امہات المومنین کی معاشرتی زندگی: ایک مطالعہ

اسامہ شعیب علیگ

قدیم اسلامی تایخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور حقیقی نمونہ پیش کرتی ہے۔اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نے مختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے، لیکن امہات المومنین کی حیثیت جامع ہے اوران کے دینی، اخلاقی، معاشرتی اور علمی کارنامے خواتین کے لیے نہ صرف اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں بلکہ انہیں موجودہ دور کے تمام معاشرتی اور تمدنی خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

مادیت کے اس دور میں جب کہ مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں تیزی سے سرایت کررہا ہے اور اس سے متاثر ہ مسلمان خواتین راہِ راست سے بھٹکی ہوئی خواتین کواپنے لیے قابلِ تقلیدسمجھ رہی ہیں تویہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کے سامنے برگزید ہ اور ممتاز خواتین کی صحیح تصویر پیش کی جائے۔ ایک مسلمان خاتون کے لیے امہات المومنین کی زندگی کے تمام پہلوخواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، قابلِ تقلید نمونہ موجود ہیں۔

ذیل میں امہات المومنین کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔

انفرادی زندگی

ذیلمیں امہات المومنین کی انفرادی زندگیوں کی ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کا رہن سہن، کھانا پینا، کفایت شعاری، اور روزمرہ کی زندگی کیسی تھی ؟تاکہ آج کے پرفتن دور میں مسلم خواتین کو ان سے تحریک ملے اوروہ انہیں اختیار کر کے دنیا وآخرت میں کام یاب ہو سکیں۔

طرزِ زندگی

امہات المومنین انتہائی سادہ اور زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں۔ انہیں دنیا کی زیب وزینت اور آرائش سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔آج کی خواتین کی طرح ان کے یہاں پہننے اوڑھنے وغیرہ میں فیشن اور دکھاوا نہیں تھا۔اس کا اظہار ان کے مکان، کھانے اور کپڑے وغیرہ سے بھی ہوتا تھا۔ ایک بار ایک شخص حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے فرمایا: ٹھہرو، میں اپنا نقاب سل لوں۔ اس نے کہا: اگر میں یہ لوگوں کو بتا دوں تو آپ کو بخیل سمجھا جائے گا۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جو لوگ پرانے کپڑے نہیں پہنتے، آخرت میں انہیں نیا کپڑا نہیں نصیب ہوگا۔(۱)

البتہ بسا اوقات امہات المومنین کا انسانی فطرت کے تحت صبر وقناعت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید نفقہ کا مطالبہ کر بیٹھتی تھیں۔ ان کا یہ عمل انسانی مزاج کے مطابق تھا، لیکن چوں کہ وہ امت کی مائیں اور خواتین کے لیے نمونہ تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے ’آیت تخییر‘(احزاب:۲۸-۲۹) نازل کی اور انہیں اختیار دیا کہ وہ دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ تمام امہات المومنین نے بخوشی اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کرتے ہوئے صبر وقناعت کی زندگی اختیار کر لی اور پھر کبھی آپؐ سے نان نفقہ کا مطالبہ نہیں کیا۔

گھریلو کام بذاتِ خود انجام دینا

امہات المومنین اپنے گھر کے سارے کام خود کیا کرتی تھیں۔ آج کی خواتین کی طرح ان کے یہاں نوکرانی اور خانساماں رکھنے اور ان سے کام لینے کا رواج نہ تھا۔ اتنا ہی نہیں ، بلکہ وہ گھریلو کام کاج کے علاوہ صنعت و حرفت بھی کیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ طائف کی ادھوڑی(کھالیں ) بنایا کرتی تھیں۔ (۲)

حضرت زینبؓ چمڑے کو دباغت دیا کرتی تھیں۔ (۳)

فیاضی اور سخاوت

موجودہ خواتین کی طرح امہات المومنین میں مال و مطاع کی حرص نہ تھی اور وہ مال کو جمع کرنے یا رکھنے کی قائل بھی نہیں تھیں۔ فیاضی اور سخاوت کی صفت ان میں عروج پر تھی۔ان کے یہاں کہیں سے کوئی ہدیہ یا تحفہ آتا تووہ اسے اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔ ایک بار حضرت عائشہؓ کوان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اس قدر فیاضی وسخاوت پر ٹوکا تو وہ ان سے سخت خفا ہوئیں اور ان سے بات نہ کرنے کی قسم کھا لی۔(۴)

حضرت زینبؓ بنت جحش بھی فیاضی ا ور سخاوت میں بہت مشہور تھیں اورانہوں نے اپنے اعزہ واقارب کے حقوق ادا کرنے پر خصوصی توجہ دی تھی۔اس پر حضرت عائشہؓ گواہی دیتے ہوئے کہتی ہیں :

