اچھے ٹیچر کی تلاش

تحریر:  محمد اسحاق    ترتیب:   عبدالعزیز

        سارے نظام تعلیم میں کلاس روم میں پڑھانے کا کام سب سے زیادہ اہم ہے۔ معاشرہ اور ملک کے مفاد میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ بچوں کو اچھی تعلیم دی جائے تاکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی نشو و نما کے امکانات و ہیجانات کو پورا کرسکے۔ اس کی شخصیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ بچہ کی خوابیدہ صلاحیتیں ممکنہ حد تک ترقی کر جائیں جو اس کی زندگی میں ترقی اور کامیابی کا باعث ہوسکیں۔ مختصر طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ سارے تعلیمی نظام میں جو مسائل بنیادی اور مرکزی نوعیت کے ہیں وہ صرف دو ہیں، ٹیچر اور اس کے پڑھانے کی قابلیت۔ اس کو ذرا وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے۔

        (1  کس طرح قابل مرد اور خواتین کو اس پیشہ کی طرف راغب کیا جائے؟

        (2   طلبہ کو موثر تعلیم کس طرح دی جائے تاکہ بچوں کی نشو و نما، فطری تقاضوں اور کھوج اور جستجو کو مہمیز کرسکے۔ وسیع نقطہ نظر سے وہ ملک و قوم کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔

        جان ڈیوی (Jhon Deey) کا کہنا ہے کہ تعلیمی میدان میں ساری اصلاحات صرف ایک شرط کی تابع ہیں۔ وہ ان لوگوں کی قابلیت و صلاحیت پر موقوف ہیں جو پیشہ تدریس سے منسلک ہیں۔

        یونیسکو (Unesco) کے تحت ایک ٹیچرس ٹریننگ ورکشاپ کی رپورٹ میں اس بات کو ریکارڈ کیا گیا ہے کہ ’’اساتذہ نہ کہ بچہ تمام تعلیمی مسائل کا معمہ لاینحل ہے۔ شاید نصف درجن اسکیم کامیاب ہوجائیں۔ اگر موزوں ٹیچرز کلاس رومس میں نوخیز نسل کی تعلیم کے ذمہ دار ہوجائیں ‘‘۔

        ہمارے ملک میں مدارس کھولنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک اچھے ٹیچرز کا ملنا دشوار ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ مسئلہ بھی آسان نہیں کہ کس طرح ٹیچر بنایا جائے تاکہ اسے اپنے پیشہ سے انس ہو۔ اس سلسلے میں کوٹھاری ایجوکیشن کمیشن کا یہ مشاہدہ نوٹ کرنے کے قابل ہے:

        ’’اچھی سے اچھی تعلیمی اسکیمیں ناکام ہوجائیں گی جنھیں ان اسکیموں کو رو بہ عمل لانا ہے وہ اگر غیر تربیت یافتہ ہوں اور خود سے تیار نہ ہوں لیکن ایک ناقص اسکیم بھی کامیاب ہوجائے گی۔ اگر ٹیچر ز اچھے ہوں اور اس پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں ‘‘۔

        جہاں کہیں کسی اسکول انتظامیہ سے سابقہ پڑتا ہے وہاں پر یہی ایک پریشان کن سوال ہے کہ اچھے تربیت یافتہ ٹیچرز نہیں ملتے۔ کچھ تو اسکول کا فائیننس اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ سب کو گورنمنٹ اسکیل دیں۔ دراصل ٹیچرز کا مشاہرہ اس اسکول کے تعلیمی معیار کیلئے بار پیما کا کام دیتا ہے۔ اگر ٹیچرز کی تنخواہیں ہزار بارہ سو کے اندر ہیں تو پھر اس گرانی کے زمانے میں جب تک گزر بسر کیلئے کوئی دوسری آمدنی کا ذریعہ نہ ہو، وہ دل لگاکر پڑھا نہیں سکتا۔ گورنمنٹ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے ٹیچروں کی تنخواہیں آج کل پانچ چھ ہزار روپئے ماہانہ ہیں۔ اتنی اچھی تنخواہیں وہ اگر پاتے ہیں تو ضرور وہ بہترین اور مثالی ٹیچرز ہوں گے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ان پر خاطر خواہ کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا۔ گورنمنٹ کی ملازمت میں بڑی عافیت اور سکون ہے۔ کسی کی نا اہل ثابت بھی ہوجائے تو قوانین کچھ ایسے ہیں کہ ان کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ خانگی اسکولوں کو اپنا معیار باقی رکھنے کیلئے بہت سے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں تاکہ معاشرہ میں ان کا وقار باقی رہے۔ دوسرے یہ کہ کمتر مشاہرہ پر اچھے ٹیچرز عام بے روزگاری کی وجہ سے مل جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں لیڈی ٹیچرز کی بہتات بھی مشاہرہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ خواتین کی کچھ مجبوریاں ہیں، وہ کمتر مشاہرہ پر کام کرنے کیلئے راضی ہوجاتی ہیں بشرطیکہ اسکول مکان کے قریب ہو اور وہ اپنی شادی کے انتظار میں ہوں۔ لیکن خواتین ٹیچرز محنتی اور ذمہ دار پائی گئی ہیں۔ عذرا پبلک اسکول کے سربراہ نے شکایت کی کہ ہمارا اسکول شادی خانہ بن گیا ہے۔ اس تعلیمی سال کے دوران 42میں سے چھ ٹیچرز کی شادیاں ہوگئیں۔ ان کے مسائل سے ہمدردی ضروری ہے۔ کنڈر گارٹن سے ساتویں جماعت کی لیڈی ٹیچرز بہت کامیاب اور موثر ہوتی ہیں، سیکنڈری اسٹیج اور کالج کی سطح پر مرد ٹیچرز کامیاب رہیں گے لیکن یہ کوئی آزمودہ فارمولہ نہیں ہے۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ جیسے ہی بات چیت طے ہوئی، اب ان کا دل پڑھانے میں نہیں لگتا بلکہ جلد اڑنے کی فکر میں رہتی ہیں۔ وہ اسکول کو ویٹنگ روم بنائے رکھتی ہیں۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ ہمیشہ دس پندرہ منتخب ٹیچرز کا ہر مضمون میں ایک دو کے حساب سے پینل پہلے ہی سے تیار رکھ لیں۔ جب کبھی کسی ٹیچر کی جانب سے ایک ماہ قبل نوٹس ملے، فوراً اس منتخب لسٹ سے اس مضمون کی ٹیچر کو ایک ہفتہ قبل ہی اسکول میں رجوع کریں تاکہ جانے والی ٹیچر نئی ٹیچر کو اسکول کے ماحول، طلبہ سے ملاقات، طلبہ سے ملاقات، نصاب کی تکمیل، ہوم ورک وغیرہ سے واقف کرواسکے۔ ایسی صورت میں کوئی خلا باقی نہیں رہتا۔ دس پندرہ دن بھی کوئی ٹیچر رخصت لے لے طلبہ کو بہت نقصان ہوتا ہے لیکن اکثر انتظامیہ مہینے دو مہینے کی غیر حاضری میں بھی کچھ نہیں کرپاتی۔

