’اندھیر نگری چوپٹ راج‘ کا مطلب؟

وصیل خان

’’ اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا محاورہ یا کہاوت ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن اس پرسنجیدگی سے کبھی اس لئے دھیان نہ دے سکے کیونکہ ہم جس دیش میں رہتے ہیں وہاں ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی پھر بھلا اس تعلق سے ہم کیوں کر سنجیدہ ہوتے۔ نہ تو یہاں راجا چوپٹ تھا نہ ہی جنتاکرپٹ تھی لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہےاور بدقسمتی سےہمارے ملک میں اب چوپٹ اور کرپٹ نام کے دونوں ہی سکے پوری طرح رائج الوقت ہوچکے ہیں۔ ماضی بعید کی بات تو جانے دیجئے ماضی قریب میں بھی کسی ایسے ’ چوپٹ راج ‘ کی کوئی نظیر ہمارے سامنے نہیں جسے ہم بطور مثال پیش کرسکیں۔ کانگریس کے دور حکومت کے ابتدائی سالوں میں بھی ہمیں اس کا تجربہ نہ ہوسکا لیکن بعد کے دنوں میں خصوصا ً راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے زمانے میں اس کی کچھ جھلکیاں صاف طور پر دکھائی دینے لگیں لیکن بی جے پی خاص طور سے نریندرمودی اور اترپرد یش کے یوگی کے دور اقتدار میں یہ محاورہ اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا اور ملک کی موجودہ صورتحال تو خود ہی چیخ چیخ کر اس محاورےکے عملا ً رائج ہونے کا اعلان کررہی ہےاور لوگوں کی کھلی آنکھیں چاروں اور اسی کی حکمرانی کا مشاہدہ کررہی ہیں۔

کہتے ہیں کہ کسی جگہ ایک غریب آدمی ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتا تھا، دیواریں خستہ تھیں، ایک د ن بیٹھ گئیں۔ غریب آدمی فکر مند ہوگیا سر چھپانے کیلئے کچھ تو ہونا چاہئے۔ اخراجات میں جبری کٹوتی اور قرض کے بوتے کسی طرح اس نے دیواریں تو کھڑی کردیں لیکن چھت نہ ڈال سکا، اس کی جگہ ٹاٹ پھیلاکر اس پر مٹی ڈال دی اور بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔ علاقے میں ایک چور بھی تھا اس نے سوچا یہ شخص ضرور متمول ہوگا ورنہ نیا مکان کیسے بنتا، اس کے پاس رقم بھی ہوگی، رات کو چوری کی غرض سے چھت پر چڑھا توٹاٹ پھٹ گیا اور و ہ نیچے سوئے ہوئے مالک مکان کے اوپر گرپڑا، مالک مکان ہڑبڑا گیا اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چور نکل بھاگا۔ اسے مالک مکان پر بہت غصہ آیا کہ اس نے ایسی کمزور چھت کیوں بنوائی اگر میری ٹانگیں ٹوٹ جاتیں تو ۰۰  ۰ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ جہاں پناہ اس آدمی کی سرزنش کریں اور سزا دیں کہ اس نے اتنی کمزورچھت کیو ں بنوائی،بادشاہ نے کہا گھبراؤ نہیں یقینا ً انصاف ہوگا اور انصاف بھی ایسا کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔

اس نے مالک مکان کو طلب کرکے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ یہ آدمی تمہاری چھت ٹوٹنے سے نیچے گرا، غریب آدمی نے کہا جہاں پناہ بات تو سچ ہے، لیکن یہ تو اچھا ہوا کہ یہ میرے اوپر گرا ورنہ اس کی ٹانگیں ضرور ٹوٹ جاتیں، بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے ہم تمہیں سزائے موت دیتے ہیں، جلادسے کہا اسے پھانسی پر لٹکادو، غریب آدمی بادشاہ کے قدموں میں گرگیا اور گڑگڑاتے ہوئے کہا حضور مجھے کیوں، پھانسی تو چور کو ہونی چاہئے، بادشاہ گرجا، چپ ہوجا تیری یہ مجال کہ میرے فیصلے سے انکار کرے میرا فیصلہ ہی انصاف ہے۔ غریب نے من میں سوچا کہ اس طرح سےتو انصاف نہیں مل سکتا، فورا ً بادشاہ سے کہا حضوراس میں میری غلطی کہاں، غلطی تو اس مزدور کی ہے جس نے یہ ٹاٹ بچھایا اگر و ہ کمزور ٹاٹ نہ بچھاتا توچور نہ گرتا، بادشاہ نےکہاکہ اسے رہا کرکے اس مزدور کو پھانسی دیدی جائے۔ مزدور حاضر کیا گیا، لاکھ منت سماجت کے باوجود سپاہیوں نے اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا بالآخر اس نے بھی یہ کہہ کے جان چھڑائی کہ جہاں پناہ اس میں میرا کیا قصور، قصور تو اس ٹاٹ بنانے والے کا ہے،جس نے اتنا کمزور ٹاٹ بنایا، اگر ٹاٹ مضبوط ہوتا تو کبھی نہ پھٹتا اور یہ حادثہ نہ ہوتا، بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی، اس نے مزدور کو رہا کردیا اور حکم دیا کہ ٹاٹ بنانے والے کو پھانسی دیدی جائے کیونکہ سارا قصور اسی کا ہے۔

جب اسے پھانسی پر لٹکایا گیا، اس نے بھی ایک کہانی گڑھ لی اوربادشاہ سے کہا کہ حضور میں اس ملک کا ایک نامور کاریگرہو ں میرے تیار کردہ ٹاٹ پورے ملک میں بھروسے کی علامت سمجھے جاتے ہیں، معاملہ یہ ہے جس وقت میں ٹاٹ بن رہا تھا میرے ایک کبوتر باز پڑوسی نے کبوتراڑادیئے، ان کی اڑان اور قلابازیوں کو دیکھنے میں میرا  دھیان  کام سے ہٹ گیا اور میرے ٹاٹ چھدرے اورکمزورہوگئے، سارا قصور کبوترباز کا ہے، نہ وہ کبوتروں کواڑاتا نہ میری توجہ بٹتی، اسے بھی بری کردیا گیا اور کبوتر باز کو پکڑلیا گیا، پھانسی کےتصورسے ہی اس کے اوسان خطاہوگئے آخر مجھے کیوں اور کس جرم میں پھانسی دی جارہی ہے جبکہ میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا، اس کا واویلا کسی کام نہ آیا۔ بادشاہ کاحکم جوتھا، انجام کار اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ محض ایک فکشن ہو لیکن ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال اس کے درست ہونے کی تصدیق کررہی ہے۔

بادشاہ کو گمان نہیں پورا یقین ہے کہ وہ منصف ہے لیکن رعایا مایوس ہے وہ اس کے فیصلے سے فکر مند اور پریشان ہے مگر بادشاہ خوش ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اس کا انصاف برسوں یاد رکھا جائے گا تو حقیقتا ً اس کا یہ فیصلہ برسوں یاد رکھنے کے ہی قابل ہے۔ ظاہر ہے بادشاہ کے نزدیک انصاف کا جو معیار تھااس نے اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ آج جب ہم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو انصاف کا وہی معیار چاروں اور قائم ہے۔تین طلاق کا معاملہ خالص مذہبی معاملہ ہے جس کی اجازت آئین ہند نے دی ہے اس میں مداخلت کا مطلب آئین سے کھلی چھیڑ چھاڑہے جو خود حکومت کررہی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ بھی وہی کررہا ہے جو بادشاہ نے کیا۔ غریبوں اور کمزوروں پر قانون کی ساری دفعات نافذ کردی جاتی ہیں لیکن امیر اس سے متثنیٰ ہوتے ہیں۔ قانون کےمحافظین دبنگوں پرقانون کے نفاذ کے بجائےاسے ہوا دیتے ہیں بڑی بڑی عدالتوں میں ان کا دفاع کیا جاتا ہے لیکن ان سے کوئی باز پرس نہیں کی جاتی۔ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہمارے حکمراں بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، طرح طرح کے ٹیکس عائد کرکے عوامی دولت سے عیاشیاں کرتے ہیں اور سیر سپاٹا کرتے ہیں۔