ولم أراأمرأۃ قط خیراً فی الدین من زینب وأتقی للہ وأصدق حدیثاً وأوصل للرحم۔(۵)

’’میں نے زینب سے زیادہ دین دار، زیادہ پرہیز گار، زیادہ سچی اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والی عورت نہیں دیکھی۔‘‘

محتاجوں ا ورمسکینوں کی مدد

اللہ تعالیٰ نے غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک پر خصوصی زور دیا ہے۔امہات المومنین نے اس کی اہمیت کو بخوبی سمجھا اور اس پر عمل بھی کیا۔ایک بار حضرت ام سلمہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں اپنے سابق شوہر( ابوسلمہ) کے بیٹوں پر صدقہ کروں تو کیا اس پر مجھے اجر ملے گا؟وہ میرے بیٹے ہیں ، میں انہیں چھوڑ نہیں سکتی۔آپؐ نے فرمایا !ہاں اس پر تمہیں اجر وثواب ملے گا۔ (۶)

موسیقی، مزامیر اور راگ وغیرہ سے اجتناب

مسلم معاشرے میں میوزک، سیریل اور فلمیں دیکھنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی ہے۔امہات المومنین کا اس پر سختی سے عمل رہا اور وہ نہ صرف خود اس زمانے میں رائج ان چیزوں سے دور رہیں ، بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی ان سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ایک بار حضرت عائشہؓ کے گھر میں ایک لڑکی گھنگرو پہنے ہوئے داخل ہوئی تو آپ نے اس پر خفگی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جن گھروں سے اس طرح کی آوازیں آتی ہیں ، وہاں فرشتے داخل نہیں ہوا کرتے۔‘‘(۷)

احکامِ شریعت کی پابندی

ہماری خواتین کی اکثریت جانے انجانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کر جاتی ہے۔ اس کا سبب زیادہ تر دنیا کے رسم ورواج ہیں ، جب کہ امہات المومنین اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی سختی سے پابندی کیا کرتی تھیں اور اس میں رسم و رواج، لوگوں کی فکر اور زمانے کا خوف آڑے نہ آتا تھا۔ حضرت زینب بنت جحشؓ کے بھائی کے انتقال کے چوتھے دن کچھ خواتین آپ کے پاس تعزیت کے لیے حاضر ہوئیں ، آپؓ نے ان کے سامنے خوشبو منگا کر لگائی اور فرمایا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:

’’کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ سوائے شوہر کے تین دن سے زائد کسی کا غم منائے یا ماتم کرے۔‘‘(۸)

قسموں کی پابندی

موجودہ دور میں خواتین اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بات بے بات پر غلط صحیح قسمیں کھایا کرتی ہیں اورانہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے، جب کہ ازدواج مطہرات کا یہ عمل تھا کہ وہ بہت کم قسمیں کھاتی تھیں اور اگر ایسا کیا بھی تو اسے پورا بھی کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے ایک بار حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے خفا ہوکر ان سے بات نہ کرنے کی قسم کھا لی۔انہوں نے معافی مانگی اور صحابۂ کرام سے سفارش کرائی تو آپؓ نے فرمایا:

انی نذرت و النذر شدید۔

’’میں نے نذر مان لی ہے اور نذر کا پورا کرنا اشد ضروری ہے۔ــ‘‘

بالآخر آپؓ نے انہیں معاف کرتے ہوئے قسم توڑی اورکفارۂ قسم کے طور پر چالیس غلام آزاد کیے۔(۹)

یتیموں کا خیال رکھنا

تمام ہی امہات المومنین یتیموں مسکینوں کا حتیٰ الامکان خیال رکھتیں تھیں۔ ان کی تعلیم وتربیت اور پرورش کا خصوصی اہتمام کرتی تھیں اور ان کے مالوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں ، تاکہ ان زندگی بہتر سے بہتر ہو سکے۔ حضرت عائشہؓ یتیموں کا مال لوگوں کو تجارت کی غرض سے دیا کرتی تھیں ، تا کہ اس میں بڑھوتری ہوتی رہے۔(۱۰)

 اجتماعی زندگی

امہات المومنین کی انفرادی زندگی کی طرح ان کی اجتماعی زندگی بھی مسلم خواتین کے لیے مختلف پہلوؤں سے قابلِ نمونہ اورمشعلِ راہ ہے کہ انہوں نے کس طرح سے اپنے درمیان اجتماعی معاملات روا رکھے؟ان کے درمیان فطری نوک جھوک ہوئی تو اس کی نوعیت کیا تھی؟دیگر صحابیات سے ان کا کیا طرزِ عمل رہا؟ان کامعاشرے کی اصلاح اور علم کے فروغ میں کیا کردار رہا ؟ذیل میں اس سلسلے کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