        ٹیچرز کے انتخاب میں کسی سفارش اور دوسری باتوں کا لحاظ نہیں رکھنا چاہئے۔ ایک ناقص ٹیچر ہو تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں طلبہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اچھا ٹیچر ہو تو پوری ایک نسل اس کی ذات سے فیضیاب ہوتی ہے۔ ٹیچر سے انٹرویو کے بعد انھیں کسی کلاس میں پڑھانے کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لینا نہایت مفید ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ایک سال میں ٹیچر کی قابلیت و صلاحیت کو جانچنے کا کافی موقع ملتا ہے۔ اگر کسی ٹیچر میں بہتر ٹیچر بننے کی صلاحیت اور توقع نہیں ہے تو سال کے ختم پر اس کی چھٹی کر دینا چاہئے۔ خراب ٹیچر کو برداشت کرتے جانا در اصل بچوں کے ساتھ ظلم ہی نہیں بلکہ معاشرہ کے خلاف ایک جرم ہے۔

        بہت سے اسکولوں میں یہ خوش فہمی ہے کہ ٹرینڈ ٹیچر سے اَن ٹرینڈ ہی بہتر ہوتے ہیں۔ انھیں تنخواہیں بھی کم دینی پڑتی ہیں۔ در اصل تربیت یافتہ ٹیچر کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ بعض اچھے ٹیچرز کو ان کے کام کو قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انھیں بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ سارے ملک میں سینکڑوں سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے سنٹرل اسکول ہیں جن میں ایک بھی ان ٹرینڈ ٹیچر کا گزر نہیں۔ آندھرا پردیش ایجوکیشن کوڈ کے تحت یہ شرط عائد کر دی گئی ہے کہ اسکولوں میں صرف تربیت یافتہ ٹیچرز کا تقرر کیا جائے۔ ٹرینڈ ٹیچرس کی عدم دستیابی اور ان کے مشاہرہ کی وجہ خانگی اسکولوں میں غیر تربیت یافتہ ٹیچرز کی بھرمار ہے۔

        ایک اور خام خیال مثالی ٹیچر یا Born Teacher کا ہے جسے کوئی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک نایاب اور کمیاب شئے ہے جو شاید ہزاروں میں ایک مل جائے۔ ورنہ ہر محنتی ٹیچر کو مثالی ٹیچر سمجھنا غلطی ہے۔

        اچھے ٹیچرز ہی کسی تعلیمی ادارے کی شان ہوتے ہیں۔ کرسچین مشنری اسکولوں میں اور بعض دوسرے اچھے اسکولوں میں گورنمنٹ کی مقررہ شرح سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ان کے شرائط ملازمت بھی گورنمنٹ کے مقررہ اصولوں کے تحت ہوتے ہیں۔ یہاں انتظامیہ ایمانداری سے کام لیتا ہے اور ٹیچرز بھی پوری تندہی سے کام کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کی شہرت اور عظمت کا راز اچھے ٹیچرز اور ان کا کام ہے۔ تعلیم کی دنیا میں ٹیچرز کی تنخواہوں کو انسانی وسائل کے فروغ کیلئے ساری دنیا میں اب بہترین سرمایہ کاری سمجھنے لگا ہے۔ ساری قوم کی ترقی کا راز مطمئن ٹیچر ہے۔ وہ ادارے خوش قسمت ہیں جہاں کے ٹیچر مطمئن اور پڑھانے کے کام میں ایسے مشغول ہوں کہ انھیں ادھر ادھر دیکھنے کی نہ تو حسرت ہوتی ہو اور نہ اپنی آسودہ زندگی سے ہٹ کر انھیں ہاتھ پیر مارنے کی ضرورت پڑتی ہو۔

        ’’زوال یافتہ قوموں کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ ان کے افراد میں حس کا مادہ بیحد بڑھ جاتا ہے اور وہ کسی کو کھاتا پیتا اور خوش یا ممتاز نہیں دیکھ سکتے۔ انھیں یہ بھی گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی اچھا کام کرکے نام حاصل کرلے خواہ وہ کام انھیں کے فائدہ کا کیوں نہ ہو‘‘۔           (سید حامد)

تبصرے بند ہیں۔