اندھی عقیدت اور ہمارا معاشرہ

راحت علی صدیقی قاسمی

ہندوستان صوفی سنتوں کا دیش ہے، قدیم زمانے سے یہاں لوگ صوفیاء کرام سے محبت کرتے ہیں، عقیدت رکھتے ہیں، ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہیں ، ان کی کوششوں کو قابل تعریف گردانتے ہیں، ان کے عقائد و اعمال کو باعث تقلید گرادنتے ہیں ، چشتی، اجمیری اور ان خیالات کے حامل صوفیاء نے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ محبت، شرافت، ایمانداری کو عام کیا تھا، مالک حقیقی سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو صحیح راہ دکھائی تھی اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے تھے، انہیں حق و صداقت کا خوگر بنایا تھا، امانت و دیانت کا علم بردار بنایا تھا، خدمت انسانی کی تعلیم دی تھی اور ان کی صحیح تربیت و رہنمائی کی تھی، اپنی زندگی کا ہر لمحہ وہ اسی کار خیر میں صرف کرتے رہے تھے۔

  دولت و شہرت عزت و ناموس کے حریص نہیں تھے، دولت کا انبار نہیں لگاتے تھے، عورتوں کو خدمت کے لئے نہیں اکساتے تھے، انسانوں کی توہین نہیں کرتے تھے، دھوکہ ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا، اپنی تعریف میں قصیدے نہیں پڑھواتے تھے، دنیا سے رخصت ہوئے، توچند سکے ان کی ملکیت میں تھے، مگر ان کی یاد میں آنسو بہانے والوں کا ہجوم تھا، ان کے کارناموں سے متأثر ہونے والے افراد بے شمار تھے، ان کی شہرت و عظمت کئی صدیوں پر محیط ہے اور ان کی عقیدت قلوب میں پیوست ہے، تصوف و سلوک کی دنیا ان کے دم سے آباد ہے۔

  تاریخ کے اس تابناک دور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ڈھونگی باباؤں نے اپنا کام شروع کیا، لوگوں کو چھلنے لگے، ان کے جذبات سے کھیلنے کو حسین مشغلہ سمجھنے لگے، عورتوں کی عزتوں کو تار تار کرنے لگے، دان کے نام پر دولت جمع کرنے اور آسائش و آرائش سے پُر زندگی گذارنے کا انہیں بہترین نسخہ نظر آیا، سادہ لوح افراد ان کے اس جال میں پھنستے چلے گئے اور ان باباؤں کی دکان چمک گئی،ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا، لوگ ان سے مرادیں مانگنے لگے، ان کے سامنے آرزوئیں اور تمنائیں ظاہر کرنے لگے، انہیں اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھے، بات یہیں تک نہیں بلکہ انہیں مسیحا اور خدا گرداننے لگے، ان کے اقوال وافعال کو خطا سے بری خیال کرنے لگے، ان کی ہر بات کو فرمان خدا سمجھ کر قبول کرنے لگے، عقیدت کے نام پر انہیں جو تکلیف پہونچائی گئی اسے بھی انہوں نے ہنس کر قبول کیا، اپنے بیوی بچوں پر بھروسہ نہیں کیا، ان باباؤں پر بھروسہ کیا، عقیدت کے نام پر بلیاں چڑھائی گئیں ، عزتیں تار تار کی گئیں اور لوگوں کی آنکھوں سے عقیدت کی پٹی نہیں اتر سکی، ان سب کرتوتوں کے باوجود وہ بابا کے گن گانے میں مشغول رہے۔

  آسارام کے جرم ثابت ہوئے، عدالت میں اس کی کرتوتوں کالا چٹھا کھل گیا، اس کی حرکتیں طشت از بام ہوگئیں ، عورتوں کے جذبات سے کھیلنا، انہیں اپنی شہوت کا شکار بنانا، مردوں کو مجبور کرنا، انہیں ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچانا، سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا، اس کے باوجود لوگوں کی نگاہیں ، بابا کے اندر چھپا شیطان نہیں دیکھ سکیں اور اس کی محبت و عقیدت میں سڑکیں بھری ہوئی نظر آئیں ، لوگ اس کی حفاظت میں جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور جو شدید ترین حالات پیدا ہوئے، اب تک ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں ۔

بابا رام پال قتل کے ملزم پائے گئے، عدالت کی توہین کے مجرم پائے گئے، مگر ان کے معتقدین نے ان کی حفاظت میں جانیں قربان کردیں اور پولیس کو ان تک پہنچنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرنا پڑا، اسٹائلش گرمیت سنگھ بابا رام رہیم کروڑوں کی دولت، حسن خوبصورتی کا جلوہ، سیاست میں پکڑ، گانے اداکاری کرنے کی بھرپور صلاحیت، پانچ فلمیں کر اسے ثابت کر چکے، لوگوں کے چہیتے انسانیت کی بلندی اس کی عزت و توقیر کی گفتگو کرنے والے، انسانیت کی حفاظت کی آڑ میں کاروبار کرنے والے اور سادھویوں کی عزت سے کھیلنے والے بابا رام رہیم کے خلاف جب ایک سادھوی نے آج سے پندرہ سال پہلے وزیر اعظم کو خط لکھا اور حالات پر مطلع کیا تو کسی کے لئے اس بات پر یقین کرنا آسان نہیں تھا، ان کی عقیدت شباب پر تھی، لوگ پاگلوں کی طرح بابا کو چاہتے تھے، عام آدمی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک ہر شخص کا یہی عالم تھا، چوٹالہ سرکار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ بابا کی سی بی آئی جانچ نہ کرائی جائے، اخبار پورا سچ کے مدیر نے حقائق سے لوگوں کو مطلع کرنا چاہا اور صحافت کے فرائض کو ایمانداری سے ادا کرنا چاہا تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا، گولیوں سے بھون دیا گیا، بھیانک موت دی گئی تاکہ پھر کوئی یہ جرأت نہ کرسکے، اور چھاترپتی کا یہ انجام ان لوگوں کے حوصلوں کو توڑ دے جو بابا کے خلاف ہیں ، لیکن چند لوگوں نے اس لڑائی کو جاری رکھا، حوصلوں کے بل پر اس مشکل تر مقابلہ کو فتح کیا، تکالیف برداشت کیں ، خوف و ہراس کا مقابلہ کیا، مگر اڑے رہے چٹان کی طرح اور سچائی کو کرید کرید کر باہر نکالتے رہے.

