے اور سماج کے معزز لوگوں کو آگے آکر مسئلہ کو حل کرنا چاہیے۔

 ہمارے نوجوان اور بچے ہمارا سرمایہ ہیں۔ ان پر ہی مستقبل کا دارومدار ہے۔ یہ ہماری ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے لیے اچھا اور خوش گوار ماحول بنائیں۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہمارا فریضہ ہے، ہر دھرم میں سچائیاں ایک جیسی ہی ہیں۔ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیجیے، انہیں اخلاق کا پابندبنائیے۔ ان کے اندر ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ پیدا کیجیے۔ ان میں لوگوں کی مدد کرنے، بے سہاروں کا سہارا بننے کاجواہر پیدا کیجیے۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ ہم اپنے بچپن میں گائوں کے بڑوں کو تایا اور چچا کہہ کر پکارتے تھے۔ گھر میں جو صفائی کرنے والی مہترانی آتی تھی وہ بھی کسی کی پھوپھی،چچی، یا بڑی ماں ہوا کرتی تھی۔ گائوں کے غیر مسلم بزرگ بڑے ابّا کہے جاتے تھے، اور ہر بڑا اپنے چھوٹوں کو اپنے بیٹے کی طرح پیا ر کرتا تھا۔ گائوں یا محلے میں جس کے گھر خوشی ہوتی ،شادی ہوتی تو سب ہی لوگ خوش ہوتے تھے، کسی کے گھر کوئی موت ہوجاتی تو پورا محلہ اور گائوں سوگوار ہوجاتا تھا۔ لیکن آج کی نئی نسل جوہر وقت موبائل میں مست رہتی ہے اس کے اندر یہ اخلاقی اقدار مفقود ہوتی جارہی ہیں۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ اپنے گھر اور محلے میں ایسی فضا بنائیے کہ ہر انسان دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ اگر کوئی آپ سے نفرت کرتا ہے تب بھی آپ اس سے محبت سے پیش آئیے۔ ایک دن وہ بھی آپ سے محبت کرنے لگے گا۔اسکولوں سے بھی اب اخلاقی درسیات کو نکال دیا گیا ہے۔ اب وہ اساتذہ بھی نہیں رہے جو بھید بھائو سے اوپر اٹھ کر سب کو اپنا شاگرد سمجھتے تھے، مفاد پرستی نے سب کچھ بدل دیا ہے، ضرورت ہے کہ اسکولوں کے نصاب تعلیم میں اخلاقی تعلیمات کو جگہ دی جائے، ایسے تمام اسباق نکال دیے جائیں جو نفرت سکھاتے ہوں، ایسی تاریخ کی کوئی ضرورت نہیں جو ملک کے رہنے والوں کو آپس میں لڑاتی ہو۔ اب ایک نئی تاریخ لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے جو اہل ملک میں بھائی چارہ پیدا کرتی ہو۔ جس میں ایسے واقعات ہوں جو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہوں۔ایسے واقعات کی کمی نہیں جہاں ایک دھرم کے لوگوں نے دوسرے دھرم کے لوگوں کی مدد کی ہے، آج کے نفرت بھرے ماحول میں بھی بعض ایسے واقعات ہورہے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ گڑگائوں جہاں کچھ لوگ نماز کی مخالفت کررہے ہیں وہیں ایسے ہند و بھائی بھی ہیں جنہوں نے اپنے مکان اور گھیر نمازیوں کے لیے کھول دیے ہیں۔ لیکن میڈیا میں نفرت کے واقعات کو توجگہ دی جاتی ہے۔محبت اور مدد کے واقعات سامنے نہیں لائے جاتے۔

امن کے قیام میں میڈیا کا بڑا رول ہے۔آج کل میڈیا سماج کو توڑنے اور نفرت پیدا کرنے کا کام کررہا ہے۔نیتائوں کے وہ بیانات جو نفرت پر مبنی ہوتے ہیں سارے سارے دن دکھائے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلس پر مباحثے ہوتے ہیں۔ لیکن سماج کو ایک کرنے اور نیک بنانے کے نہ واقعات دکھائے جارہے ہیں، نہ ایسے موضوعات پر مباحثے ہورہے ہیں۔ ضرورت ہے ایک ایسے میڈیا کی جو سماج میں محبت اور انسانیت کا پیغام دے۔ سماج کے ان واقعات کو منظر عام پر لائے جو سماج کو جوڑنے والے ہوں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، پرانے واقعات کی ویڈیو وائرل کرکے ماحول خراب کیا  جارہا ہے، ان چیزوں پر قدغن لگانا چاہیے۔

قانون کے محافظ بھی تعصب کا شکار ہیں۔ وہ بھی دھرم اور حلیہ دیکھ کر اپنا کام انجام دے رہے ہیں، رشوت اور گھوس خوری نے انہیں بدعنوان بنادیا ہے۔ پولیس جس کا کام قانون کی پاسداری کرنا تھا، جس کی ذمہ داری تھی کہ امن قائم کرے وہ خود بدامنی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ ضرورت ہے کہ سماج کے لوگ اٹھیں اور خود اپنے سماج کی اصلاح کا کام کریں۔ اگر ہر بستی اور محلے کے چند افراد بھی یہ طے کرلیں کہ ان کے محلے یا گائوں میں فساد نہیں ہوگا، بدامنی نہیں ہوگی تو کسی کی ہمت نہیں کہ وہاں شر اور فساد پھیلا سکے۔آپ مسلمان ہیں۔ آپ دوسروں کی حفاظت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، آپ کا دینی فریضہ ہے کہ امن قائم کریں، آپ کے سامنے حلف الفضول اور صلح حدیبیہ کے واقعات ہیں۔ آپ کے سامنے وہ اسوہ ہے جس نے گالیاں کھاکر بھی دعائیں دی ہیں، جس نے کوڑا ڈالنے والوں کی بھی عیادت کی ہے، جس نے پتھر مارنے والوں پررحمت کے پھول برسائے ہیں۔آپ کو اسی ذات کا واسطہ آپ اپنی ذمہ داری کو پہچانیے، ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہے اور آپ کو آواز دے رہا ہے کہ آپ ابر رحمت بن کر اس آگ کو ٹھنڈا کردیجیے۔ آپ کے پاس ہی امن کا نسخۂ کیمیا ہے، آگے بڑھئے، کسی کا انتظار مت کیجیے۔ امن کا علم اٹھالیجیے، آپ تنہا نہیں ہیں، سماج کی سعید روحیں آپ کے ساتھ ہیں، آپ کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