’’انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت ‘‘

اور سنگھ پریوارکی حیوانیت

عبدالعزیز

         سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کے حوالے سے انسانیت اور کشمیریت کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کو انسانیت اور کشمیریت کے دائرہ میں رہ کر حل کرنا چاہئے۔ واجپئی بھی اگر چہ سنگھ پریوار ہی کے ایک ممبر تھے مگر ان کے اندر تھوڑی بہت انسانیت تھی، اس لئے ان کے منہ سے انسانیت کی بات بھی اچھی لگتی تھی مگر راج ناتھ سنگھ جو اس وقت مودی جی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ان کے منہ سے انسانیت اور کشمیریت کی بات بالکل ان کی سیرت اور کردار کے برعکس چیز معلوم ہوتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ ہیں ان کے حکم اور مودی جی کے اشارے سے کشمیریوں پر پیلٹ گن کا استعمال ہوا جس کی وجہ سے سو سوا سو بچے اپنی آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئے۔ اس سے کہیں زیادہ مرد اور خواتین کو بھی محبوبہ اور مفتی کی ظالمانہ کارروائی کی وجہ سے اپنی آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑا۔ جن گولیوں کو اسرائیل نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی چیخ پکار کی وجہ سے استعمال کرنابند کر دیا انہی گولیوں کو اگر مودی اور محبوبہ کی پولس فورسز استعمال کرتی ہے تو کیا ایسی حکومت اسرائیلی، یہودی اور صیہونی حکومت سے زیادہ انسانیت کیلئے ظالم اور خطرناک نہیں ہے۔ ایسی حکومت سے انسانیت کے بجائے حیوانیت کی توقع ہوسکتی ہے۔ انسانیت کی توقع ایسی حکومت یا ایسے پریوار سے نہیں کی جاسکتی۔

        جمہوریت… جہاں تک سنگھ پریوار سے جمہوریت یا سیکولرزم کا تعلق ہے کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح ان کے لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کے بھی دشمن ہیں۔ جمہوریت ان کے دور میں لہولہان ہے۔ اپنے سوا یہ کسی کی آواز اور بیان سننے کیلئے تیار نہیں ہیں جو بھی ان کی رائے سے اختلاف کرے گا یا مخالفت میں آواز بلند کرے اسے فوراً یہ قوم دشمن اور غدار وطن کا نہ صرف الزام لگاتے ہیں بلکہ اسے جیل بھیجنے یا گرفتار کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف رائے اور انحراف کوئی قابل گرفت چیز نہیں ہے بلکہ جمہوریت کیلئے رایوں میں اختلاف ہی جمہوریت کی جان ہے اگر اس پر کسی قسم کا قدغن لگایا جاتا ہے تو ایسی قوتوں اور جماعتوں کو جمہوریت یا جمہوری قدروں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ یہ طاقتیں جمہوریت کی پامالی اور آمریت اور کلیت پسندی کا فروغ پسند کرتی ہیں۔ سنگھ پریوار کو جمہوریت کے بجائے آمریت زیادہ پسند ہے۔ یہ پریوار جمہوریت دشمنی پر اتارو ہے۔

        کشمیریت … سنگھ پریوار کے لوگ کشمیر کے پنڈتوں سے تو دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں مگر کشمیر کے مسلمانوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ ان کی ساری دلچسپی کشمیر کی زمین اور مٹی سے ہے۔ کشمیر کے لوگوں سے ان کی کوئی دلچسپی یا محبت نہیں ہے۔ جو لوگ کشمیر چاہتے ہیں اور کشمیری کو راندہ درگاہ کرنا پسند کرتے ہیں وہ کشمیر کے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ایسے لوگوں کے منہ سے کشمیریت کا لفظ اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے ان کی منافقت ظاہر ہوتی ہے کشمیریت نہیں۔

        حیوانیت: جو طبقہ یا پریوار انسانوں کو دکھ پہنچاتا ہو اور دہشت گردانہ حملہ کرنے سے دلچسپی ہو اور زبانی دہشت گردی (Verbal Terrorism) جن کی عادت ثانیہ بن چکی ہو۔ ان کو تو حیوانیت ہی راس آتی ہے اور حیوان بننے اور بنانے پر ہی زیادہ زور دیتے ہیں جو جس قدر ان کے یہاں مسلمانوں اور دلتوں کو ستاتا ہے یا ستائے گا وہ اتنا ہی بڑا لیڈر کہلائے گا اور اس کی لیڈر شپ مستحکم ہوجائے گی جیسے مودی جی ان کے پریوار میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لئے وہ ان کے پریوار کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے ہیں۔ ان کے بیانات سے ہی نہیں ان کے عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ آج بھی ان کی جماعت مسلمانوں کے درپے ہے مگر وہ دلتوں سے ووٹ لینے کیلئے تو یہ بیان دینے میں ان کو آسانی ہوگئی ہے کہ دلتوں کو ان کی پارٹی کے غنڈے، بدمعاش گولی نہ ماریں بلکہ ان کو ماریں حالانکہ دلتوں سے کہیں زیادہ سنگھ پریوار کے ظلم اور بدمعاشی کے مسلمان شکار ہیں۔ ان کے بیان کا گر تجزیہ کیا جائے تو ایک مطلب تو یہ ہوگا کہ دلتوں کو نہ ستایا جائے۔ اگر ستانا ہو تو مودی کو ستایا جائے۔ گولی مارنا ہے تو مودی کو مارا جائے، دلتوں کو نہ مارا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمانوں کو ستایا جارہا ہے اور گولی ماری جارہی ہے وہ جاری رہے۔ اگر یہ انصاف پسند وزیر اعظم ہوتے تو یہی کہتے کہ کسی کو بھی ناحق نہ ستایا جائے، خواہ دلت ہو یا مسلمان یا کچھ اور۔ نہ اسے گولی ماری جائے۔ ایک ملک کا وزیر اگر دو آنکھ رکھتا ہے تو مسلمانوں کیلئے الگ آنکھ ہے اور ہندوؤں کیلئے دوسری آنکھ تو ایسا وزیر اعظم بھید بھاؤ کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی ملک میں نہیں چاہتا۔ ظاہر ہے یہ سراسر نا انصافی اور ظلم ہے۔ جب ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی نہیں ہوگی، جبر وظلم کی حکمرانی ہوگی تو ملک انارکی اور خانہ جنگی کا شکار ہوگا اور اس کے ذمہ دار حکمراں ہوں گے۔ مودی جی اور ان کی پارٹی ہوگی۔ ضرورت ہے کہ مسلمان صبر سے کام لیں اور مظلوموں کے ساتھ جبر و ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور پر امن جمہوری انداز سے ہر وہ طریقہ استعمال کریں جس سے حکومت اور حکمراں جاگیں یا کم سے کم ان کو خطرہ معلوم ہوکہ شہریوں کی بڑی تعداد ان کے خلاف ہوجائے گی جس سے ان کی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