پورا ملک مہنگائی اور بے روزگاری سے بدحال ہے اور شرپسند عناصر گھروں گھروں گائے کا گوشت تلاش کرتے پھررہے ہیں اور اس کی آڑ میں قتل و غارت گری مچائے ہوئے ہیں۔ دہشت گرد بے خوفی کے ساتھ سینہ تانے گھوم رہے ہیں اور ہمار ے حکمراں مذمتی بیانات جاری کرکے ایئرکنڈیشنڈکمروں میں غائب ہوجاتے ہیں۔ ملک میں نراجیت پھیلی ہوئی ہے، صبح کے اخبارات روزانہ خون میں لتھڑے ہمارے ہاتھوں میں جب آتے ہیں تو اندر تک روح کا نپ جاتی ہے۔ عوام کا نہ کوئی پرسان حال ہے نہ مسیحا،علاج ہوتو کیسے۔

یہ ایک ایسا سوال ہے جو بار بار کچوکے لگاتا رہتا ہے، کیا زندگی کا یہی انداز ہمیں پسند ہے کیا ہمیں گونگے اندھے اوربہرے رہنے ہی میں عافیت نظر آتی ہے، کیا ظلم کے خلاف خاموشی ہی میں ہمیں مسئلے کا حل نظر آتا ہے ؟  اگر نہیں تو اس کے تدارک کیلئے ہم کیا کررہے ہیں اورکون سی تدبیر اپنا  رہے ہیں۔ آپ سن رہے ہیں نا ۰۰۰

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلامی نظام کے بغیر یہ دنیا ایک اندھیر نگری ہے ۔۔۔۔۔!!!

