انسانی برادری کا حق

تحریر : مولاناسیدسلیمان ندویؒ        ترتیب: عبـــدالعـــزیــز

          ایک انسان کے دوسرے انسان پرانسانی برادری کی حیثیت سے بھی کچھ فرائض ہیں، جن سے عہدہ برآہوناہرمسلمان کامذہبی فرض ہے، تبلیغ یعنی غیرمسلم انسانوں کواسلام کی دعوت کاجوحکم ہے، اس کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ جس چیزکوایک مسلمان سچائی سمجھتاہے، اس کاانسانی فرض ہے کہ وہ اس سے دوسرے انسان کوآگاہ اورباخبرکرے، اوریہ انسانی خیرخواہی کالازمی نتیجہ ہے۔

          قرآن پاک نے تورات کے بعض احکام کودہرایاہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے  :

’’اورلوگوں سے بھلے طریقہ سے بات کرو۔ ‘‘  (بقرہ  :  2-83)

          لوگوں سیبھلے طریقہ سے بات کرنا اچھی بات کہنااوراچھائی سے پیش آنا، انسانیت کافرض ہے، جس میں کسی دین ومذہب کی تخصیص نہیں، دین ومذہب اورنسل وقومیت کااختلاف اس منصفانہ برتاؤسے بازنہ رکھے، اسی لئے ارشادہوا  :  ’’اورکسی قوم کی عداوت تم کواس پرآمادہ نہ کرے کہ تم عدل اورانصاف نہ کرو، عدل اورانصاف (ہرحال میں ) کرو، کہ یہ بات تقویٰ کے قریب ہے۔ ‘‘  (مائدہ  :  5-8)

          ہرقسم کابراسلوک اوربے رحمانہ برتاؤجوایک انسان دوسرے انسان، اورایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے، اس کااصل سبب یہی ہوتاہے کہ ایک دوسرے کے حق میں عدل سے کام نہیں لیتا، بلکہ اس پرظلم اوربے انصافی کے لئے آمادہ رہتاہے، یہ آیتِ انسان کے اسی مادۂ فاسدکے سرچشمہ کوبندکرتی ہے، ابوہریرہ ؓ اورانس ؓ بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت ا نے ارشادفرمایا    :  ’’آپس میں ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے پرحسدنہ کرو، اورنہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، اورسب مل کرخداکے بندے اورآپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘  (بخاری : کتاب الادب  باب الہجرۃ، جلد 2، صفحہ 897)

          بعض روایتوں میں الفاظ یہ ہیں :  ’’آپس میں ایک دوسرے کودھوکہ نہ دواورایک دوسرے پرحسد نہ کرو، اورنہ ایک دوسرے سے کینہ رکھو، اورنہ ایک دوسرے سے منہ پھیرواوراے خداکے بندوآپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘ (بخاری : کتاب الادب  باب الہجرۃ، جلد 2، صفحہ 896)

          اس حدیث پاک میں انسانی برادری کاوہ نقشہ کھینچاگیاہے، جس پرسچائی سے عمل کیاجائے تویہ شراورفسادسے بھری ہوئی دنیادفعتاًجنت بن جائے، فرمایا ’’جورحم نہیں کرتااس پررحم نہیں کیاجاتا۔ ‘‘ (بخاری : کتاب الادب  باب الہجرۃ، جلد 2، صفحہ 889)، جوبندوں پررحم نہیں کرتا، یایہ کہ جودوسروں پررحم نہیں کرتادوسرابھی اس پررحم نہیں کرے گا‘‘مستدرک حاکم میں ہے کہ آپ انے کہ تم زمین والوں پررحم کروتوآسمان والاتم پررحم فرمائے گا۔ ‘‘(مستدرک حاکم کتاب البروالصلۃجلد 4، صفحہ 159)، یہ حدیث رحمۃ للعالمین ا کی تعلیم کی شانِ رحمت کوکتنی عمومیت کے ساتھ ظاہرکرتی ہے، ایک اورموقع پرارشادہواکہ جومسلمان کوئی درخت لگائے گااس سے جوانسان یاپرندہ بھی کچھ کھائے گااس کاثواب اس لگانے والے کوملے گا۔ (صحیح بخاری : کتاب الادب  باب رحمۃ الناس والبہائم کے مختلف ابواب)

اس فیض کے عموم میں انسانیت کی قیدبھی نہیں ہے، ایک دفعہ آپ  ا نے ایک شخص کاقصہ بیان کیا، جس نے ایک جانورکے ساتھ نیک سلوک کیاتھا، کہ اس کواس کے اس کام پرثواب ملا، صحابہ ص نے پوچھا اے خداکے رسول ا !کیاجانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ہے ؟  فرمایاترجگرکے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے، یعنی ہراس ہستی کے ساتھ جس میں زندگی کی تری ہے، نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب الادب  باب رحمۃ الناس والبہائم کے مختلف ابواب)  اس ثواب کے دائرہ میں ہروہ ہستی شریک ہے جوزندگی سے بہرہ ورہے۔

          جامع ترمذی میں ہے کہ آنحضرت ا نے حضرت ابوذر ص سے ارشادفرمایا’’جہاں بھی ہوخداکاخیال رکھو، برائی کے پیچھے بھلائی کروتواس کومٹادوگے، اورلوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آؤ‘‘ (صحیح بخاری : ابواب البروالصلۃجلد2، صفحہ 19)   حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ ا نے پانچ باتیں گنائیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ ’’ تم لوگوں (ناس) کے لئے وہی چاہوجواپنے لئے چاہتے ہوتومسلمان بن جاؤگے‘‘  (ترمذی آغازابواب الزہدغریبٌ جلد 2 صفحہ 56)  الناس کالفظ عام ہے، جس میں تمام انسان داخل ہیں، اس سے معلوم ہواکہ جب تک سارے انسانوں کی بھلائی جذبہ دل میں نہ ہوانسان پورامسلمان نہیں بنتا۔

