اک فقط تیرے سوا اور بھی دیکھا کیا ہے

م ۔ سرور پنڈولوی

اک فقط تیرے سوا اور بھی دیکھا کیا ہے

تیری صورت کا مری آنکھ سے رشتا کیا ہے

 

اک ترے سجدہ نہ کرنے سے تو ٹھہرا شیطاں !

میں بھی انسان ہوں تم نے مجھے سمجھا کیا ہے

 

اسکو ہی چوٹ لگے جو کہ جھکی ہے ٹہنی !

محو _حیرت ہوں کہ دنیا میں تماشہ کیا ہے

 

پا گیا وہ بھی پریشاں جو نہ پایا ، مایوس

ایک دھوکہ ہے دنیا بھلا دنیا کیا ہے

 

میں نے ہر دور میں سب ہی محبّت کی ہے

مجھکو نفرت سے نفرت ،مرا شیوہ کیا ہے

 

سوچ تو رام نے کیوں چھوڑا سنگھاسن اپنا

تو´ بتا مندر و مسجد کا یہ جھگڑا کیا ہے

 

ایک بھی شعر جو دنیا کو ترا ،یاد نہیں !

شاعری خاک ہے ‘سرور’ تو´ یہ کرتا کیا ہے

تبصرے بند ہیں۔