 آپسی تعلق

امہات المومنین کا آپسی تعلق زیادہ ترخوش گوار رہا، باجود اس کے کہ ان میں سوکنوں والا رشتہ تھا۔وہ آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتی تھیں۔ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں اورآپس میں ہنسی مذاق کیا کرتی تھیں۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو آج کی خواتین کے لیے بہت قابل قدر ہے۔

حضرت سودہؓ دجال سے بہت ڈرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ نے ان سے مذاقاً کہا کہ دجال نکل آیا ہے۔وہ گھبرا کر ایک خیمے میں گھس گئیں اور یہ دونوں ہنستے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اورانہیں اپنے مذاق کی خبر دی۔آپؐ ہنسے اور حضرت سودہؓ کو آواز دے کر باہر بلایااور بتایا کہ ابھی دجال کا خروج نہیں ہوا ہے۔(۱۱)

امہات المومنین دوسروں کو خود پر ترجیح بھی دیاکرتی تھیں ، جب کہ عورت کا سوکن کو اپنی ذات پر ترجیح دینا واقعی تعجب خیز عمل ہے اور اس کی مثال شاذونادر ہی نظر آئے گی۔حضرت سودہؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی۔اس پر وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ان کی تعریف میں فرمایا:

   ’’مجھے سب سے زیادہ یہی بات پسند آئی اور میری خواہش ہوئی کہ میں بھی سودہ بنت زمعہ جیسی بن جاؤں۔ ‘‘(۱۲)

فطری نوک جھوک اور رشک ومقابلہ

امہات المومنین اگرچہ امت مسلمہ کی مائیں تھیں اور ان کا مقام دیگر عورتوں سے کہیں زیادہ بلند وبالا تھا۔اسی لحاظ سے ان کی تعلیم و تربیت بھی کی گئی تھی، لیکن ان میں بھی آپسی رشک اور مقابلہ آرائی وغیرہ کا فطری جذبہ موجودتھا، جو کبھی کبھی غالب آجاتا تھا۔اس کا اہم پہلو یہ تھاکہ یہ وقتی اور معمولی ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا یا بدکلامی کی نوبت نہیں آتی تھی اوراس پر بھی اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے انہیں تنبیہ کر دی جاتی تھی۔ حدیث کی کتابوں میں اس طرح کے بعض واقعات مروی ہیں ، لیکن انہیں یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

باہمی عفوودرگذر

امہات المومنین ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتیں تھیں اور عفوودرگذر سے کام لیتی تھیں۔ انہوں نے کبھی دوسرے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ان کا یہ پہلو بہت ا ہمیت کا حامل ہے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان نوک جھوک ہوا کرتی تھی، لیکن جب اول الذکر کے ساتھ واقعۂ افک پیش آیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثانی الذکر سے حضرت عائشہ کے اخلاقی حالات دریافت کیے تو انہوں نے بجائے انتقام لینے یا انہیں آپؐ کی نظر سے گرانے کے بجائے فرمایا:

’’مجھے ان میں بھلائی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔‘‘

حضرت زینبؓ کی اس صاف گوئی کا اعتراف حضرت عائشہؓ نے بھی کیا اور فرمایا:

وھی التی کانت تسامینی فعصمھا اللہ بالورع۔(۱۳)

’’وہ اگرچہ میری حریف تھیں ، لیکن خدا نے تورع کے وجہ سے ان کو بچا لیا۔‘‘

باہمی تعاون

امہات المومنینایک دوسرے کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہا کرتی تھیں۔ حضرت زینبؓ کی بیماری میں حضرت عمرؓ نے امہات المومنین سے پوچھا کہ ان کی تیمار داری کون کرے گا؟سب نے رضامندی ظاہر کی۔پھرجب ان کا انتقال ہوگیا تو پوچھا گیا کہ ان کو غسل اور کفن دفن کون دے گا ؟اس پر تمام امہات المومنین کا جواب تھا کہ ہم سب کریں گے۔ (۱۴)

امہات المومنین نہ صرف باہمی تعاون کرتیں تھیں ، بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کیا کرتیں تھیں۔

حضرت صفیہؓ سے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہؓ سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے آپؐ کو راضی کریں ، وہ بدلے میں اپنی باری ان کودے دیں گی۔ (۱۵)

