’امیر خسرو اور انسان دوستی‘ کے موضوع پر خطبہ

جاوید رحمانی

27؍اکتوبر 2017 (پریس ریلیز)امیر خسرو کا شمار اپنے زمانے ہی کے نہیں بلکہ ہر زمانے کے بڑے آدمیوں میں ہوتا ہے۔ وہ جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ امیر خسرو ہندستانی تھے اور ہندستانی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ امیر خسرو کی تاریخ ساز شخصیت اور ان کی عظم الشان خدمات کا نمایاں پہلو ان کی ہندوی شاعری ہے۔ خسرو نے اپنی 74 برس کی عمر میں سات سلطانوں کا زمانہ دیکھا۔ اکثر نے ان پر عنایت کی اور اپنے خاص ندیموں میں جگہ دی۔ خسرو کو ابتدائی جوانی میں محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی خدمت کا فیضان حاصل ہوا۔ ان کی صحت میں دنیا کے علائق سے تیاگ اور قناعت کی برکت ملی۔ خسرو کے کلام میں تیرہویں اور چودہویں صدی کے ہندستان کی ذہنیت کا بڑا سنہرا عکس دکھائی دیتا ہے۔

خسرو صوفی منش درویش انسان تھے، ان کی نگاہ بلند تھی اور ان کے دل میں وسعت تھی۔ ان کی شاعری بھی ان صفتوں کی حامل ہے۔ شاعروں میں ان کا پایہ اونچا ہے۔ ہندستان میں کوئی ان کا مثل پیدا نہیں ہوا۔ امیر خسرو ان روشن خیال ہستیوں میں تھے جنھوں نے اس ملک میں انسان دوستی کی شمع روشن کی اور حبِ بشر کی نہ صرف تبلیغ کرتے رہے بلکہ اپنی ذات سے حبِ بشر کا پیکر بن گئے مگر ان کا انسان فلسفیوں کا خیالی انسان نہیں تھا بلکہ گوشت پوست کا چلتا پھرتا انسان تھا۔ اِن خیالات کا اظہار معروف اسکالر، دانش ور اور تقریباً تین درجن سے زائد اہم کتابوں کے مصنف مولف پروفیسر سیّد تقی عابدی نے 27 اکتوبر 2017 کو انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیرِ اہتمام اردو گھر میں منعقدہ ڈاکٹر خلیق انجم یادگاری خطبات کے سلسلے کا اولین خطبہ ’’امیر خسرو اور انسان دوستی‘‘ کے موضوع پر اپنے عالمانہ مقالے میں کیا۔

 پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ خلیق انجم یادگاری خطبات کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کرنل بشیر حسین زیدی کہا کرتے تھے کہ میرے پا س ایک جن ہے اور وہ ہے ڈاکٹر خلیق انجم۔ ان سے جو کام کرنے کو وہ ہوجاتا ہے۔ خلیق انجم ہمیشہ اپنے آپ کو مصروفِ کار رکھتے تھے۔ یہ اردو گھر کا موجود ہونا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

  پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ خلیق انجم اس زمانے میں خط و کتابت کے ذریعے انجمن کو پوری دنیا میں متعارف کرنا چاہتے تھے۔ان کی خدمات قابلِ ذکر ہے، اس لیے ان کی یاد میں یہ یادگاری خطبات جاری رہنا چاہیے۔

 جلسے کے آغاز میں امیر خسرو اور خلیق انجم کو جناب متین امروہوی نے منظوم خراجِ عقیدت اور پروفیسر سیّد تقی عابدی کو بھی منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس جلسے کی نظامت کے فرائض غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیّد رضا حیدر نے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔

تبصرے بند ہیں۔