          کیونکہ دوسروں کے لئے وہی چاہناجواپنے لئے چاہو، اخلاق کی وہ تعلیم ہے جوانسانی برادری کے ہرقسم کے حقوق کی بنیادہے، ایک اورحدیث میں یہ تعلیم ان لفظوں میں انسان بھی، تورات اورانجیل کے اندریہی تعلیم ان لفظوں میں ہے کہ ’’تم اپنے پڑوسی کوایساچاہوجیساکہ تم اپنے آپ کوچاہتے ہو‘‘  (عہدنامہ جدیدمرقس 12صفحہ30)اسلام میں پڑوسیو ں کے حقوق کابیان علاحدہ باب میں گزرچکاہے۔ اس پریہاں ایک نظرڈال لینی چاہئے کہ صحابہ ٔ کرام صنے اس تعلیم کی پیروی میں یہودی اورعیسائی پڑوسیوں کاحق بھی مسلمان پڑوسیوں ہی کی طرح ماناہے۔

          صدقہ وخیرات کے باب میں گوفقرااورمساکین میں مسلمانوں کی ترجیح ایک قدرتی بات ہے تاہم حضرت عمرفاروق ص نے اپنی خلافت کے زمانہ میں نامسلمان ذمی مسکینوں کے حق کوبھی تسلیم کیا، قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج میں لکھاہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرصنے دیکھاکہ ایک بڈھاجواندھابھی تھاایک دروازہ پرکھڑابھیک مانگ رہاہے، حضرت عمرصنے پیچھے سے اس کے بازوپرہاتھ مارااورپوچھاکہ تم کوبھیک مانگنے کی ضرورت کیاپڑی، اس نے کہاجزیہ اداکرنے اوراپنی ضرورت پوری کرنے اوراپنی اس عمرکے سبب سے بھیک مانگتاہوں، حضرت عمرصاس کاہاتھ پکڑکراپنے گھرلائے اوراپنے گھرسے اس کوکچھ دیا، پھراس کوبیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجااورکہلوایاکہ اس کواوراس جیسے لوگوں کودیکھو، خداکی قسم ہم انصاف نہیں کریں گے، اگرہم اس کی جوانی کی کمائی توکھائیں اوراس کے بوڑھے ہونے پراس کی مددچھوڑدیں، قرآن میں صدقہ کی اجازت فقرااورمساکین کے لئے ہے، فقراتووہی ہیں جومسلمان ہیں، اوریہ لوگ مساکینِ اہلِ کتاب میں ہیں ان سے جزیہ نہ لیاجائے۔ (کتاب الخراج قاضی ابویوسف بہامشہ الجامع الصغیرللامام محمدصفحہ72 مصر)

          اسلام کایہ عام فیصلہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقے غیرمسلموں کودیئے جاسکتے ہیں، آنحضرت انے ایک یہودی خاندان کوصدقہ دیا، ام المؤمنین حضرت صفیہ ص نے اپنے دویہودی رشتہ داروں کو30 ہزارکی مالیت کاصدقہ دیا، امام مجاہدنے مشرک رشتہ دارکاقرض معاف کرنے کوثواب کاکام بتایاہے، ابن جریح محدث کہتے ہیں کہ قرآن نے(سورہ دہر :  76-8) ’’اسیر‘‘ کے کھلانے کوثواب بتایاہے، اورظاہرہے کہ صحابہ ص کے قبضہ میں مشرک ہی قیدہوکرآتے تھے، ابومیسرہ صاورعمروبن میمون ص اورعمرو بن شرجیل صصدقہ ٔ فطرسے عیسائی راہبوں کی مددکیاکرتے تھے۔ (کتاب الاموال امام ابوعبیدہ صفحہ613-614 مصر)آنحضرت اکے زمانہ میں حضرت عمرص نے اپنے مشرک بھائی کوتحفہ بھیجا(بخاری کتاب الجمعۃ باب مایلبس احسن مایجد جلد 122)اللہ نے بعضوں کوان کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب فضل النفقۃ الصدقۃ علی الاقربین جلد ا صفحہ 372)

          تفسیرکی روایتوں میں ہے کہ صحابہ  صجب مذہبی اختلافات کی بناپرغریب مشرکوں کی مدد سے کنارہ کرنے لگے تویہ آیت اتری    :  ان  کوراہ پرلے آناتیرے اختیارکی بات نہیں، لیکن اللہ جس کوچاہتاہے راہ پرلے آتاہے، اورجوبھلائی خرچ کرووہ تمہارے ہی لئے ہے۔ (طبری جلد 3  صفحہ 58)

          یعنی تم کوتمہاری نیکی کاثواب بہرحال ملے گا۔

          مسنداحمدمیں ہے کہ آپ انے مسلمانوں کوخطاب کرکے فرمایا  :

تم میں سے کوئی اس وقت تک پورامومن نہیں ہوگاجب تک وہ اورلوگوں کے لئے وہی نہ پسند کرے جواپنے لئے پسندکرتاہے، اورجب تک وہ آدمی کوصرف خداکے لئے پیارنہ کرے۔ (جلد 3  صفحہ 58)

          اس حدیث میں محبت انسانی کی وسعت ساری انسانی برادری تک وسیع کردی گئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