معاشرے کی اصلاح

امہات المومنین نے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کی کوشش کیں اور جہاں بھی انہیں لوگوں کی طرف سے عقائد، ارکان، معاملات اور دیگر چیزوں میں کوئی کمی یا غلطی نظر آئی، اس پر متنبہ کیا۔زمانہ جاہلیت میں ایک عقیدہ یہ تھا کہ بچوں کے بستر کے نیچے استرا رکھا جاتا تھاتا کہ وہ آسیبوں اوربیماریوں سے محفوظ رہیں۔ ایک بار حضرت عائشہؓ نے ایک بچے کے پاس استرا رکھا دیکھا تو سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوٹکے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔‘‘(۱۶)

حضرت حفصہؓامت کے درمیان اختلافات کو سخت ناپسند کرتی تھیں۔ واقعۂ تحکیم کے بعد ان کے بھائی عبداللہ بن عمرؓنے اسے فتنہ سمجھ کر گوشہ نشین ہونا چاہا تو آپ ؓ نے اس پر ان کو منع کیا اور فرمایا:تمہیں اس میں شریک ہونا چاہیے کیوں کہ لوگوں کو تمہاری رائے کا انتظار رہے گا۔ممکن ہے کہ تمہاری یہ گوشہ نشینی ان کے درمیان اختلاف پیدا کر دے۔(۱۷)

علمی کارنامے

ازدواج مطہرات علمی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہیں ، بلکہ علم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سیکھا اسے عوام الناس تک بحسن و خوبی پہنچایا، جس سے خصوصاً عام خواتین کوبہت فائدہ پہنچا۔امہات المومنین کو اسلامی علوم قرآن، حدیث، فقہ اور علم فرائض وغیرہ میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اورحضرت ام سلمہؓ کو قرآن کریم پورا یاد تھا۔(۱۸)

تفسیر میں اول الذکر کو خصوصی مہارت حاصل تھی۔حدیث میں حضرت عائشہؓ(۲۲۱۰، احادیث)، حضرت حفصہ(۶۰، احادیث) حضرت ام سلمہؓ (۳۷۸، احادیث)، حضرت سودہؓ (۵ ا، حادیث) کے نام قابل ذکر ہیں۔ (۱۹)

فقہ کے میدان میں حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ کے نام مشہور ہوئے۔علمِ فرائض میں حضرت عائشہؓ سب سے زیادہ مشہور ہوئیں ، صحابہ کرام کی اکثریت نے ان سے اس میدان میں استفادہ کرتے ہوئے مسائل دریافت کیے ہیں۔ (۲۰)

انہی اسباب سے حضرت عائشہؓ کو علمی میدان میں دیگر ازدواج مطہرات پر فوقیت حاصل ہے۔امام زہری اس پر فرماتے ہیں :

لو جمع علم عائشۃالی علم جمیع أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلم جمیع النساء لکان علم عائشۃ أفضل۔(۲۱)

’’اگرعائشہؓ کا علم دیگر ازواج مطہرات اور تمام عورتوں کے علم کے ساتھ جمع کردیا جائے تو اس میں حضرت عائشہؓ کا علم سب سے افضل ہوگا۔‘‘

امہات المومنین کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اس مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذات وصفات، کرداروعمل، اخلاص وایثار، جودوعطا، ایمان واتقان اورعلم وفضل کے میدان میں اپنی مثال آپ تھیں۔ ان کی یہ صفات آج کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں ، بہ شرطے کہ حقیقی معنوں میں ان پر عمل کیا جائے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔آمین۔

حواشی وحوالہ جات

(۱)     الأدب المفرد:۴۷۷

(۲) الاصابہ:۱۱۱۰۷

(۳) الاصابہ:۱۱۲۲۷

(۴) بخاری:۳۵۰۵

(۵)مسلم:۶۲۹۰

(۶) مسلم:۲۳۲۰

 (۷) مسند احمد :۲۶۰۵۲

(۸) سلسلۃ احادیث الصحیحۃ، البانی:۱۲۰۹

(۹) بخاری:۶۰۷۳

(۱۰) مؤطا:۵۹۱

(۱۱) الاصابہ:۱۱۱۰۷

(۱۲) مسلم:۴۷

(۱۳) بخاری:۲۶۶۱

(۱۴) طبقات ابن سعد:۴۱۲۴

(۱۵) مسند احمد:۲۶۸۶۶

(۱۶)۱لأدب المفرد:۹۳۸

(۱۷) بخاری:۴۱۰۸

(۱۸) فتح الباری:۵۰۰۳

(۱۹) ابن سعد:۴۱۲۰

(۲۰) ابن سعد:۴۱۲۰

(۲۱) الاستیعاب:۴؍۱۸۸۳

تبصرے بند ہیں۔