بھوک سے آزاد ی کا خواب آخر کب شرمندۂ تعبیرہوگا؟

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

دنیا کے کئی ملک اب بھی غریبی اور بھوک سے  متاثرہیں۔ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ نے اس کاگوشوارہ جاری کیا ہے۔ 119 ممالک کے عالمی ہنگرانڈیکس میں بھارت 100ویں مقام پرآگیا ہے۔ گزشتہ سال یہ 97ویں پائیدان پر تھا۔ جبکہ سال 2015میں 117ملکوں کی فہرست میں اسے 80 ویں نمبر پر رکھاگیا تھا۔ پچھلے تین سالوں میں بھارت کی رینکنگ میں 45درجات کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ تین سال قبل تک ملک 55ویں رینک پر تھا۔ ہنگر انڈیکس میں کسی بھی ملک کا مقام غذائیت کی کمی ، بچوں کی اموات کی شرح، لمبائی اور وزن کی چار کسوٹیوں کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ بھارت کی حالت اپنے پڑوسی ممالک چین، نیپال، میانمار،سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی بدتر ہے۔ عالمی پابندیوں کو جھیلنے والاشمالی کوریا، تین دہائیوں سے جنگ اور دہشت گردی کا سامنا کرتا عراق اور فاقہ کشی کے شکار سہارا ملکوں سے بھی بھارت کا حال گیا گزرا ہے۔ اس کی خوفناک اصلیت کا ٹھوس ثبوت جھارکھنڈ کے سمڈیگھا ضلع کے ایک گائوں کی 11سالہ بچی سنتوش کی موت کی شکل میں آیاجو دم توڑتے ہوئے بھی بھات بھات کہہ رہی تھی۔

اس خبر نے ملک کی ترقی، غریبوں کیلئے وقف حکومت کے دعووں اور پالیسی سازوں کی ترجیحات کی پول کھول کررکھ دی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے 795 فاقہ کشی کے شکارلوگوں میں سے 23فیصد صرف بھارت میں رہتے ہیں۔ 19 کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ 19.07کروڑ لوگ غذائیت کی کمی کے شکار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچوں کو تغذیہ بخش خوراک نہیں مل پاتی، جس کا اثر دماغی وجسمانی نشونما، پڑھائی لکھائی اور غوروفکر کی صلاحیت پرپڑتا ہے۔ رپورٹ میں ایسے بچوں کو اسٹینڈیڈ کہا گیا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (2015-16) کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 35.7فیصد بچوں کا وزن کم ہے اور 38.4فیصد عدم تغذیہ کے شکار۔ملک کی 51 فیصد نوجوان خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں 35.6فیصد عورتیں اور 34.2 فیصد مردوںکا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) 18.5سے کم ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق 17 سے 18.4 بی ایم آئی والوں کو عدم غذائیت کا شکار کہا جاتا ہے۔ 16 سے 16.9 کے بیچ والوں کو سنگین طورپرعدم غذائیت کاشکار اور 16 سے کم والوں کو بھکمری کا شکار سمجھاجاتاہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس میں 31.4 پوائنٹ کے ساتھ بھارت سنگین فاقہ کشی والے میں زمرے میں پہنچ گیا ہے، جس پر فوراً جنگی سطح پر کام کئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ بھارت اپنی ضرورت سے زیادہ اناج وخوردنی اشیاء پیدا کرتا ہے اور پارلیمنٹ میں فوڈ تحفظ بل پاس کرکے اپنے شہریوں کو کھانا مہیا کرانے کی ضمانت دے چکا ہے۔

فوٹ سیکورٹی بل کی منظوری کے بعد کم خوراکی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے سرکار کئی سطح پر کام کررہی ہے۔ اسکولوں میں مڈڈے میل، ضلع اسپتالوں کے ساتھ قلت تغذیہ کے شکار بچوں وخواتین کیلئے الگ وارڈ کا قیام، آنگن واڑی مراکز کے ذریعہ حاملہ خواتین اور بچوں کو تغذیہ بخش خوراک کی فراہمی وغیرہ اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ رپورٹ سے ان کوششوں پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2016 کی رپورٹ میں مدھیہ پردیش کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک بتایا گیاتھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مدھیہ پردیش میں بھوک کے اعدادوشمار ایتھوپیا یا وسطی افریقی ملک چاڈ کی طرح ہیں۔ گزشتہ دنوں انسانی حقوق کمیشن نے بھی غذائی قلت کی وجہ سے 116 بچوں کی موت پر ایم پی کے شیوپور ضلع کو نوٹس جاری کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ تمام وسائل اور کوششوں کے باوجود ملک بھوک کے معاملہ میں کیوں پچھڑ رہا ہے؟ کیا مرکز اور ریاستوں کے درمیان تعاون کی کمی ہے یا بے حسی، وسائل کی تقسیم میں نابرابری ہے یا سماج کا باہمی مدد کا نظام کمزور پڑ رہا ہے۔ مسلم سوسائٹی کا اتنا اثر تو ملک پر پڑا ہی تھا کہ پریشانی میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کیلئے دوڑ پڑتے تھے۔ نفرت کی آندھی اور پونجی واد نے برابری اور تعاون کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے۔ عالمی نابرابری انڈیکس میں بھارت 180ممالک میں 135ویں مقام پر ہے۔وہیں انسانی ترقی کے معاملے میں 130ویں پائیدان پر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیز ی سے ترقی پارہی معیشت اور ٹیکس کی اصلاحات کا فائدہ سب کو نہیں مل رہا۔ کچھ لوگ خوب ترقی کررہے ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ بے حال ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے نابرابری اور مادہ پرستانہ سوچ میں اضافہ ہورہا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس نے زمینی سطح پر مرتب ہورہے خوفناک اثرات کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔ لیکن اس پر جیسی بے چینی دیکھی جانی چاہئے تھی، وہ ہمارے سماج، سیاست، کارپوریٹس اور میڈیا میں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس صورتحال سے امیر لوگوں کو تو کم ازکم دکھی ہونا چاہئے تھا، کیوں کہ دنیا اگر انہیںفاقہ کش اور برباد لوگوں کے ملک کا’امیر‘ کہے گی تو کیسا لگے گا۔

