مذہب اور سائنس کا تعلق

 محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

اپنے اصل مدعا کی طرف آنے سے قبل ایک قابل غور نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ (بلا تفرقہ) ہمارے ہاں ہر مسجد کے علامہ صاحب، مدارس و جامعات کے شیوخ و معلمین، خانقاہوں کے مشائخ و پیران کرام، جو اپنی اپنی جگہ علماء حق بھی ہیں، اللہ کے ولی بھی ہیں، کرامات و مستجاب الدعوات کے دعویدار بھی ہیں اور سب کے سب صبح و شام پاکستان اور عالَم اسلام کے امن کی، اسلام کے دشمنوں کے نیست و نابود ہونے کی، فلسطین کی آزادی کی، اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی ترقی کی دعا کرتے ہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مذہب و شریعت کے پابند،مبلغین و محافظ دین، صاحبِ کرامات اولیاء کے گدی نشین و خلفاء میں سے کسی ایک کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی،ان سب کی دعائیں امت کے لئے برعکس ہو جاتی ہیں، وہ دعا کرتے ہیں کہ پاکستان و عالم اسلام میں امن ہو لیکن دن بدن عالم اسلام اور پاکستان کا امن تباہ ہوتا جا رہا ہے، سب دعا کرتے ہیں کہ اسلام کے دشمن نیست و نابود ہو جائیں لیکن ہر طرف چاہے کشمیر ہو یا برما، فلسطین ہو یا عراق، شام ہو یا یمن، مسلمان ہی تباہ ہو رہے ہیں۔ سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ اسلام کو غلبہ عطا کرد ے لیکن اسلام اس حد تک مغلوب ہو گیا کہ صلیبی طاقت جس اسلامی ملک میں جو چاہتی ہے وہ ہی ہوتا ہے، جہاں حملہ کرنا چاہتے ہیں بلا روک ٹوک بمباری کرتے ہیں۔ آخر اللہ کسی ایک کی بھی دعا قبول کیوں نہیں کرتا؟؟ کوئی خامی اور نحوست تو موجود ہے جس کی وجہ سے کسی عالم، شیخ، پیر، ولی کی دعا قبول نہیں ہو رہی۔ میری نظر میں وہ خامی اور نحوست فقط علوم، فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دوری ہے۔

دعائیں تب قبول ہوتی ہیں جب سورۃ الانفال کی آیت 60 پر علم کیا جائے۔ اللہ کریم نے فرمایا ’’ واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم و اخرین من دونھم، لاتعلمونھم، اللہ یعلمھم‘‘ اے مسلمانو! ان کے مقابلے کے لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلات جنگ کی) قوت تیار رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ) اس دفاع کے لئے تیار رکھو۔ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ایسے دشمن کو بھی ڈرائو جس کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ جانتا ہے۔ اس دور میں گھوڑے تھے لیکن دورِ حاضر میں ان گھوڑوں کی جگہ جنگی جہازوں، بحری بیڑوں اور دیگر جنگی آلات نے لے لی ہے۔ لہذا یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ پہلے اپنے دور کے مطابق جدید ٹیکنالوجی حاصل کرو پھر اللہ سے دعا کرو تو اللہ کی مدد بھی آئے گی اور آسمان سے فرشتے بھی نازل ہوں گے۔

ورنہ آپ دنیا کے تمام مسلمانوں کو بیت اللہ کے سامنے احرام باندھ کر یہ دعا کرنے کو بیٹھا دیں کہ یااللہ فلسطین آزاد کر دے، امریکہ سپر پاور ہے اس کی طاقت کو نیست و نابود کر دے، انڈیا ہمارا دشمن ہے اس کے ٹینکوں میں کیڑے ڈال دے، آپ کی دعا کبھی قبول نہیں ہو گی۔ اسلام جب پھیلا تھا، جب طاقت ور تھا، جب اسلام کا غلبہ تھا تو وہ فقط دعائوں سے نہیں بلکہ دوائوں سے تھا۔ آج جب تک امت دوا نہیں کرے گی، دعا قبول نہیں ہو گی۔ اور دوا فقط ہر طرح کے تعلیمی و سائنسی میدان میں ترقی ہے۔

تھامس بابنگٹن میکالے (جسے آج کا مسلمان لارڈ کے لقب سے یاد کرتا ہے) نے 2 فروری 1835 کو برطانیہ کی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوا کہا تھا کہ؛

I have travelled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber, that I do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her  spiritual and cultural heritage and therefore, I propose that we replace her old and ANCIENT EDUCATION SYSTEM,  her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their SELFSTEEM, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nationo.

