طلاق ثلاثہ – نفاذ یکساں سول کوڈ کا چور دروازہ

راحت علی صدیقی قـاسمی

          ہندوستان میں کچھ خاص نظریات کے حامل افراد گذشتہ عرصہ سے اقدامی انداز میں اپنی باتوں کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہیں ہر قیمت پر اپنے منصوبوں کو زمینی سطح پر کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، کبھی بھگواکرن، کبھی سول کوڈ تو کبھی ہندو راشٹر؛ مختلف ناموں اور مختلف پیرایوں اور الگ الگ تدابیر کے ساتھ اپنے منشاء و مقصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، ان کی تمام تدابیر ناکام ہوئیں اور تشدد و تعصب پر مبنی قرار پائیں۔ ہر محاذ اور ہر موڑ پرانہیں منھ کی کھانی پڑی، انہیں پورے طور پر مسترد کردیا گیا، تمام انسانوں نے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو زرد ہونے سے بچایا۔ اب یہ طبقہ اس فکر میں غرق تھا کہ آخر ایسا کون سا حربہ ہے، ایسی کون سی اسکیم ہے جس کے تحت لامذہبیت کا وجود قانون کی کتابوں میں ہو اور ہندوستان کی رنگارنگ مذہبی تہذیب کا جنازہ نکل جائے۔ انیکتا میں ایکتا کا نعرہ ختم ہو اور کچھ خاص افراد کے نظریات کو ہندوستان کا قانون قرار دے دیا جائے، ان کی اس خواہش و آرزو کی تکمیل میں جو قوم آڑے آرہی تھی، جو راستے کا پتھر ثابت ہورہی تھی، جس کے حوصلے اور عزائم متحیر کرنے والے تھے اس قوم کوکس طرح شکست دی جائے، کس طرح عوام کو ان کے خلاف کیاجائے اور کس طرح ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے؟ گائے کے نام پر بھی اس گھاٹی کو پار نہیں کیا جاسکا، آپسی اختلافات اور منافرت بھی اس حکمت عملی کو کامیاب نہ کر سکی۔ اب ضرورت تھی ایسی تدبیر کی جو مسلمانوں کو منتشر کردے، غیر مسلموں کو ان کے خلاف کردے جس کی طرف عوام وخواص متوجہ ہوں، ان کے جذبات بھڑک اٹھیں تاکہ نام نہاد سول کوڈ یعنی لامذہبیت کا نفاذ آسان ہوجائے۔ اس اثناء میں طلاق کے نتائج منظر عام پر لائے گئے جن میں واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ مسلم خواتین طلاق کاشکار ہوتی ہیں، انہیں ستایا جاتا ہے، ان پر مظالم کی انتہا کی جاتی ہے، لہٰذا اس کا حل کیا ہے؟ بڑی خوبصورتی سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ راسخ کی جارہی ہے کہ سرے سے طلاق کے وجود ہی کو ختم کردیا جائے۔ عجیب منطق ہے دنیا میں نہ جانے کتنے افراد روٹی زیادہ کھانے سے بدہضمی کا شکار ہوکر مر گئے مگر تاریخ انسانیت میں کوئی ایسا طبیب پیدا نہیں ہوا جس نے یہ کہا ہو کہ روٹی کھانا ہی چھوڑ دیا جائے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جو مذہب سے ناواقفیت کی زندگی گذار رہا ہے، اسے یہ سمجھایا جائے طلاق کھیل نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے جس کا استعمال بوقت ضرورت ہی کیا جائے۔ قرآن کریم کہتا ہے ’’اگر حدود خداوندی کو قائم نہیں کرسکتے تو طلاق ہے‘‘ نمک کی کمی زیادتی پر طلاق دینے والے یقینا عنداللہ ماخوذ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابغض الحلال الطلاق حلال لیکن طلاق ضرورت ہے جس کا زندگی میں اہم کردار ہے اور قرآن کریم سے واضح الفاظ میں ثابت ہے، کسی جاہل، ناچنے والے، دہریئے یا کسی نغمہ نگار کی بکواس کرنے سے حقیقت بدل نہیں سکتی، جسے نہ قرآن کی باریکیوں کا علم، نہ معاشرہ کی اقدار کی فکر، جس کے گھر کا ہر فرد لامذہبیت کا عملی علمبردار ہے، اس کی باتوں کی شریعت میں کیا حیثیت ہے۔ جن فنون میں نہ آپ کو مہارت نہ واقفیت ان میں آپ کی گفتگو حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ گفتگو کیجئے کہانی پر، فلم پر، موسیقی پر، نغمہ نگاری پر، وہی آپ کا میدان ہے۔ شریعت کے معاملات پر نہیں، ہر شخص ہر معاملہ میں صاحب رائے نہیں ہوتا، آپ اپنے میدان عمل پر کچھ بھی کہئے کون روکتا ہے؟ اگر ایک ڈاکٹر تاریخ کی بات کرتا ہے یا ایک فزیشین سرجن کو صلاح دیتا ہے تو ہر کسی کی زبان پر بلاتامل یہ الفاظ جاری ہوجاتے ہیں کہ صاحب یہ آپ کا میدان نہیں ہے، پھر شریعت کا کیا ٹھکانہ جو سب سے اہم ہے۔ جو اصحاب اس میدان کے ماہر ہیں، جنہوں نے اس میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں، شب و روزمطالعہ کرکے باریکیوں پر مطلع ہوئے ہیں وہ خود اس معاملہ میں کوشش کریں گے اور حل تلاش کریں گے لیکن قرآن واحادیث پر حملہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی معاشرہ میں خرابی ہے تو اس کے قوانین کی نہیں افراد کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔

           آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جائے عورتوں پر مظالم کا نعرہ لگانے والے آنکھیں کھولیں اور ہندوستان کے منظرنامے کو دیکھیں ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 24923 زناکے معاملہ درج کئے گئے، کیا یہ عورتوں پر ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے ذہنی جسمانی تکلیف نہیں ہے؟ اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف ہوسکتی ہے؟ اس سے بڑھ کر کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟ جاوید اختر کی زبان کو اس وقت تالا کیوں پڑا رہا؟ عورتوں کی حمایت کی بات کرنے والے کہاں سوئے ہوئے تھے؟ کیا ان کی زبانوں نے ایسا کوئی قانون اُگلا جیسے طلاق کے خاتمہ پر مصر ہیں ؟ سلسلہ آگے بڑھتا ہے 2014 میں یہ تعداد24470رہی، اعداد و شمار گواہ ہیں کہ ان میں سے اکثر عورتیں زانی کو پہچانتی تھیں، وہ ان کے پڑوسی یا رشتہ دار تھے کیا جاوید جیسے لوگوں نے یہ کہا کہ عورتوں پر ظلم بڑھ رہا ہے یا عورتیں مردوں سے دور رہیں۔ غیر آباد مقامات پر رہیں یا ان کو انصاف میسر آیا؟ بہت سے واقعات اس نوعیت کے ہیں۔ انسانیت شرمسار ہوئی، کسی جانور نے بھی ایسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب نہیں کیا مگر چند دنوں میڈیا کے مباحث کے بعد کیا ہوا سب جانتے ہیں۔ یہ نام نہاد عورتوں کے مظالم پر رحم و کرم کا مظاہرہ کرنے والے حقیقت میں کیا چاہتے ہیں ؟ پہچاننا مشکل  نہیں ہے حالاں کہ قوانین میں اصلاحات بھی ہوئیں مگر نتیجہ صفر ہے۔ 2015 کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہر دن چھ معاملہ عصمت دری کے درج کئے گئے ہیں یونائیٹیڈ نیشن کی رپورٹ کے مطابق 65 ملکوں میں ڈھائی کروڈ سے زیادہ زنا کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ یہ تعداد تو وہ ہے جنہوں نے ہمت کی اور قانون کے دروازہ پر دستک دی، اس کے علاوہ نہ جانے کتنی تعداد ان عورتوں کی ہے جو ٹوٹ گئیں، بکھر گئیں، سماج سے آنکھیں ملانے کی جرأت نہ کرسکیں اور قانون کے دروازے پر دستک ہی نہیں دی۔ یہ ہے عورتوں کی حفاظت، یہی ہے ان کی ہمدردی تعلق ربط اور پیار کی نشاندہی سچائی دو دو  چار کی طرح واضح ہے۔ یہ کچھ نہیں مسلم پرسنل لاء پر اور قرآن و شریعت پر حملہ ہے جو ناقابل برداشت ہے ورنہ تو لیو ان ریلیشن شپ کو صحیح خیال کرنے والے مردوں کی شادی کو صحیح کہنے والوں کو تین طلاق اور ایک سے زیادہ شادیوں پر کیا تکلیف ہوسکتی ہے؟ مطلع صاف ہے حقیقت سامنے ہے۔ اگر عورتوں کی حفاظت کا یہ دعویٰ حقیقی ہوتا تو نربھیا کے قاتلوں کو سر عام چوراہے پر پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جاتا مگر کیا ہوا سب جانتے ہیں، سب نے کھلی آنکھوں دیکھا۔ احتجاج، مظاہرہ سب کچھ ہوا، لوگ سڑکوں پر اترے، روئے چلاّئے، پر جو وہ آج بھی نگاہوں میں ہے۔ وہ خوفناک مناظر تو موت ہی ذہن سے محو کرسکتی ہے۔ اس پس منظر کا ہر ذی شعور ادراک کر سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ورنہ مذہب اسلام جو عورتوں کی عزت و تکریم کا پیغام دیتا ہے جہاں بیوی کومحبت کی نگاہ سے دیکھنا صدقہ گردانا جاتا ہے، جہاں وقت کا نبی بیوی کی دل جوئی کے لئے دوڑ لگاتا ہے، جہاں بیوی گھر کی ملکہ، ماں جنت پانے کا ذریعہ، بیٹی کی پرورش رسول مقبول کی قربت کا باعث، ہر صورت میں عورت کی توقیر مذہب اسلام کا خاص وصف ہے۔ مالی اعتبار سے بھی اسے محروم نہیں کرتا، شریک حیات ہونے کی صورت میں مہر اور میراث میں حصہ دیتا ہے۔ ماں، بیوی، بہن کو میراث میں حصہ دیتا ہے، اس سے پیار ومحبت اسلام کا امتیاز رہا۔ ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ قرآن وسنت سے جائز ہے اور دنیا کے اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا میں مردوں اور عورتوں کی تعداد کیاہے ایک ہی شادی کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟ اس کے باوجود قرآن کہتا ہے فان خفتم الا تعدلوا فواحدہ اگر انصاف نہیں کرپاوگے ڈر ہے خوف تو تمہارے لئے ایک بہتر ہے، یہ اسلام کی عورتوں کے تئیں ہمدردی چار ہفتوں بعد عدلیہ فیصلہ کرے گا اور یہ واضح ہوجائے گا کہ تین طلاق کا سلسلہ پر کیا ہوگا؟ ہر ہندوستانی کو امید ہے کہ عدلیہ مذہبی اقدار کو خیال کرتے ہوئے فیصلہ سنائے گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد رہیں اور حقیقت سے باخبر رہیں۔ ہندوستان ہمارا ملک ہے اور جمہوری ملک ہے، جس جمہوریت کو خون بہاکر حاصل کیا گیا ہے۔ اگر دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھا گیا تو جمہوریت دم توڑدے گی۔ وقت بتائے گا کیا ہوگا؟ لیکن ہم اتحاد کا ثبوت پیش کریں اور ظاہری حالت جس کو پرنٹ میڈیا ہمارے اوپر تھوپ رہا ہے، ہمارے قلوب میں راسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس سے بچیں اور سمجھیں کہ اعداد و شمار میں طلاق دوسرے مذاہب کے افراد نے بھی دی ہے۔ بھلے ہی کم تعداد میں ہو اورجرم کی کیفیت دیکھی جاتی ہے، صرف کمیت نہیں۔ ان لوگوں کو سرے سے میڈیا بھول ہی گیا۔ یہ ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ ہمیں حالات اسی احساس کو قلب پر وارد کرتے ہیں۔ اس کا ہمت و جرأت سے متحد رہتے ہوئے مقابلہ کرنا ہے۔ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس وقت ہمیں متحد رہنا ہے، اس خیال کو ذہنوں سے نکال دیاجائے کہ ہمارا تعاون اور مدد کی جارہی ہے۔ اس وقت کسی بھی مسلک کے افراد کو استعمال کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے ہمیں باخبر رہنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