نعت گوئی اور مدحت رسول

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف میں کہے گئے اشعار کو اردو اور فارسی زبان میں ’’نعت‘‘ کہتے ہیں، عربی زبان میں لفظ ’’نعت‘‘ وصف اور بیان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ؛ لیکن اس مفہوم میں نہیں جس میں یہ لفظ ارود اور فارسی میں استعمال ہوتا ہے، نبی کریم ﷺکی تعریف وتوصیف پر مشتمل کلام کو عربی میں ’’مدح النبی‘‘ یا ’’المدائح النبویۃ‘‘ کہاجاتا ہے۔

اسلام کے اوائل اور شروع میں ہی شعراء نے نبی کریم ﷺ کی مدح وتوصیف کے بارے میں اشعار کہنے شروع کردیئے تھے، مشہور شعراء رسول میں حسان بن ثابت، عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر، کعب بن مالک، عباس بن مرداس رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دیگر شعراء نے آپ کی شان اور مدحت میں قصیدے لکھے ہوئے ہیں۔

 عربی زبان میں نعت گوئی کا آغاز اس طرح شروع ہوا کفار مکہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے بجائے ’’مذمم ‘‘ کہتے تھے، اور آپ ﷺ کی ہجو کرتے تھے، ’’نعوذ باللہ من ذلک ‘‘ چنانچہ گستاخی رسول کے جواب میں مسلمان شاعروں نے مؤثر طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کئے، نعت نگاری اسی لسانی جہاد کا ایک حصہ ہے، دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ شعراء نبی کریم ﷺ کے حسب ونسب، کرداروصفات، توصیف وستائش، شجاعت وسخاوت، دیانت وامانت، صداقت وعدالت، جود وسخا، فضل وعطا، علم وحلم، نجات وشرافت، اخوت محبت، رحمت وشفاعت، محبت وشفقت، جمالِ ظاہری، حسن باطنی اور دوسرے پیغمبروں کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان فرمائی، مضامین نعت میں آپ ﷺ کے ایفائے عہد، عیاد ت وتعزیت کے طریق، انسانی ہمدردی اور غم خواری، مہمان نواز ی، دشمنوں سے حسن سلوک، عفو ودر گذر، حسن معاملات، وسعت قلبی، وعالی ظرفی، ایثار واحسان، رفتار وگفتار اور مجلسی آداب کا بیان بھی ہے، ثقافت ومدنیت، معاشرت وسیاست، تاریخ وتہذیب بھی نعت کا موضوع بنے ہیں، اتنا ہی نہیں، آپ ﷺ سے والہانہ محبت کے سبب نعت گو شعراء نے آپ + کے نعلین، لعاب، پسینہ، خاکِ راہ، سنگ درِاقدس، روضہ اقدس کی سبزجالیاں، گنبد خضراء، روضہ رسول اور مسجد نبوی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے، تمنائے زیارت، خواب میں دیدار نبی کی آرزو، مدینہ میں دفن ہونے کی خوہش بھی نعت کے موضوعات میں شامل رہی ہے، نعت گو شعراء نے ان موضوعات کو تمام تر جزئیات کے ساتھ انتہائی احترام اور شیفتگی سے جزوِ نعت بنایا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب اسلام کا سورج عرب سے باہر جلوہ فگن ہوا تو اس سے بے شمار ممالک نورِ اسلام سے معمور ہوگئے، قرآن کی تعلیم کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت بھی دلوں کو زندہ کرتی گئی اور ہر زبان کے شاعروںاور ادیبوں نے محبت آمیز خطبے اور دل آوویز نعتیہ نغمے ایجاد کئے، اس طرح نعتِ رسول، جُوبہ جُو، در یا بہ دریام اور یم بہ یم بساط عالم پر چھاگئی، بعد ازاں زمان ومکان کی بدلتی ہوئی صورت حال میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے نئے نئم پہلو ظاہر ہوئے تو آپ ﷺ کے حوالے سے شعبہ ہائے زندگی کے تمام تر موضوعات شامل نعت ہوگئے، جن کی بوقلمونی اور رنگا رنگڑ، دورِ جدید کی نعتوں میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتوصیف کے علاوہ آپ ﷺکی ذات، صفات تعلیمات اور قومی وملی مسائل کے اذکار کو ایک قرینے اور سلیقے سے اپنے اندر سمو لیا۔

