نمود جسم کی انگڑائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

شاہد کمال

نمود جسم کی انگڑائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

ہَوس خوردہ بدن رعنائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

ہماری آنکھ کی تحویل میں جو خواب رہتے ہیں

ہماری آنکھ کی بینائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

مری وحشت اسیر وسعت صحرا نہیں ہوتی

مرے غم خود مری تنہائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

یہاں دستار کیا ہے صاحب دستار بکتے ہیں

قبا کیا چیز ہے پرچھائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

تماشہ ہے عجب توہین اہل حرف کرتے ہیں

پھر اُن کے نام کی رسوائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

وہاں پر کون دیکھے گا بھلا اک ماں کے آنسو کو

جہاں خود بھائی اپنے بھائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

تمہارے ہجر کے مارے زمانہ ساز ہیں اتنے

تمہارے وصل کے دنگائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

ہمارے زخم کا شاہدؔ کو اندازہ بھی ہو کیسے

ہم اپنے زخم کی گہرائیوں کو بیچ کھاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