    دنیانے یہ مشاہدہ کرلیاکہ ا نسانی عقول کی کوکھ سے جس نظام نے بھی جنم لیا، ہر ایک بری طرح ناکام رہا، کسی ایک کے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اس کائنات کو متوازن ودرست طریقہ سے چلاسکے،کوئی بھی دستورایسانہیں جس نے انسانیت کی جھولی میں کوئی خاطر خواہ فوائدڈالے ہوں،چنانچہ اب یہ بات ثابت ہوچکی کہ اس کائنات میں بسنے والاہرہرفرداسلامی نظام کامحتاج ہے،زندگی کاسفروحی کی اس روشنی کے بغیر ناممکن ہے،جو انسان کی رہنمائی کے لئے اسے عطاکی گئی،اگر اس الہی چراغ سے پہلو تہی برتی جائے تو یہ دنیاایک اندھیرنگری ہے،یہ جہاں ایک ظلمت کدہ ہے بلکہ اس بھی بدتر، وحی ہی وہ روشنی ہے جس کے دم سے یہ کائنات روشن رہ سکتی ہے،اس دنیاکا حقیقی حسن واپس لوٹ سکتاہے،یہی وہ خدائی عطیہ ہے،جس کامستحکم ونہایت عادلانہ نظام اس عالم کو امن سے بھر دیتاہے،جس کی وجہ سے انصاف کی بہاریں ہر سو بسیرا ڈال لیتی ہیں،ظلم،تعدی اور سرکشی کاسیلاب تھمتاہے،اندھیر ے کافور ہوتے ہیں، ہر جانب روشنیاں بکھر جاتی ہیں،اخلاقی قدریں بلند ہوتی ہیں،شاہ وگدا کافرق مٹتاہے، حق لیناآسان اور حق دبانامشکل ہوجاتاہے،فسادی عناصر کی جڑکٹتی ہے،رزق میں برکات کانزول اور فراوانی پیداہوجاتی ہے،شرپسند دب جاتے ہیں،فتنہ انگیزوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے،تعمیر ی واصلاحی کو ششیں وکاوشیں سامنے آتی ہیں،انسان کو انسانیت کے قریب کیاجاتاہے،اس کے اندر کے سوئے ہوئے انسان کو جگایاجاتاہے،تب راہ زن راہ نمابن کر ابھرتے ہیں،چور ڈاکو وقت کے اولیا کو پیچھے چھوڑجاتے ہیں،سود کی گرم بازاری سرد پڑ جاتی ہے،غریب سکھ کےساتھ رہتاہے،مال دار سکون کی نیندسوتاہے،عورت کو عزت ملتی ہے، وقار میں اضافہ ہوجاتاہے،نسلی علاقائی تعصبات کی آگ بجھ جاتی ہے،اخلاقی بگاڑ میں بہتری آتی ہے،منکرات وفواحش کاقلع قمع ہوتاہے،ہر مذہب کانام لیوا یکساں حقوق کاحق رکھتاہے۔
    یہ اسلامی خلافت ہے،جس کی برکات وفوائد کانظارہ دنیاکرچکی ہے، جس کے ان مٹ نقوش تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں،جبکہ آج دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کیمونزم مرچکاہے،جمہوریت دم توڑ رہی ہے،سرمایہ دارانہ نظام خون آشام بھڑیاکی شکل دھار چکاہے،اشتراکیت تماشہ بنی کھڑی ہے،اس وقت دنیامیں یہ سب نظام رائج ہیں،انہیں قوت اقتدار بھی حاصل ہے،کہیں پر اشتراکیت کے پنجے گڑے ہوئے ہیں، توکہیں سرمایہ دارانہ نظام سر اٹھائے ہوئے ہے،کہیں سیکولر ازم کاراج ہے توکہیں جمہوریت کاسکہ رواں ہے،مگر امن وامان ہر جگہ مفقود ہے،ہر فر د زندگی سے تنگ وبیزار ہے،تحفظ جان نام کی کو ئی چیز نہیں،عزت وآبرو کاسوال کرناجرم ہے،پوری معیشت سودی نظام کے پنجوں میں ہے، قانون کی لاٹھی صرف غریب پر برستی ہے،مال دار ہر قانون سے مستثنی وماورا ہے،اخلاقیات کاجنازہ نکل چکاہے،حیاسوزی اور فحاشی کانام ترقی دے دیاگیاہے،مجرم دندنارہے ہیں،بے گناہ جیلوں میں سسک رہے ہیں،رشوت خوری،شراب نوشی،چوری،زنااور جوا بازی کابازار گرم ہے۔
    یہ ہے ان نظامہائے زندگی کابھیانک چہرہ،جس کے زخم دن رات ہم سہہ رہے ہیں،جسے شیطانی دماغوں نے گھڑا اوراب دنیاکاپوراکفر انہیں ہرجگہ نافذ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگارہاہے،جبکہ اسلام کا نظام جو امن وامان گوہر اعتبارسے ان ناقص نظاموں سے بلند وفائق ہے،اسلامی نظام کی کرشمہ سازیاں اس کے عہد اقتدار میں دیکھی جاچکی ہیں مگرانصاف اور انسانیت کے یہ نام نہادہمدرد کسی خطہ زمین پر اس کے نفاذ کوبرداشت کرنے کے لئے تیارنہیں،حالانکہ یہ بات طے ہے کہ ا س دنیاکی حالت اس وقت تک سدھراور سنور نہیں سکتی،جب تک اسے اسلامی خلافت سے نہ مہکایاجائے،ظلم کی یہ آگ جس کاالاؤہر طرف دہک رہاہے،ہرایک جس کی لپیٹ میں ہے، اس وقت تک نہیں بجھ سکتی جب تک خداکی زمین پرخداکانظام نافذ نہ کردیاجائے۔

تبصرے بند ہیں۔