دنیا کے سب سے خوشحال کہلانے وا لے علاقہ یورپ میں کون سا ایسا دیش ہے، جہاں بھارت کی طرح ایک فیصد لوگ ملک کے 58 فیصد وسائل پر قابض ہوں اور دس فیصد لوگ 80 فیصد وسائل پر؟ تیزی سے بڑھتی اس نابرابری پر کون فکر مند ہے؟ ملک کے پالیسی سازوں کو کیا اس کی فکر ہے؟

دنیا کی قریب75 فیصد آبادی غریب ہے۔ اس کی زندگی کا دارومدار کھیتی اور قدرتی وسائل پر ہے۔ کھیتی دھیرے دھیرے گھاٹے کا سودا بنتی جارہی ہے اور قدرتی وسائل سکڑ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کھانے کو لے کر فکر بڑھ رہی ہے۔ لوگ گائوں سے شہروں کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2050تک بھارت کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں منتقل ہوجائے گی۔ دوسری طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2050 تک دنیا کی آبادی میں 10 بلین کا اضافہ ہوجائے گا جبکہ کھیتی میں 50 فیصد ہی اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ گائوں کو اس لائق بنایا جائے کہ وہاں کے رہنے والوں کو وہیں روزگار مل جائے۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کھیتی اور گائوں کے تعلق سے از سر نو منصوبہ سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ بھوک اور عدم غذائیت سے 2030 تک دنیا کو آزاد کرنے کیلئے ’زیرو ہنگر‘ مہم چلا رہا ہے۔ بھارت نے اس خواب کو سچ کرنے کیلئے نیتی آیوگ کے ساتھ تین وزارتوں کا ساجھا پروگرام طے کیا ہے۔ نیتی آیوگ نے ملک کے 640اضلاع میں سے قلت تغذیہ (کوپوشن) سے زیادہ متاثر 110 ضلعوں کی فہرست جاری کی ہے۔ منصوبہ کے مطابق 2022تک پانچ سال سے کم عمر کے معمول سے کم وزن والے 37.5 فیصد بچوں کو 20.5 فیصد پر لانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ مرکزی وزارت صحت، بہبود برائے خواتین واطفال اور پینے کے پانی وصفائی کی وزارتوں نے ایک ساتھ آکر 2 فیصد سالانہ کی شرح سے  عدم غذائیت کو کم کرنے کا عہد کیا ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ میں کہا ہے کہ کوپوشن کی وجہ سے ملک کی آمدنی میں دس فیصد کی کمی آئی ہے۔ حالانکہ فاقہ کشی اور قلت تغذیہ کا مسئلہ صرف بھارت کا نہیںبلکہ عالمی ہے۔ نیتی آیوگ کا ماننا ہے کہ سب کچھ ٹھیک رہا تو 2022تک ملک بھوک سے آزاد ہوجائے گا۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں 20 کروڑ لوگ بھوک کی مار جھیل رہے ہیں، اس ملک میں کروڑوں ٹن اناج مناسب رکھ رکھائو اور صحیح سے اسٹور نہ کئے جانے کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔ گزشتہ چار مالی سالوں کے دوران 20 ہزار 776 میٹرک ٹن اناج، جس میں گیہوں و چاول شامل ہیں برباد ہوگیا۔ اناج کی بربادی پر سپریم کورٹ بھی کہہ چکا ہے کہ اگر اسٹوریج کا مناسب انتظام نہیں کرسکتے تو اس اناج کو غریبوں میں بانٹ دینا چاہئے۔ صرف منصوبہ سازی سے غریبی و بھوک (جس کا آپس میں گہرا رشتہ ہے) کو دور نہیں کیا جاسکتا۔  اس کیلئے مرکزی و ریاستی سرکاروں کو حساس ہونا ہوگا۔ عوام کو ان منصوبوں کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ فائلوں سے نکال پر زمینی سطح پر اسکیموں کو لاگو کرنے اور نگرانی کرنے سے کام بنے گا۔

گزشتہ تین سالوں سے حکومت ملک کے بنیادی مسائل کو پیچھے ڈھکیلتی رہی ہے۔ اس کی ترجیحات میں غریبی، بھوک، بے روزگاری، سماجی نابرابری اور انصاف شامل نہیں رہا۔ البتہ تقریروں میں یہ باتیں خوبکہی گئیں۔ ان باتوں کوطول دیاگیا جن سے سماجی اتحاد کمزور اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے جب ملک کو بھوک سے آزاد کرانے کی کوشش شروع ہو۔ باہمی اتحادو مدد کے نظام کو مضبوط کیا جائے، اناج کی بربادی کو روک کر اس کی تقسیم کو بہتر بنایا جائے۔ اس میں پائے جانے والے کرپشن سے سختی سے نمٹنا جائے تاکہ کوئی غریب بھوک سے یا کسی معمولی بیماری سے موت کا شکار نہ ہو۔ عام آدمی ملک کی مضبوط ہوتی معیشت کے جشن میں تبھی شامل ہو پائے گا جب اس کا پیٹ بھرا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