عرب شعراء کے تتبع میں دیگر زبانوں خصوصا فارسی میں بہت زیادہ نعتیہ قصائد اور نعتیں کہی گئیں، اس سلسلے میں ہمیں عطار، رومی، نظامی، جامی، خسرو، فیضی، سعد، عرفی، قدسی، قآنی اور دیگر بے شمار شعراء نظر آتے ہیں جن کے نعتیہ کلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سمندر موجز ن ہیں، انہی سمندروں سے نعت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے بادل اٹھے  اور ہمار ی اردو شاعری کو سیراب کرتے چلے گئے، جب دکن سے اردو شاعری کی موجیں شمالی ہند کی جانب بڑھیں تو دیگر اصناف سخن کے ساتھ نعت ومنتقب کے دھارے بھی گلستانِ ادبِ اردو میں موجویں مارنے لگے، ولی دکنی سے لر کر امیر مینائی تک اردو شعراء کی ایک کھیپ ہمیں نعت سرائی میں مگن نظر آتی ہے، پھر حالی سے ہوتی ہوئی یہ روایت ظفر علی خان تک قوتع وتوانائی کا ایک عظیم مینار بن کر ہمائے سامنے آئی۔

اقبال کے یہاں نعت  آفاقی منازل تک صعود کر گئی، اور پھر اس کی روشنی کچھ اس طرح پھیلی کہ شاید کوئی ہی ایسا شاعر ہوگا جسنے نعت نہ کہی ہوگی۔اور اپنے علم وعرفان کی پوری صلاحیتیں عقیدت ومحبت کے گل ہائے رنگا رنگ کے گلدستے سجانے میں مصروف نہ ہوںگی۔

 یہاں صفی لکھنوی ؛(متوفی : ۱۹۵۰ء) کی اس نعت رسول کو دیکھئے کیسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادت واطوار اور آپ کے احسان وانعام اور اسلام کی خوبیوں کا آفاقی ذکر بتدریج اپنی اس نعت شریف میں کیا ہے :

اعجاز ہی اعجاز تھے اطوار محمد

رفتار محمد ہو کہ گفتار محمدﷺ

 وہ سادگئی وضع وہ اندازمساوات

 سرمایۂ آرائش ِ دربارِ محمدﷺ

سلمان وسلیمان میں نہ تھأ فرق وہاں کچھ

تھا ظلّ ہُما سایہ دیوار محمدﷺ

  اقوام کو کس قعر ِ مذلت سے نکالا

 دنیا پہ ہے احسانِ گراں بارِ محمد ﷺ

اسلام جو آشتی وامن کا پیغام

سمجھو تو اسے مسلکِ ہموارِ محمدﷺ

 فطرت کے قوانین کا مجموعہ ہے اسلام

  ہر قلبِ حق آگاہ طرف دارِ محمد ﷺ

مقصود نہ تھی جنگ سے تسخیرِ ممالک

پیکارِ حکیمانہ تھی پیکارِ محمد ﷺ

  اس وقت دیا اذن پئے جنگ دفاعی

  ہونے لگے مقتول جب انصار محمدﷺ

آقائے دو عالم کے غلاموں سے تو پوچھو

آزادوں سے بہتر تھے گرفتار محمد ﷺ

 ہم جنسوں کی اصلاح میں عمر بسر کی

   اللہ رے صفی جذبہ ایثارِ محمد ﷺ

حضرت امیر مینائی نے نعت جن اشعار سے واقعہ نگاری، اہل زبان کی فصاحت، محاورات کا لطف کے ساتھ خاص ترنم اور بحر کی موزونیت اور عشق وارفتگی اور مدحت رسول کا نمونہ پیش کیا ہے، چند اشعار خدمت حاضرین ہیں:

خلق کے سرور، شافع محشر، صلی اللہ علیہ وسلم

   مرسل داور، خاص پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم

نور مجسم، نیر اعظم، سرور عالم، مونس آدم

نوح کے ہمدم، خضر کے رہبر صلی اللہ علیہ وسلم

دولت دنیا خاک برابر، ہاتھ کے خالی دل کے تونگر

مالک کشور، تخت نہ افسر صلی اللہ علیہ وسلم

چشمہ جاری، خاصہ باری، گرد سواری، باد بہاری

آئینہ داری، فخرسکندر صلی اللہ علیہ وسلم (کاروان مدینۃ :۱۷۷)

خواجہ الطاف حسین حالی نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت اور نغمہ سرائی کا نمونہ پیش کیا ہے، وہ اپنی مثل آپ ہے، جو ہر بچہ بچہ کی ورد زبان ہے، وہ یوں ثناء خواں ہیں:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں، غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے برائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماوی

یتیموں کا والی غلاموں کا مولی

 خطا کار سے در گذر کرنے والا

بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

مفاسد کو زیر وزبر کرنے والا

قبائل کو شیر وشکر کرنے والا

اتر کر حراء سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا (کاروان مدینہ:۱۷۹)

