راہل گاندھی اور ملک کے مسلمان

ذاکر حسین

راہل گاندھی کے کانگریس کا صدر بنائے جانے کے بعد وطن عزیز کے مسلمانوں کی خوشی سے راقم ِ سطور حیرت میں ہے۔ راہل گاندھی کے صدر بنانے جانے پر خوشی کا اظہار کرنے والے مسلمانوں سے ناچیز کا معذرت کے ساتھ سوال کہ کیا راہل گاندھی کے صدر بننے کے بعدمسلمانوں کے حالات میں کوئی بہتری آئے گی ؟ اگر بہتری آئے تو ہمیں بھی خوشی ہوگی لیکن کانگریس کے سابقہ ریکارڈ پر نظر ڈالنے کے بعداس کے امکان کم نظر آتے ہیں ۔یہ حقیقت ہیکہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں لا تعداد فرقہ وارانہ فساد ہوئے اور سارے فسادات میں مسلمان ہی زد میں آئے۔ دوسری خاص بات یہ کہ اگر کانگریس مسلمانو ں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو کیاآج مسلمانوں کی دہلیز پر پسماندگی اور بربادی کا پہر ہ ہوتا؟

آج ملک میں لاتعداد مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند اپنی زندگی کے قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں ۔اگرجائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہوئی ہیں ۔ آرٹیکل 341 پر مذہبی پابندی کس نے لگائی؟ آرٹیکل کیاہے ؟اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ۱۰ اگست ۱۹۵۰ ؁کو آرٹیکل۳۴۱ کی ’’دفعہ ۱ ‘‘ کا سہارا لیکر ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت ِہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی قیادت والی سرکار نے۹۵۶ ؁۱ میں آئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر۱۹۵۰ ؁ کے پیرا۔ ۳ میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا۔

نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے آرٹیکل ۱۴ کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ کیونکہ آارٹیکل ۱۴ کی رو سے مذہب و ملتـ، ذات پات، علاقہ، رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے گئے ہیں ۔ اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن  کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کی آزادی میں نما یاں رول ادا کرنے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ ا ور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو تسلی نہیں ہو ئی اور نا انصافی کی راہ پر ایک اور قدم بڈھتے ہوئے ۱۹۵۸؁میں آئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ ۳۴۰، ۳۴۱ ۱ور۳۴۲ مٰٰیں کہیں بھی مذہب لفظ کا ذکر نہیں ہے۔۱س آرٹیکل۳۴۱  پر مذہبی پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے ۲۱ جنوری ۲۰۱۱ کو مرکزی حکومت سے پوچھا کہ ایک سیکولر ملک میں اس قسم کی پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟لیکن ابھی تک سپریم کورٹ کو مرکزی حکومت  نے کوئی جواب نہیں دیاہے۔ حلانکہ سچرکمیٹی اور رنگناتھ مشراکمیشن کی کانسٹی ٹیوشن(شیڈول کاسٹس)آرڈر۱۹۵۰کے پیرا۔ ۳ میں ضروری ترمیم کر کے مسلم اورعیسائی دلتوں کو بھی شیڈول کاسٹس ریزرویشن کے حق دینے کی اہم سفارش ہے لیکن مرکزی حکومت ان سفارشات کو نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔۱۹۹۰؁ میں بدھ سماج کے دلتوں کو بھی حکومت ہند کی جانب سے ریزرویشن کی سہولت دی گئی۔ لیکن اب بھی دلت مسلمان اور عیسائی اپنے آئینی حقوق سے محروم رہے۔

آیئے اب آئین ہند کی ان دفعات پر نظر ثانی کرتے ہیں جو چیخ چیخ کر آرٹیکل ۳۴۱ پر لگی مذہبی پابندی کو غلط ٹھہراتی ہیں ۔ آرٹیکل ۱۵ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہوتعلیمی اداروں میں برابری کے حقوق دیتا ہے۔ آرٹیکل ۱۶ ملک کے سبھی شہریوں کو سرکاری ملا زمتوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے ۔ ۲۰۰۸ میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہائوس میں دہلی پولس دو مسلم طلباء کو دہشت گرد بتا کر انکائونٹر کرتی ہے اور جب ملک کے مسلمان اور حقوق علمبردار کی تنظیموں کی جانب سے اس پولس تصادم کی حکومت سے جو ڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا ہے تو کانگریس کی حکومت یہ کہہ کر بٹلہ ہائوس سانحہ کی جوڈیشیل انکوائری کا یہ عذر پیش کرکے انکار کر تی ہے کہ انکوائری سے پولس کا مورل ڈائون ہوگا۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہیکہ کانگریس کو مٹھی بھر پولس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اس لئے اس نے ملک کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو پس ِ پشت ڈال دیا۔آئین ہند کے مطالعے سے پتہ چلتا ہیکہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ (مجموعہ ضابطہ ء فوجداری )کی دفعہ ۱۷۶ کے تحت کسی بھی طرح کے پولس تصادم کی جانچ مجسٹریٹ سے کروانا لازمی ہے۔ لیکن کانگریس کا اس سانحہ کی منصفانہ جانچ سے راہِ فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے ساتھ نا انصافی کرنے جیسا ہے۔

راجیو گاندھی نے ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا کھلواکر ملک میں ہندتوا نظریات کی اشاعت کا کام کرنے والوں کی راہیں مزید ہموار کیں ۔ کہا جاتا ہیکہ کانگریس میں ہندتوا کے تئیں نرم رویے کی ابتدا دگ وجے سنگھ، ارون نہرو، وسنت ساٹھے اور بوٹا سنگھ سے ہوئی۔ پھر بھی ہم راہل گاندھی سے امید کرتے ہیں کہ کانگریس کو دوبارہ ملک کے سیاسی افق پر نمودار ہونے کیلئے کانگریس کی سابقہ پالیسیوں پر عمل پیراہونے کے بجائے مسلمانوں  کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کریں گے۔

راہل گاندھی کو سب سے پہلے آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی ہٹانے کیلئے کوشش کرنی چاہئے اوردہشت گردی کے جھوٹے الزام میں بندمسلم نوجوانوں کے مسائل کا حل نکالنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ملک کے مسلمانوں کی بد قسمتی ہیکہ انہیں ترقی کے زینے طے کرتے ہی دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا جاتاہے یاپھر ان کا فرضی انکائونٹر کر دیا جاتاہے۔ ہمیں یہ بھی امید ہیکہ راہل گاندھی کے صدر بننے پر لڈو اورمٹھائیاں تقسیم کرنے والے مسلم بھائی بھی راہل گاندھی کی کی چمچہ  گری کرنے کے بجائے ان کے سامنے قوم کے سلگتے مسائل پیش کرتے ہوئے ان کے حل کا مطالبہ کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