دو متضاد اور متوازی دھارے!

عالم نقوی

دنیا آج پھر ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے جس کا سبب ہوس ِ اقتدار کے سِوَا، اَور کچھ نظر نہیں آتا۔ ہر جنگ کے لیے ایک دُشمن کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا وقت کے نمرودوں، فرعونوں، قارونوں  اور سامریوں نے اسلام اور مسلمانوں  ہی کودُشمن قرار دے لیا ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک ان کی ظالمانہ بالادستی کی بقا کے لیے امکانی Potential خطرہ بھی ہیں اور حقیقی بھی! سام، دام، دنڈ، بھید سبھی طریقوں کے استعمال سے اُنہی ہر حال میں محکوم ومغلوب  رکھنے اور ان کے قدرتی وسائل پر شاطرانہ، غاصبانہ اور مُسرِفانہ طور پر قابض رہنے کے ساتھ ساتھ اُن کے ایمان اور شعائرِ دینی کو اپنی چَو طرفہ یلغار  کے نشانے پر رکھنا ہی اُن کا واحد نصب ا لعین ہے کیونکہ اخلاقیات و روحانیات کے بحران، خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور منفی شرح پیدائش نے مغرب کو جس خلا میں ڈھکیل دیا ہے اُس سے  بہ حفاظت باہر آنے کا راستہ آج اسلام کے سوا اور کسی نظریے اور نظام کے پاس نہیں۔

وہ کھلی آنکھوں سے یہ بھی دیکھ رہے ہیں ان کی سازشیں اور مسلمانوں کی داخلی رقابتیں بھی (جن کا مظاہرہ شام و یمن قطر و بحرین اور مصر ونائجیریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران و پاکستان وغیرہ  میں کھلی آنکھوں سے بھی کیا جا سکتا ہے )  اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کو روکنے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ جو نائن الیون  انہوں نے  مسلم ممالک کو نئے سرے سے تاراج کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا تھا   وہی امریکہ یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسلام کی توسیع کا بہانہ بن چکا ہے!۔ کیونکہ۔ ۔مکروا و مکر ا للہ واللہ خیر ا لما کرین۔ !صرف امریکہ میں نائن الیون کے بعد سے اب تک کے سولہ برسوں میں پچیس لاکھ سے زائد عیسائی اور یہودی، سفید فام اور سیاہ فام امریکی اور افریقی مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہی حال یورپی ممالک کا بھی ہے۔ اسلام کی سب سے زیادہ اشاعت فرانس میں ہوئی ہے جہاں نو مسلم فرانسیسیوں کی تعداد دیگر یورپی اقوام سے نسبتاً زیادہ ہے۔

1929 میں امریکہ میں صرف ایک مسجد تھی۔ آج 2017 میں پورے امریکہ میں دو ہزار پانچ سو سے زائد مساجد ہیں ! 2003 تک روس میں صرف دو سو پچاس مساجد تھیں آج وہاں مسجدوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے !

 یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب گلو بلائزیشن کے نتیجے میں ہونے والا نقل مکانی بھی ہے۔ ہم ایسے کئی مضامین یورپی دانشوروں کے پڑھ چکے ہیں جن میں یہ انتباہ دیا گیا ہے کہ یہی حال رہا تو  2050 تک یورپ  ’یوروبیا ‘ بن جائے گا ! خود اسرائل کے بارے میں صہیونی مفکرین اپنے حکمرانوں کو یہ وارننگ دے چکے ہیں کہ ساؤتھ افریقہ وغیرہ کی طرح  جلد یا بدیر اسرائل میں بھی مسلم مخالف نسل پرستانہ قوانین  کا س کے بعد خاتمہ ہو کے رہے گا اور اس وقت فلسطینی عرب اپنے آپ حکمراں بن جائیں گے کیونکہ تعداد کے اعتبار سے تو وہ آج بھی یہودیوں سے زیادہ ہیں لیکن چونکہ ہم نے انہیں ووٹ دینے کے حق اور دیگر  مساوی جمہوری شہری حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور ان کی آبادیوں کو دیواریں اٹھا کر کھلی جیلوں میں تبدیل کر رکھا ہے اس لیے وہ مجبور ہیں لیکن جس دن انہیں آزادی ملی وہی اقتدار میں ہوں گے !

تو یہ ہیں وہ دونوں  متضاد دھارے  جو آج دنیا میں متوازی بہہ رہے ہیں!

تیسری جنگ تو بظاہر سر پر کھڑی ہے لیکن   اس  کے بعد دنیا میں عدل و قسط کا قیام اور مستضعفین فی ا لا رض کی حکومت کا قیام بھی یقینی ہے۔ ہمیں اس کا افسوس ہے کہ ہم دنیا کو اپنے بعد والی دوسری اور تیسری نسلوں کے لیے کچھ اچھی حالت میں چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں لیکن دنیا پر دبنگوں، لٹیروں ڈاکوؤں، ظالموں  جاہلوں اور کمینوں کی جگہ شریفوں، دبے کچلے ہوئے لوگوں، غریبوں اور عام آدمیوں کی حکمرانی کی واپسی یقینی ہے  کیونکہ ہمارے صادق و امین قائد و رہبر ﷺ چودہ سو سال پہلے یہ مژدہ سنا گئے ہیں کہ دنیا ایک روز عدل و قسط سے اُسی طرح بھر کے رہے گی جس طرح وہ اُس وقت ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو گی !اور یہی قرآن میں میرے رب دا فرمان بھی ہے کہ ’’اللہ نے تم میں سے ’صاحبان ِ ایمان و عمل صالح ‘سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنا چکا ہے اور ان کے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب، صرف میری ہی عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد بھی کافر ہوجائں تو در حقیقت وہی لوگ فاسق اور بد کردار ہیں (سورہ نور آیت ۵۵)اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں (سورہ قصص آیت 5)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