آج حقائق سب کے سامنے ہیں ، بابا رام رہیم  پر عصمت دری کا کیس ثابت ہوچکا ہے، پندرہ سال کی کڑی محنت کے بعد سی بی آئی نے ثابت کردیا کہ بابا زانی ہے اور قتل کا مقدمہ ابھی جاری ہے، مگر لوگ اب بھی بابا کی حمایت کر رہے ہیں ، اس کی عقیدت میں جان گنوا رہے ہیں، گاڑیاں جلا رہے ہیں ، سسٹم کو معطل کررہے ہیں، تصویر وہی ہے جو پندرہ سال پہلے تھی، 36لوگ جان گنوا چکے ہیں، 300 سے زیادہ زخمی ہیں، 500 سے زیادہ گرفتار کئے جاچکے ہیں اور دہلی، ہریانہ، پنجاب بہت زیادہ شدید ترین حالات کا شکار ہواہے، زندگی مفلوج ہوئی ہے، حالات انتہائی دردناک ہوئے ہیں ، زندگیاں جلی ہیں، قلوب چھلنی ہوئے ہیں اور یہ حادثہ سوالات کا طویل سلسلہ چھوڑ گیا ہے، عقیدت کے نام کب تک ہم حقیقت کو جھٹلاتے رہیں گے ؟ کب تک بلی چڑھائی جائے گی ؟کب تک معصوموں کے خون سے آرزوئیں پوری کرنے کا ڈھونگ جاری رہے گا ؟

کب تک عورتوں کو عقیدت کے سہارے غلام بنایا جائے گا ؟عورتوں کی حفاظت کا دعوی کرنے والے، ان کے حقوق دلانے کا دعوی کرنے والے، انہیں سماج میں عزت دلانے کا دعوی کرنے والے، کب تک ان پر ظلم و ستم ہوتا دیکھتے رہیں گے ؟کب تک ان کے حقوق کی پامالی کو برداشت کریں گے ؟کب تک ان کی عزتوں کو تار تار ہوتا دیکھتے رہیں گے ؟کب تک ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی رہے گی ؟بابا گرمیت سنگھ کے جرائم کا پردہ فاش ہوا ہے، اس کے خوبصورت چہرے کے پیچھے چھپے حیوان کو زمانہ دیکھ چکا ہے، پھر بھی عقیدت کا دامن کیوں کر سلامت ہے، اسے اندھی عقیدت نہیں تو اور کیا کہا جائے، یہ تو چند لوگوں کی محنت و جفا کشی کا ثمرہ ہے، ورنہ ہمارے معاشرہ میں ہر جگہ پر لوگوں کو ٹھگا جارہا ہے، سینکڑوں بابا ہیں ، جو انہیں لوٹ رہے ہیں، ان کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ، ان کے عقائد کو مسخ کررہے ہیں ، یقین نہ آئے تو آنکھیں کھول کر معاشرہ کے احوال کو دیکھئے، حقائق آپ کی نگاہوں کو خیرہ اور قلوب کو حیران و ششدر کردیں گے، باباؤں کی دولت، ان کے ٹھاٹھ، ان کی موج مستی آپ کے سامنے واضح ہوجائے گی اور سمجھ میں آجائے گا ان باباؤں پر دولت لٹانے کا کیا فائدہ، اگر آپ قلبی سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، ثواب کے متلاشی ہیں، تو راہیں کھلی ہوئی ہیں.

ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں بھوک سے مرنے والے افراد کی تعدادکثیر ہے، غربت سے لڑتے افراد بے شمار ہیں، اسکول نہ پہنچنے والے بہت سے بچے ہیں، کیا ضرورت ہے باباؤں پر دولت لٹانے کی ؟بھوکوں کو کھانا کھلائیے، غریبوں کو لباس پہنائیے، غیر تعلیم یافتہ بچوں کو علم کی دولت سے آشنا کرائیے، ان امور پر دولت خرچ کیجئے، قلبی سکون بھی حاصل ہوگا اور قربت الٰہی بھی۔ اندھی عقیدت کو ختم کیجئے، آپ اکیسوی صدی میں ہیں ، حقائق سے آنکھیں چرانے کی کوشش مت کیجئے، ڈھونگیوں سے متاثر مت ہوئیے، اگر آپ نے ہوش کے ناخن نہیں لئے، کل کوئی اور آپ کی عقیدت کے سہارے پر شہوت رانی کرے گا، قتل کرے گا، سیاسی رہنماؤں کا استعمال کرے گا، دولت جمع کرے گا، جرائم کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انجام دیکھا اور ملک کو کھوکھلا کردے گا، لوگوں کو حقائق سے دور کردے گا، ہوش میں آؤ، حقائق سے آنکھیں ملاؤ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