اقبال احمد خان سہیل کی مدح رسول پر مشتمل نعت گوئی اور ثنا خوانی سے کون واقف نہیں، کلام کی برجستگی، الفاظ کی آورد، بندش کی پختگی سامعین کے لئے سماں بندھ دے گی۔

احمد مرسل،فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم

مظہر اول، مرسل خاتم، صلی اللہ علیہ وسلم

جسم مزکی، روح مصور، قلب مجلی، نور مقطر

حسن سراپا، خیر مجسم، صلی اللہ علیہ وسلم

کفر کی ظلمت جس نے مٹائی، دین کی دولت جس نے لٹائی

لہرایا توحید کا پرجم صلی اللہ علیہ وسلم

 اس کے بعد مدحت رسول کے عظیم شاعر، جنہوں نے عشق رسول اور مدحت رسول کا پاکیزہ اور آپ کے کارناموں کا حسین گلدستہ اپنی نعتیہ شاعری میں پیش کیا ہے :

کچھ کفر نے فتنے پھیلائے، کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے

سینوں میں عداوت جاگ اٹھی، انسان سے انسان ٹکرائے

پامال کیا، برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے

جب ظلم وستم حد سے گذرے تشریف محمد لے آئے

رحمت کی گھٹائیں لہرائیں، دنیا کی امیدیں بر آئیں

اکرام وعطا کی بارش کی، اخلاق کے موتی برسائے

تہذیب کی شمعین روشن کی، اونٹوں کے چرانے والوں نے

کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، ذروں کے مقدر چمکائے

تلوار بھی دی، قرآن بھی دیا، دنیا بھی عطا کی عقبی بھی

مرنے کو شہادت فرمایا، جینے کے طریقے سمجھائے

(کاروان مدینہ : ۱۸۶)

ظفر علی خان کے یہ مدحت رسول پر مشتمل اشعار بھی دلوں کی دنیا بدلنے اوردریائے عشق رسول کی غوطہ خوری اور محبت وعقیدت کا انمول اور بیش بہا نمونہ عطا کرتے ہیں:

وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں

گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہو گلزار میں، یہ نور نہ ہو سیاروں میں

جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا، اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا

وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند ارشاوں میں

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے

ڈھونڈنے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآن کے سی پاروں میں

ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بو بکر وعمر عثمان وعلی

ہم مرتبہ ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں۔

(کاروان مدینہ : ۱۸۰)

حاضرین مدح رسول صلی اللہ علیہ میں جو نعت گوئی شکل میں دور رسالت سے چلی آرہی ہے، ہم نے صرف اس کے چند اردونمونے ہم نے اپنے اردو بھائیوں کے گوش گذار کی ہیں، ورنہ ان شعراء کی طویل فہرست جنہوں نے حب نبوی اور عشق رسول کا  زمزمہ گایا اور   اور اپنی عقیدت ومحبت اور وارفتگی اور حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بیش بہا اور انمول تحفہ نعت گوئی کی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا جو امت کے بچے بچے کے زبان زد ہیں، وہ ان اشعار کے گنگاتے ہیں اور اپنی خوش آزوای اور اپنے ممتاز ومنفرد ترنم اس کا ایسے زیر وبم پیش کرتے ہیں، حاضرین عشق رسول اور محبت رسول کے دریا میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں۔

آج کے ان حالات میں جب کے ہر جگہ دنیا کے کونے کونے خونِ مسلم کی ارزانی کا حال مت پوچھئے، آج کے نمرود اور فرعون، قارون وہامان اور وقت کے تانا شاہ اپنی توانائیوں کے اظہار اور قوت وشوکت کے مظاہر ے میں مسلم امت کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، ایسے میں اسوہ رسول کی دنیا کے ہر ہر فرد کے سامنے پیشکشی اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی وکریمی، مظلوموں کو تو چھوڑیئے، واقعی قرار مجرموں کو بھی بخشش کا ایسا پروانہ عطا کیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ِکریمی سایہ عاطفت سے محظوظ ہوکر داخل ِ حظیرہ اسلام ہوگئے، یہ نعت محفلیں کا انعقاد بھی اسی پیغام رسول کو عام کرنے اور مدحت رسول کی ایک صنف نعت گوئی کہ جو پیغام رسول کو عام کرنے کا ایک منفرد ہتھیار ہے، موجودہ نعت گو شعراء کی شکل میں جنہوں نے مدحت رسول انمول موتیوں کو الفاظ کے پیرائے میں پیرویا ہے، وہ پیش کریںگے۔

وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین

تبصرے بند ہیں۔