’’میں نے پورے ہندمیں سفر کیا، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہ آیا، اس ملک میں بہت دولت دیکھی، لوگوں کا اخلاق انتہائی اعلی ہے اور سمجھ بوجھ اس قدر اعلی ہے کہ میرے خیال سے ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک ہم ان کی دینی اور ثقافتی روایات کو توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ ہم ان کا قدیم اور اعلی نظام تعلیم و تہذیب بدل دیں۔ اگر ہند کے لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی چیز ان کی اپنی چیز سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار و تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاََ ایسی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسی ہم چاہتے ہیں ‘‘۔

محترم قارئین! یہ کسی اسلامی مؤرخ یا کسی جذباتی قسم کے انسان کے الفاظ نہیں بلکہ برصغیر میں مسلم دور کا وہ آئینہ ہے جو تھامس بابنگٹن میکالے نے دکھایاہے۔ میکالے نے برطانیہ میں تقریر کرتے ہوئے زور دیا کہ برصغیر کا نظام اور نصاب تعلیم بدل دو۔ اور اسی لئے بعد میں اسی میکالے کو برصغیر کا نظام و نصاب تعلیم بدلنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو اس نے نبھائی۔ ممکن ہے کسی کو میری بات سے اتفاق نہ ہو لیکن تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے میں یہ بات ببانگ دہل کہہ سکتا ہوں کہ افسوس آج ہمارے مدارس و جامعات ہوں یا انگلش میڈیم سکول اور یونیورسٹیز، تمام میں آج بھی اسی میکالے کا نظام تعلیم چل رہا ہے جس کو آج کا مسلمان لارڈ میکالے کہتا ہے۔

اس تحریر میں مکمل نظام تعلیم یا نصاب تعلیم تو پیش کرنا ممکن نہیں لیکن ہمارے مذہب میں کیسی تعلیم ہے اس کی چند مثالیں پیش کرتاہیں۔ میرے نقطہ نظر میں اسلام دنیا کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر کے یا اپنے آپ کو مسجد میں قید کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ایک سسٹم/نظام کا نام ہے جس سسٹم میں کچھ چیزیں اللہ کریم نے اپنے لئے مقرر کر دیں تو وہ عبادتیں بن گئیں اور فرض، واجب وغیرہ ہو گئیں جبکہ باقی چیزوں کو مسلمانوں کی محنت پر چھوڑ دیا گیا۔ لہذا اسلام یا مسلمانوں کی ترقی فقط عبادت یا تبلیغ میں قطعاََ نہیں ہے۔ افسوس یہ کہ ایک دور وہ تھا جب ہمارے تعلیمی اداروں میں غرناطہ، نظامیہ وغیرہما جیسے بین الاقوامی ادارے موجود تھے اور ان سے ابن الہیثم، جابر بن حیان، بو علی سینا، ابو النصر الفارابی اور ابن رشد وغیرہ جیسے عظیم سائنسدان جنم لیتے تھے۔ آپ ماضی کے کسی مسلم سائنسدان کی تاریخ کھنگال لیں آپ کو وہ سائنسدان دین و شریعت کا عالم بھی نظر آئے گا۔ یہ ہی اسلام کا دیا ہوا سسٹم تھا۔ اور یہ سسٹم فقط عبادت سے پورا نہیں ہوتا بلکہ اس عبادت میں اس دور کی جدید سائنس، جدید علوم و فنون شرط ہیں۔ آخر کیوں آج ہمارے جامعات ومدارس، کالج و یونیورسٹیز کوئی جابر بن حیان یا بو علی سینا پیدا نہیں کرتیں بلکہ دل خون کے آنسو روتا ہے جب آج کا مسلم اپنے ماضی کے درخشندہ ستاروں کو جن کی علمی خیرات پر آج یورپ پل رہا ہے، ان کے نام بھی غلط لیتا ہے۔ یہ نظریہ کہ اسلام فقط عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے سسٹم کا نام ہے جس میں جدید دور کے ہر طرح کے علوم و فنون شامل ہوں اور اسی بنیاد پر ہمارا تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب (سکول و یونیورسٹیز کا ہو یا مدارس و جامعات کا)از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ اندازہ ہو کہ علوم ہمارے تھے لیکن ہم نے ان سے منہ موڑ لیا اور مسجدوں میں قید ہو کر دعائوں پر اکتفاء کر لیا جس کا نتیجہ سامنے ہے۔

آپ قرآن کریم کی پہلی وحی کو دیکھیں، فرمان ہے کہ خلق الانسان من علقo انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ اور پھر فرمان ہوا کہ} یخلقکم فی بطون امھاتکم خلقاََ من بعد خلق فی ظلمات ثلاث{  وہ تمہیں تمہاری مائوں کے بطنوں میں تین پردوں میں (بتدریج) ایک کے بعد دوسری حالت میں بناتا ہے۔ یہ سب جدید دور کی ایمبریالوجی ہے۔ حیرت ہے اگر اسلام فقط عبادت، رہبانیت، مسجد اور تبلیغ کا نام ہے تو پہلی ہی وحی میں اللہ نے اس قدر دقیق اور جدید سائنس کی طرف انسان کی توجہ کیوں دلائی؟؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایمبریالوجی پڑھنا اسلام نہیں ہے؟؟

پھر فرمان ہے ؛ قل سیروا فی الارض فانظروا کیف بداء الخلق۔ فرما دیجئے کہ تم زمین پر سیر کرو اور (غور و تفکر کرو کہ اللہ نے) مخلوق کی تخلیق کی ابتداء کیسے کی۔ کیا اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر یہ تحقیق کرنا کہ زمین اور دیگر مخلوق کیسے بنی یہ اسلام نہیں ہے؟؟ اگر اسلام ہے تو آج اسلام پڑھنے والے اس سے دور کیوں ہیں ؟؟

پھر فرمایا کہ سنریھم ایاتنا فی الافاق و فی انفسھم۔  عنقریب ہم انہیں کائنات (Universe) میں اور ان کے اپنے وجود (جسم) میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ قرآن کریم کی یہ آیت بھی جدید سائنس کی بنیاد ہے۔ آج سائنس واضح کر رہی ہے کہ انسانی دماغ اور کائنات کے بنیادی ڈھانچے/infrastructure، آنکھ اور نیبولا کے بنیادی ڈھانچے میں کافی حد تک مماثلت ہے۔ یہ جدید دور کی آسٹرونومی (Astronomy)  ہے اور اس کی بنیاد بھی قرآن کی آیت ہے۔ لیکن افسوس آج بڑے بڑے جامعات میں قرآن کی اس آیت کا کوئی محقق موجود نہیں۔

جدید دور کے سائنس دان سٹیفن ہاکنگ سے کون واقف نہیں، اس کی سب سے زیادہ تحقیق اور موضوع بلیک ہولزہے۔ سٹیفین ہاکنگ اس موضوع پر لیکچر بھی دے چکے ہیں، ماضی قریب میں سٹیفن نے بلیک ہولز سے نکلنے کا نظریہ دیا۔ آپ بلیک ہولز پر تحقیق کریں اندازہ ہو گا کہ وہ کیسی پراسرار چیز ہیں، آپ بلیک ہول کے سٹرکچر پر تحقیق کر لیں اور پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھیں کہ اللہ کریم نے فرمایا؛ فلا اقسم بمواقع النجومO و انہ لقسم لو تعلمون عظیمO پس میں ستاروں کے مقامات/مواقع (جہاں ستارے موت کے بعد واقع ہوتے ہیں /بلیک ہول) کی قسم کھاتا ہوں۔ اور اگر تم جان لو کہ (بلیک ہول کیا ہیں ) تو یہ بہت بڑی چیز کی قسم ہے۔ افسوس کہ آج قرآن کی اس آیت کے مضمون پر بھی تحقیق کوئی شیخ القرآن یا کوئی عام مسلمان بھی نہیں بلکہ ایک برطانوی سائنسدان کر رہا ہے۔

آپ آج سے پندرہ ارب سال پیچھے چلے جائیں، جدید سائنس کی نظر میں ہمیں بگ بینگ نظر آتا ہے۔ بگ بینگ تھیوری یہ ہی بتاتی ہے کہ کائنات ایک اکائی تھی جو ایک زور درا دھماکے سے پھٹی اور پھر زمین، سورج وغیرہ وجود میں آئے۔ اب قرآن کو دیکھ لیں کہ اللہ کریم فرماتا ہے ؛ ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقنھما۔ بے شک (کائنات کے تمام ) بالائی حصے اور زیریں حصے دونوں ایک ساتھ اکٹھے تھے (گویا ایک اکائی تھی) پس ہم نے ان کو جدا جدا کر کے کھول دیا (اور کائنات تخلیق ہوئی)۔

محترم قارئین! یہ قرآن کریم کی فقط چند مثالیں ہیں، اگر قرآن سے سائنس کا استدلال کیا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ  ﷺ  کی احادیث میں سائنس کا ہر موضوع موجود ہے۔ پیارے آقا ﷺ کی گفتگو فقط عبادت یا مسجد کی حدود تک نہ تھی بلکہ مسند احمد کی روایت دلالت کرتی ہے کہ آپ تو صحابہ کو یہ بھی تعلیم دیتے ہیں کہ جب پرندہ اڑتا ہے تو اس کے پروں کا کیا کردار ہوتا ہے اور دم کا کیا کردار ہوتا ہے۔حضور  ﷺ صحابہ کرام کو خود سائنس کے ہر موضوع کی تعلیم دیتے۔ میڈیکل، انجینئرز (جو صنعتی کام کرتے، آلات حرب وغیرہ تیار کرتے)، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جدید ایمبریالوجی کی مکمل دن بدن کی تفصیل کہ بچہ کتنے دن کا ہو تو کیا عمل ہوتا ہے۔ الغرض سائنس کا ہر موضوع قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اور اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو غیر مسلم مؤرخ و سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ملتے ہیں کہ جدید دور کے ہر علم و فن کی بنیاد مسلمان اور اسلام ہے۔

 میرے علم کے مطابق چند علوم کی مثالیں ذکر ہیں جن کی بنیاد اسلام اور مسلمان تھے۔ مثلاََ: ہسپتال سسٹم، اور ان ہسپتالوں میں Ophthalmic, Surgical, Orthopaedic,  کے شعبہ جات تک موجود تھے۔ علم ہئیت و فلکیات/آسٹرونومی (آج بھی کئی ستارے ایسے ہیں جن کے نام درحقیقت عربی زبان سے مآخذ ہیں )، سب سے پہلے مسلم سائنسدان ابن رشد نے Sun Spotsکو پہچانا۔ البیرونی نے زمین کے احاطہ کی پیمائش کی، پھر علم المیقات، علم نجوم/ آسٹرولوجی، Planetarium کی بنیاد، حساب، الجبراء، جیومیٹری، پھر فزکس، ڈائنامک، میکانیات، علم بصریات/آپٹکس، علم النباتات، Pharmacology، Anaesthesia، کیمسٹری، عمرانیات، جغرافیہ، نقشہ سازی الغرض جس علم کی بنیاد دیکھیں ہمیں اسلام اور مسلمان نظر آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس وقت اسلام اور مسلمان طاقت ور تھے، غالب تھے، ان کا نظام ایسا تھا کہ غیروں کو بھی تعلیم و انصاف یکساں ملتا تھا جس پر تھامس بابنگٹن میکالے کی تقریر گواہ ہے۔

مسلم آئمہ، مؤرخین، سائنسدانوں کی لکھی ہزاروں کتب آج ہمارے پاس نہیں رہیں۔ کبھی وہ کتب ہمارے بڑے بڑے جامعات کے درس کا حصہ تھیں لیکن اب بقول قلندر لاہوری کے:

گنوا دین ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

جو امت علم کی وارث تھی، جس امت پر وحیء خدا کی ابتداء سائنس سے ہوئی تھی، صنعت و ٹیکنالوجی، علوم و فنون جس امت کا شعار تھے، افسوس وہ امت سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، مدارس و جامعات میں ایک غیر کے دئے ہوئے نظام تعلیم و نصاب تعلیم کی غلام ہے۔ اسلامی نظام تعلیم میں چاہے وہ جامعہ غرناطہ ہو یا جامعہ نظامیہ ہو ہر جگہ شریعت کے احکام و مسائل کے ساتھ سائنس، فنون لازمی جزو تھے۔ دورِ حاضر میں ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ بدقسمتی سے یونیورسٹیز سے سائنس کے مضامین میں فاضل طلباء قرآن و حدیث میں بیان کردہ سائنس سے بے بہرہ ہیں اور مدارس و جامعات کے طلباء شریعت توشائد جانتے ہیں لیکن جدید دور کی سائنس کے نام تک سے واقف نہیں۔ ۔۔

 میری قارئین،حکام بالا، امت مسلمہ کے حکمران، علماء و مشائخ، مبلغین و معلمین سے دست بدستہ عرض ہے خدارا امت کی تعلیمی میراث لوٹانے کا سبب بنائیں۔ دین سائنس سے الگ نہیں اور سائنس دین سے الگ نہیں تو پھر یہ مدارس، جامعات، یونیورسٹیز کا فرق کیسا؟؟ خدارا خدارا امت کے لئے ایک مؤثر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ازسر نو ترتیب دیں۔ تاکہ ہمارے اداروں سے جدید دور کی سائنس سے واقف علماء شریعت اور قرآن و حدیث کے علوم کے واقف جدید دور کے سائنسدان پیدا ہوں۔ ورنہ آپ لاکھ دعائیں کر لیں، اسلام اور مسلمان دعا سے پھیلے تھے نہ ہی فقط دعا سے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہو سکتی ہے۔ مسلمان، اسلام، امت کی حفاظت فقط تبلیغ سے نہیں بلکہ تعلیم سے ممکن ہے۔

2 تبصرے
  1. Ahmad Ali Barqi Azmi کہتے ہیں

    مذہب کائنات ہے اسلام
    سب کی راہ نجات ہے اسلام
    دین فطرت ہے یہ سبھی کے لئے
    ایک درسِ حیات ہے اسلام
    امن عالم کا ہے علمبردار
    روح عزم و ثبات ہے اسلام
    اس کو دہشت سے منسلک نہ کریں
    مطہرِ التفات ہے اسلام
    ختم ہوگا نہ سلسلہ جس کا
    دلنشیں ایسی بات ہے اسلام
    اس سے روشن ہے شنعِ رشد و ھدیٰ
    ضوفگن شش جہات ہے اسلام
    یونہی برقی ازل سے تا بہ ابد
    حافظ، کائنات ہے اسلام
    احمد علی برقی اعظمی

  2. آصف علی کہتے ہیں

    قرآن ہدایت کی کتاب ہے یہ ہماری اخلاقی تربیت اور تزکیہ کےلیےآئی ہے. اس کا مقصد ہمیں اُس دنیاکےلیے تیار کرنا ہے جوآفاقی ہے، لامحدود ہے. جب قرآن ہمیں فکر، تدبر اور سوچ کے زاویے کھولنے پر راغب کرتی ہے تو سب سے پہلے ہمیں ہمارے گردوپیش پر نگاہ ڈالنے کاکہتی ہے اُسی طرح جس طرح یہ ہمیں ہمارے باطن کی طرف توجہ دلاتی ہے. اسی ضمن میں جب قرآن ہمارے گردوپیش کا ذکر کرتا ہے تولامحالہ فطرت کےمظاہر آسمان، زمین، کہکشاں، ستاروں ان کی گردش اورلیل و نہار کی طرف توجہ دلاتا ہے. جب وہ یہ توجہ دلاتا ہے توانسان ان پر اپنی سوچ استعمال کرتا ہے جوغلط بھی ہوسکتی اور درست بھی. تو سائنس اس ضمن میں مددگار ہوتی ہے.
    اور جوقرآن نے کہا وہ درست ہوناضروری نہیں، بلکہ وہ درست ہی ہوتا ہے٠ ہمیں اس کا درست ادراک ہونا سمجھنا ضروری ہےاورآگےسمجھاناضروری ہے.

تبصرے بند ہیں۔