اندر سے کچھ باہر سے کچھ

حفیظ نعمانی

ملک میں صدر اور نائب صدر دونوں عہدے ایسے ہیں کہ حکمراں پارٹی کے سرگرم ممبر ان عہدوں پر بٹھائے جاتے ہیں اور جب تک وہ ان عہدوں پر رہتے ہیں وہی گھسی پٹی باتیں کرتے رہتے ہیں جن سے اس کے پہلے قوم کو بہلاتے رہے لیکن اندر سے وہی رہتے ہیں جس کے صلہ میں انہیں یہ عہدہ دیا گیا ہے۔ مسٹر ونکیّا نائیڈو برسوں بی جے پی کے سرگرم لیڈر رہے ہیں پارٹی کے صدر بھی رہے ہیں اور وزیر بھی اور اس پورے عرصہ میں اقلیت یا مسلمان ان کی زبان پر نہیں آیا اب وہ وزارت سے ہٹاکر مودی جی کے منصوبہ کے تحت نائب صدر بنادیئے گئے ہیں تو انہوں نے اقلیتوں کے پروگرام ’’ملک کی تعمیر میں اقلیتوں کی حصہ داری‘‘ میں اپنا خطبہ پیش کرتے ہوئے وہ سب کہا جو ہم نے کبھی ان کے منھ سے نہیں سنا تھا۔

نائیڈو جی نے کہا کہ معصوم اور بے گناہوں کو قتل کرنا انہیں مارنا پیٹنا مذہب نہیں ہے خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا باہر۔ انہوں نے کہا کہ اگر لشکر طیبہ، داعش یا طالبان وغیرہ کا ذکر کریں تو کیا یہ تنظیمیں مذہب اسلام کو فروغ دے رہی ہیں؟ بلکہ یہ اپنے ایجنڈہ پر کام کررہی ہیں۔ مسٹر نائیڈو نے نہ گئو رکشکوں کا ذکر کیا نہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا وہ اگر اُن کے بارے میں بھی دو جملے بول دیتے تو یہ اس کا ثبوت ہوتا کہ وہ صرف نائب صدر ہیں۔ ہندوستان کا کون مسلمان ہے جو پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے نفرت نہیں کرتا یہ نائیڈوجی کی سرکار ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں سے لشکر کے رشتے جوڑکر اُن کی زندگی حرام کرتی ہے۔ نائب صدر نے داعش اور طالبان کا تو ذکر کیا جن کا اثر نہ ہونے کا وزیر داخلہ بھی اعتراف کرچکے ہیں لیکن آر ایس ایس کے گئو رکشکوں کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ سنگھ پریوار کے ان غنڈوں کا ذکر کیا جو بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں قتل و غارت کی وہ حرکتیں کررہے ہیں جن سے پورا ملک شرمندہ ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نائیڈو نے اپنے خطبہ میں مولانا آزاد، اے پی جے عبدالکلام، ڈاکٹر ذاکر حسین، حامد حسین انصاری وغیرہ کا نام لیا یہ اُن کے دل کی آواز نہیں ہے بلکہ یہ اس باوقار منصب کا تقاضہ ہے جو رسم کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ ورنہ برسوں سے ہم نائیڈو صاحب کی تقریریں اور تبصرے سن رہے ہیں ان کی زبان پر شاید ہی ان ناموں میں سے کوئی اے پی جے عبدالکلام سے پہلے آیا ہو۔ وہ نائب صدر ہی نہیں بی جے پی کے بہت بڑے لیڈر ہیں وہ جس صوبہ کے وزیر اعلیٰ سے کہہ دیں کہ بے وجہ اگر کوئی مسلمان کو جان سے مار دے تو اس کا ایسا علاج کردیا جائے کہ پھر کسی دوسرے کو کسی بے قصور پر خنجر اٹھانے کی ہمت نہ ہو تو اور کسی کو ہو نہو ہمیں یقین ہے کہ اس صوبہ میں کسی بے گناہ کا دوسرا قتل نہیں ہوگا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ملے گا کہ صوبے اپنے طور پر مختار ہوتے ہیں اور یہ جواب خاموش کرنے کے لئے ہوگا۔

ونکیّا نائیڈو صاحب نے بڑے زور سے کہا کہ ہندوستان میں سیکولرازم دستور کی وجہ سے باقی نہیں ہے بلکہ وہ ہندوستان کے ڈی اے این میں شامل ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔ ہم حیران ہیں کہ اس پر کیا تبصرہ کریں یا تو یہ مانیں کہ حکومت آر ایس ایس کی نہیں ہے مگر یہ کیسے مانیں جب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پوری حکومت ناگ پور سے چلائی جارہی ہے اور ناگ پور کے سروے سروا اپنی زبان سے کہہ چکے ہیں کہ ہم سیکولرازم کو نہیں مانتے۔

ونکیّا نائیڈو نے کہا کہ جب تک سماج میں برابری کا جذبہ نہ ہوگا اس وقت تک سماج اچھا نہیں ہوگا صرف قانون سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب سیاست اپنی ذات کے لئے کی جاتی ہے جو مناسب نہیں ہے۔ ہم سب کو پہلے ہندوستانی بننا ہے اس کے بعد کچھ بننا ہے۔ جب تک اکثریت اور اقلیت ایک ساتھ نہیں آئیں گی ملک کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔

اور یہ صرف چند روز پہلے کی بات ہے کہ نائیڈو صاحب کے لیڈر گجرات میں سابق وزیراعظم، سابق نائب صدر، سابق فوج کے سربراہ سب پر الزام لگا رہے تھے کہ وہ احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہ رہے ہیں۔ اس کے بعد نائب صدر کا یہ جملہ کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ کسی مسلمان نے خطبہ لکھ کر دے دیا اور انہوں نے بغیر سوچے سمجھے پڑھ دیا؟

جب عنوان ہی اقلیتوں کا تھا تو مختار عباس نقوی کو ہونا ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریفارم کے دَور سے گذر رہے ہیں اور کچھ اچھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نئی نئی اسکیمیں لارہے ہیں تاکہ اقلیتی نوجوانوں کو روزگار سے جوڑا جاسکے۔ اب یہ وہی جانیں کہ وہ اسکیمیں کیا ہیں۔ ہم اور پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ صرف لکھنؤ میں لاکھوں لڑکے لڑکیاں بوڑھے جوان اور عورتیں زردوزی کا کام بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوکر آوارہ گھوم رہے ہیں اور یہ صرف مودی سرکار میں ہوا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ کیوں ہوا مگر ہوا ہے؟ اور ہر کوئی ای-رکشہ چلانے اور سب کچھ بیچ کر خریدنے کی فکر کررہا ہے جب نقوی صاحب کی نئی نئی اسکیمیں آئیں گی تو دیکھا جائے گا۔

؎   کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